(Last Updated On: )
زخم سب اس کو دکھا کر رقص کر
ایڑیوں تک خوں بہا کر رقص کر
جامۂ خاکی پہ مشت خاک ڈال
خود کو مٹی میں ملا کر رقص کر
اس عبادت کی نہیں کوئی قضا
سر کو سجدے سے اٹھا کر رقص کر
دور ہٹ جا سایۂ محراب سے
دھوپ میں خود کو جلا کر رقص کر
بھول جا سب کچھ مگر تصویر یار
اپنے سینے سے لگا کر رقص کر
توڑ دے سب حلقۂ بود و نبود
زلف کے حلقے میں جا کر رقص کر
اس کی چشم مست کو نظروں میں رکھ
اک ذرا مستی میں آ کر رقص کر
اپنے ہی پیروں سے اپنا آپ روند
اپنی ہستی کو مٹا کر رقص کر
اس کے دروازے پہ جا کر دف بجا
اس کو کھڑکی میں بلا کر رقص کر