زینب، میری بیٹی
کم سن زینب کے لرزہ خیز قتل نے پورے ملک میں غم وغصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس طرح کے واقعات ہمارے ملک میں بڑھتے جارہے ہیں۔ ہرکسی کے پاس دوسرے کو قتل کرنے کا جواز موجود ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو قتل کرنے کا اجازت نامہ اپنے ہاتھوں میں لیے ہوتا ہے۔ آپ ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بآسانی دیکھ سکتے ہیں جس میں کوئی کسی دوسرے شخص کو قتل کرنے کا اعلان کررہا ہے۔ وہ شخص حکومت میں اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہے یا کچے گھروں میں رہنے والے۔ اس طرح کے المیے کے بعد جیسے حکومتی مذمتی بیانات جاری ہوتے ہیں، ویسے ہی ہمارے درمیانے طبقے کے لوگ واویلا کرتے ہیں، جن کے ہاتھوں میں سمارٹ فونز ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر آکر مشال خان کے قتل کا ذمہ دار خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ اور زینب کے قتل کا تمام تر ذمہ پنجاب کے وزیراعلیٰ پر تھوپتے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک آسان اور سطحی ردِعمل ہے جو سطحی فکر کے سبب کیا جاتا ہے۔ زینب کا قتل ہو یا مشال کا قتل، یہ درحقیقت اس شیطانی فکر کے عملی غلبے کا مظاہرہ ہے جو سماج میں دن دگنی اور رات چوگنی پھیلتی جا رہی ہے۔
قتل کرنے کی سوچ کے کئی زاویے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہر حوالے سے قتل کے رحجانات، بربریت کے انداز بڑھتے جا رہے ہیں۔ عقیدے کی بنیاد پر، سیاسی فکر کی بنیاد پر، دیگر مجرمانہ شیطانی فکر کی بنیاد پر۔ زینب آج قتل ہوئی، سارا ملک سناٹے میں پھیل گیا۔ کل کوئی اور زینب قتل ہوجائے گی۔ ایک وقفہ ہے دوسرے سانحے میں۔ بس۔ اور کچھ بھی نہیں۔ کسی ایک فرد پر ذمہ داری ڈالنا آسان بات ہے۔ اور یہ مسئلے کا حل بھی نہیں۔ زینب کے قتل کے ذمہ دار وزیراعلیٰ شہباز شریف نہیں، مجھ سمیت ہم سب لوگ ہیں۔ ہم لوگ جو ایک جج کی بحالی پر یقین کیے بیٹھے تھے کہ عدالت عظمیٰ کے جج کی بحالی کے بعد انصاف کی بارشیں ہوںگی۔ عدالتوں میں عدل وانصاف کے چشمے پھوٹ پڑیں گے۔ بس ایک فرد کو بحال کردو۔ دیکھ لیا، نہ عدالتوں میں انصاف کے چشمے پھوٹے نہ سماج میں عدل کی بارشیں ہوئیں۔ انصاف وعدل جب سارے سماج میں معدوم ہوجائے، انسانی قدروں کی جگہ شیطانی قدریں لے لیں تو پھر مشال اور زینب قتل ہی ہوں گے۔ میرے لیے یہ لفظ بے معنی ہے، جب ایسے کسی سانحے پر کہا جاتا ہے، ’’درندگی‘‘۔ کتنے درندے ہیں جن کے ہاتھوں یہاں بسنے والے لوگ قتل ہوئے ہیں؟ لاہور اور قصور کی سڑکوں پر کتے بہت دیکھنے میں آتے ہیں، جن کو ہم آوارہ کتے کہہ کر پکارتے اور دھتکارتے ہیں۔ کبھی کوئی خبر آئی کہ کتوں یا کسی درندوں کے ہاتھوں زینب یا مشال قتل ہوگئے؟کتنے لوگ ہیں جو اسلام ا ٓباد میں رات کو سڑکوں پر گھومنے والے جنگلی سؤروں کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں؟ نہیں۔ قتل کرنے والے وہی شیطان ہیں جو ’’شیطانی فکر‘‘ کے اسیر ہوتے جا رہے ہیں۔
جب کسی انسان کو کوئی دوسرا انسان کسی بھی بنیاد پر قتل کردے تو درحقیقت قتل کرنے والا انسانیت سے نکل کر شیطانیت کے دائروں میں داخل ہوچکا ہوتا ہے۔ اب تو عوامی مظاہروں میں دوسروں کو قتل کرنے کے اعلانات کیے جاتے ہیں۔ اور جب کوئی زینب قتل ہوجائے، عوام بس یہ بیان جاری کرکے عہدہ برآ ہوجائیں کہ زینب کے قتل کا ذمہ دار شہباز شریف اور مشال خان کے قتل کا ذمہ دار پرویز خٹک ہے۔ دوسروں پر ذمہ داری ڈالنے والا سماج ایک زوال یافتہ سماج ہوتا ہے۔ مجھے ایک نوجوان اینکر اسد اللہ خان کی فیس بُک دیکھ کر بڑا حوصلہ ملا، جس میں انہوں نے زینب کے ساتھ اپنی بیٹی کی مہ روش تصویر لگائی اور یہ لکھا کہ زینب میری بیٹی ہے اور یہ بربریت میری بیٹی کے ساتھ ہوئی ہے۔
کوئی قوم یا گروہ جب سماج کی ذمہ داری کسی ایک شخص پر ڈالنا شروع کر دیتا ہے تو پھر زینب قتل ہی ہوتی ہیں۔ مشال کو قتل کرنے والے نوجوان اس کے ساتھی طلبا تھے، جنگلوں سے آئے درندے نہیں۔ اور اسی طرح زینب کا قاتل بھی اسی معاشرے میں دندناتا پھر رہاہے۔اور ایسے قاتل جگہ جگہ پھر رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں کہ ’’قتل کرنے کی فکر‘‘ جو سماج کے ہر شعبے میں پھیلتی جا رہی ہے۔
ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
سوائے ایسے معاشروں میں جہاں Civilization طاقت پکڑ جائے۔ اس شیطانی فکر کے خلاف ایک انسانی فکر درکار ہوتی ہے جو قتل کی جگہ زندہ رہنے اور زندہ رہنے دینے، برداشت کرنے اور ’’حیاتِ نو‘‘ کے اصولوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ دوسروں کو قتل کا ذمہ دار ٹھہرانا بہت آسان ہے۔ زینب میری بیٹی، ہم سب تیرے قاتل ہیں۔ میری پیاری بیٹی زینب۔
“