1۔مال کی پاکیزگی:
زکوۃ کی ادائگی سے مال و دولت پاک صاف ہو جاتے ہیں۔ہر مسلمان کی کوشش ہونی چاہیے کہ رزق حلال ہی کمایا جائے،تاہم رزق حلال کے حصول میں بھی بعض اوقات مجبوراٌ یا رواجاٌ بہت مشکل ہو جا تا ہے کہ ناپسندیدہ امور سے بچ جایا جائے،اس صورت میں اگر مشکوک رزق شامل مال ہو جائے تو زکوۃ اس سارے مال کی پاکیزگی باعث بن جاتی ہے۔
2۔دولت کی محبت میں کمی اور صالح سوسائٹی کا قیام:
فطری طور پر انسان مال کی محبت میں گرفتار ہے اور یہ محبت بعض اوقات بہت زیادہ قباحتیں پیدا کرتی ہے اور انسان کو ہوس نفس کا پجاری اور لالچی و خود غرض بنا دیتی ہے،زکوۃ کی ادائیگی سے انسان ایسی قربانی دیتا ہے کہ اس کے دل سے دولت کی محبت کم ہو جاتی ہے اور وہ دولت کی محبت کی قباحتوں سے بچ جاتا ہے۔
مولانا مودودیؒلکھتے ہیں:”قرآن پاک میں اللہ تعالی دو قسم کے کرداروں کو پیش کرتا ہے،ایک کردار خود غرض،زرپرست اور شائلاک قسم کے انسان کا ہے جو خدا اور خلق کے حقوق سے بے پروا ہو کرروپیہ گننے اور گن گن کر سنبھالنے اور ہفتوں اور مہینوں کے حساب سے اسکو بڑھانے اور اسکی بڑھوتری کا حساب لگانے میں منہمک ہو۔دوسرا کردار ایک خدا پرست،فیاض اور ہمدرد انسان کاکردار ہے جو خدا اور خلق خدا دونوں کا خیال رکھتاہو،اپنی قوت بازو سے کما کر خود کھائے اور دوسرے بندگان خدا کو بھی کھلائے اور دل کھول کر نیک کاموں میں خرچ کرے۔پہلی قسم کا کردار خدا کو سخت ناپسند ہے،دنیا میں اس کردار پر کوئی صالح سوسائٹی نہیں بن سکتی اور آخرت میں ایسے کردار کے لیے غم و اندوہ اورکلفت و مصیبت کے سوا کچھ نہیں،بخلاف اس کے اللہ تعالی کو دوسری قسم کا کردار پسند ہے اس سے دنیا میں صالح سوسائٹی بنتی ہے اور وہی آخرت میں انسان کے لیے موجب فلاح ہے“۔
3۔گردش دولت:
زکوۃ کی ادائیگی سے معاشرے میں گردش دولت جنم لیتی ہے اور پیسہ چند ہاتھوں میں سمٹ آنے کی بجائے بہت سارے ہاتھوں میں گردش کرتا ہے اور جب پیسہ بہت سارے ہاتھوں میں گردش کرے گا تو بہت سارے لوگوں کے وہ مسائل ختم ہو جائیں گے جو رقم نہ ہونے کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔”سرمایا دارانہ نظام کا پورا ڈھانچہ ایسی نہج پر کھڑا کیا گیا ہے کہ قدرتی طور پر اس میں دولت کی گردش ناہموار رہتی ہے،پورے سماج کی دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں مرکوز ہو جاتی ہے اور دیگر افراد معاشرہ غریب سے غریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔اسلام گردش دولت کی اس ناہمواری کا شدت سے سدباب کرتا ہے،سود کی حرمت اور نظان زکوۃ کے نفاذ کے ذریعے اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹنے کی بجائے پورے معاشرے میں گردش کرتی رہے“(محمدنعیم عثمانی)۔
4۔ارتکاز دولت کا خاتمہ:
گردش دولت کا لازمی نتیجہ ارتکاز دولت کا خاتمہ ہے،ارتکاز دولت کے خاتمے سے معاشرے میں کاروبار چمکتے ہیں،روزگار کھلتے ہیں اور خوشحالی آتی ہے جس سے انسانی معاشرہ ترقی کرتا ہے اور غربت و جہالت میں کمی ہوتی ہے۔محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا ”تین اشیا میں سب انسان برابر کے شریک ہیں آگ،سبزا اور پانی“۔آگ سے مراد وہ سب ایندھن جن سے توانائی حاصل کی جاتی ہے،سبزہ سے مراد جنگلات اور ان میں پلنے والا شکار اور پانی سے مراد تمام آبی اور زیر زمین وسائل ہیں،حکومت ان وسائل سے حاصل ہونے والی آمدنی تمام آبادی میں برابر تقسیم کر دے تو معاشی مسئلہ پیدا ہی نہ ہو اور ارتکاز دولت کا خاتمہ ہو جائے۔
5۔طبقاتی کشمکش کا خاتمہ:
جب دولت چند ہاتھوں میں ہو تو وسائل سے محروم طبقوں میں اہل دولت کے خلاف نفرت و حقارت پرورش پاتی ہے اور معاشرتی طبقوں کے درمیان فاصلے بڑھتے ہیں اور بعض اوقات اتنے بڑھ جاتے ہیں ایک دوسرے کو برداشت بھی نہیں کرتے۔سوشلزم اور کیمونزم کی شکل میں انسانیت نے جو تباہ کن تجربات کیے وہ اسی طبقاتی کشمکش کا نتیجہ تھے۔اسکے برعکس زکوۃ امیر اور غریب کے درمیان فاصلے کم کر کے کشمکش کی بجائے پیار و محبت کو پروان چڑھاتی ہے۔محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا ”جن کے پاس قور یا طاقت(سواری)کا سامان اپنی حاجت سے زیادہ ہو اسے چاہیے کہ کہ وہ فاضل سامان اس محتاج کو دے دے جس کے پاس کچھ نہیں،جس شخص کے پاس اشیائے خودرونوشت ضرورت سے زائد ہوں وہ اپنا فاضل سامان محتاج کو دے دے،حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں اس طرح محسن انسانیت ﷺ مختلف انواع مال کا ذکر کرتے رہے حتی کہ ہم نے گمان کر لیا کہ ہم میں سے کسی شخص کو اپنے فاضل مال پر کسی قسم کا کوئی حق نہیں“۔
7۔غربت جہالت اور جرائم میں کمی اور اقتصادی توازن:
پیٹ بھرجائے تو بچہ آرام کی نیند سوتا ہے اور پیٹ خالی ہو تو وہ معصوم بھی سارا گھر سر پر اٹھا لیتا ہے اسی طرح جس معاشرے میں بنیادی ضروریات جن میں خوراک،صحت اور تعلیم شامل ہیں پوری ہوتی رہیں تو وہاں امن و امان رہتا ہے اور جہاں ایک طرف توامیر لوگوں کے جانور بھی عیش و آرام اور سکون کی نیند سوئیں اور دوسری طرف انسانوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہ ہوں پھر وہاں غربت جہالت اور انکے نتیجے میں جرائم بڑھ جاتے ہیں جبکہ زکوۃ کا فریضہ انسانی معاشرے کو اس برے انجام سے محفوظ رکھتا ہے۔محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا ”ایک علاقے کے امرا سے زکوۃ وصول کر کے اسی علاقے کے غرباء میں تقسیم کرو“۔
ماہر القادری لکھتے ہیں:”اس حکم پر عمل کرنے سے ایک بستی میں اقتصادی توازن پیدا ہو گا اور امیروں کی زکوۃ پر غربا اپنی روزمرہ زندگی کی بنیاد رکھیں گے اور اپمی ہمت و توانائیوں سے محنت و مزدوری کر کے تو اس قابل ہو سکیں گے کہ زکوۃ دینے کے قابل ہو سکیں چنانچہ معاشی عدم توازن سے پیدا ہونے والی طبقاتی کشمکش کا سدباب ہو سکے گا۔یہ نکتہ کارل مارکس اور اینجلز کی سمجھ میں آ جاتا تو وہ ایک غیر فطری فلسفہ اقتصادیات میں اپنی توانائیاں ضائع نہ کرتے“۔
8۔ زکوۃ ادا کرنے سے مال بڑھتا ہے:
قرآن میں اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ جو اسکے راستے میں خرچ کرے گا اللہ تعالی اسے بڑھا چڑھا کر اس دنیا میں بھی دے گا اور آخرت میں بھی دے گا اور اللہ تعالی سے بڑھ کر اور کون اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہے؟ قرآن نے یہ بھی بتایا کہ صدقات سے بظاہر دولت کم ہوتی نظر آتی ہے لیکن اصل میں بڑھ رہی ہوتی ہے اور سود سے بظاہر دولت بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے جبکہ حقیقت میں کم ہو رہی ہوتی ہے اور قرآن سے زیادہ سچی کتاب اس زمین کے سینے پر موجود نہیں۔محسن انسانیت ﷺ کے ہاں ایک بار بکری ذبح ہوئی،گھر تشریف لائے تو پوچھا (بکری میں سے)کیا بچا ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا نے فرمایا ایک دستی بچی ہے(باقی غریبوں میں تقسیم کر دیا تھا)آپ ﷺ نے فرمایا یوں کہو کہ ایک دستی خرچ ہو گئی ہے جو(غریبوں میں)تقسیم کر دیا ہے وہ بچ گیا ہے۔اسی طرح ایک بار اپنے مقدس و محترم ساتھیوں سے پوچھا کس کو اپنا مال پسند ہے اور کس کو اپنے وارث کا مال پسند ہے؟سب نے جواب دیا کہ ظاہر ہے ہر کسی کو اپنا مال ہی پسند ہے بھلا وارث کا مال کسے پسند ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا جو اللہ تعالی کے راست میں دے دو گے وہ تمہارا ہے اور جو بچا کے رکھ چھوڑو گے وہ تمہارے وارث کا ہے۔
9۔اجتماعی فکر:
محسن انسانیت ﷺ نے زکوۃ کو ایک سرکاری ادارے کی حیثیت سے متعارف کرایا اور اسکی تقسیم کا اجتماعی انتظام کیا تاکہ فرد،فرد کا احسان مند ہو کر اپنی عزت نفس ختم کرنے کی بجائے فرد معاشرے کا احسان مند ہو۔
ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں ”اسلامی نظم معیشیت میں بلاشبہ زیادہ کمانے والے موجود ہوں گے کیونکہ سعی و کسب کے بغیر کوئی مومن زندہ نہیں رہ سکتا،لیکن جو فرد جتنا زیادہ کمائے گا اتنا ہی زیادہ انفاق پر بھی مجبور ہوگا اور اس لیے افراد کی کمائی جتنی بڑھتی جائے گی اتنا ہی زیادہ انفاق پر بھی مجبور ہوگا اور اس لیے افراد کی کمائی جتنی بڑھتی جائے گی جماعت بحیثیت جماعت کے خوشحال ہوتی جائے گی“۔
ایک مسلمان جب اپنے مال میں سے زکوۃ کی رقم لے کر باہر نکلتا ہے تاکہ کسی غریب کی ضرورت کو پورا کرے تو اس وقت وہ اللہ تعالی سے جتنا قریب ہوتا ہے اسکا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔وہ غریبوں کی دعائیں لیتا ہے،انکی ہمدردیاں سمیٹتا ہے،انکی عزت و احترام کا مستحق ٹہرتا ہے اور معاشرے سے جتنی محبتیں اسے میسر آتی ہیں اس کو ناپنے کا کوئی پیمانہ موجود نہیں ہے چنانچہ اس شخص سے اللہ تعالی اپنا وعدہ پورا کرتا ہے اور اسکے مال خرچ کرنے کے نتیجے میں اسکے گناہ معاف کر دیتا ہے۔
10۔رضائے الہی:
یہ سب سے بڑا فائدہ ہے جو زکوۃ ادا کرنے والے کو حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اس سے خوش ہو جاتا ہے،اسے اپنا قرب عطا کرتا ہے،اسکے درجات بلند کرتا ہے،اسے گناہوں سے پاک صاف کر دیتا ہے،اسکے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے،اسکی سرپرستی و دست گیری فرماتا ہے،مشکل وقت میں اسکو اکیلا نہیں چھوڑتا،اسکے دوستوں کو اپنا دوست بناتا ہے اور اسکے دشمنوں کو سخت سزا دیتا ہے،خوف اور غم سے اسکی حفاظت کرتا ہے اسے اپنے اولیا میں شامل کرتا ہے اس پر اپنی رحمتوں کی بارش کرتا ہے اس پر اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتا ہے اور اسے مزید توفیق عطا کرتا ہے کہ وہ انسان اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرتا چلا جائے۔یہاں تک کہ وہ زکوۃ ادا کرنے والا اپنے رب کے حضور پیش ہو تا ہے توحیران رہ جاتا ہے کہ اس کے رب نے اس کے لیے کیسی عالیشان جنت تیار کر رکھی ہے۔