زینب کے بعد اب جسٹس فار نور فاطمہ
کچھ روز پہلے پنجاب کے علاقے چیچہ وطنی میں ایک دلخراش اور خوفناک واقعہ پیش آیا ۔۔اس علاقے میں آٹھ سالہ نور فاطمہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد زندہ جلادیا گیا ۔۔گزشتہ اتوار کو روز اسلامی جمہوری پاکستان کی معصوم بچی نور فاطمہ گھر سے ٹافیاں لینے باہر نکلی،اس کے بعد کسی درندے نے نور فاطمہ کو اغوا کر لیا ۔۔گھر والوں اور رشتہ داروں نے اس کے بعد نور فاطمہ کی تلاش شروع کردی ۔۔گزشتہ روز وہ بچی چیچہ وطنی میں ایک جگہ سے ملی ،اس کا پورا جسم جلا ہوا تھا ،ڈاکٹروں کے مطابق نور فاطمہ کا تقریبا اسی فیصد جسم جل چکا تھا ۔۔اسپتال میں لائی گئی ،جانبر نا ہو سکی ،آج معصوم نور فاطمہ کو دفنا دیا گیا ہے ۔۔۔اس کے بعد چیچہ وطنی میں غم و غصے کی لہر ہے ،جلاو گھراو کیا جارہا ہے ،شدید احتجاج کا سلسلہ جاری ہے ۔۔اس سے پہلے قصور میں اسی طرح ایک درندے نے معصوم بچی زینبکو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا تھا ۔۔۔قصور میں بچوں کے جنسی زیادتی کا اسکینڈل بھی سامنے آچکا ہے ۔۔پاکستان میں بار بار بچوں اور بچیوں سے زیادتی کے واقعات پیش آرہے ہیں ،ایک ملزم پکڑا جاتا ہے ،جلسے جلوس اور احتجاج و مظاہرے ہوتے ہیں ،مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ملزم کو چوک میں پھانسی پر لٹکا دیا جائے ۔۔۔پھر خاموشی ہو جاتی ہے ،اور کچھ عرصے کے بعد زینب جیسا کوئی اور واقعہ پیش آجاتا ہے ۔۔نور فاطمہ کے والد نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعلی پنجاب اور چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ وہ نوٹس لیں اور مجرم کو گرفتار کرکے اسے سخت سزا دی جائے ۔۔۔نور فاطمہ کو ہر صورت انصاف ملنا چاہیئے ،یہ کیسا ظلم ہے کہ پھول جیسی بچی کو کسی درندے نے اغوا کیا ،اس کے ساتھ ریپ کیا اور پھر اس معصوم کو زندہ جلادیا گیا ۔۔کیا اس کائنات میں اس سے بڑا کوئی اور جرم ہو سکتا ہے؟اب وزیر اعلی پنجاب جناب شہباز شریف صاحب نے نور فاطمہ کے قاتل کی گرفتاری کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے ،آر پی او شیخوپورہ زوالفقار علی اس کمیٹی کے سربراہ ہیں ۔۔یہ کمیٹی ایک ہفتے میں رپورٹ وزیر اعلی شہباز شریف کو پیش کرے گی ۔۔پولیس کا کہنا ہے کہ دس افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے ،یہ دس افراد وہ ہیں جو اس محلے میں رہتے ہیں جہاں بدقسمت نور فاطمہ رہتی تھی ۔۔۔اس کے علاوہ ان مشتبہ افراد کے ڈی این ائے سیمپلز لیباٹری بھیج دیئے گئے ہیں ۔۔ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ چار دن بعد آئے گی ۔۔۔اب سوال یہ ہے کہ جہاں یہ ظلم ہوا ،یہاں جہاں سے نور فاطمہ کو اغوا کیا گیا ،وہاں سی سی ٹی وی کیمرہ تھا یا نہیں ؟پولیس نے اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا صرف یہ کہا گیا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں،جلد اس درندے کو گرفتار کر لیا جائے گا جس نے نور فاطمہ کو بے دردی سے قتل کیا ہے ۔۔پاکستان کے معروف اخبارت کی رپورٹس کے مطابق گزشتہ اٹھتالیس گھنٹوں کے دوران قصور میں ہفتے اور اتوار کو مختلف واقعات میں سات بچوں کا اغوا کیا گیا ،ان کے ساتھ ریپ کیا گیا ۔۔قصور کے ایک علاقے میں دو بچوں کو چار افراد نے اغوا کیا ،ان کے ساتھ جنسی تشدد کیا ،ان میں سے ایک بچہ مجرموں کے چنگل سے بھاگ جانے میں کامیاب ہوا ،اسی وجہ سے واویلا مچا ،جس کی وجہ سے چاروں ملزم گرفتار کر لئے گئے ۔۔ایک اور واقعہ قصور کے علاقے کوٹ ماوتی میں پیش آیا ،جہاں ایک حجام نے بارہ سالہ بچے کے ساتھ ریپ کیا ،اس حجام کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے ۔۔قصور کے علاقے بٹکلہ میں ایک شخص نے پانچ سالہ بچے کو اغوا کیا ،اس معصوم کا ریپ کیا گیا ،جبکہ مجرم فرار ہو گیا ہے جسے ابھی تک گرفتار نہیں کیا جاسکا ۔۔۔قصور کے علاقے چراغ شاہ کے ایک ٹیوشن سنٹر میں ایک چھ سالہ بچے کا ریپ کیا گیا ۔۔۔ملزم ابھی تک فرار ہے جسے گرفتار نہیں کیا جاسکا ۔۔۔اسی طرح قصور کے علاقے بھسر پور میں سات سالہ بچے کا ریپ ہوا ۔۔اسی بھسر پور میں پانچ سالہ بچہ لاپتہ ہے ،ابھی تک اسے تلاش نہیں کیا جاسکا ۔۔۔زینب کا جب کیس سامنے آیا تھا ،دو ہفتے تک یہ خبر ہیڈ لائنز میں رہی ،کہا گیا مجرم کو سرعام پھانسی دی جائے ،اس کے بعد کیا ہوا ،خاموشی چھا گئ،غیرت سو گئی ،لیکن قصور میں معصوم بچوں کے اغوا،ان کے ریپ اور قتل کا سلسلہ جاری ہے ۔۔۔۔قصور ویڈیو اسکینڈل سے متاثرہ ایک بچے دانش علی نے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے کہ اسے اور اس کی فیملی کو طاقت ور افراد جی وہی طاقتور افراد جنہوں نے دانش کا ریپ کیا تھا ،قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔۔۔۔جی وہی قصور ویڈیو اسکینڈل جس کے ملزموں کو عدالتیں آہستہ آہستہ چھوڑ رہیں ہیں ،دو دن پہلے بھی قصور ویڈیو اسکینڈل میں ملوچ کچھ افراد کو بری کردیا گیا تھا ۔۔۔ویڈیو اسکینڈل سے متاثرہ بچے اور ان کے خاندان خوفناک اور دردناک زندگی گزار رہے ہیں ،ایک تو ان بچوں کے ساتھ ریپ کرکے ان کی ویڈیوز بنائی گئیں ،دوسرا انہیں جان سے مارنے کی بھی دھمکیاں دی جارہی ہیں ،حالانکہ قصور ویڈیو اسکینڈل سے متاثرہ خاندان اپنے علاقے سے نقل مقانی کر چکے ،پھر بھی ان کو قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں ،اندازہ کریں بیچارے کس مصیبت سے دوچار ہیں ۔۔۔پاکستان میں ضروری ہے کہ تمام ضلعوں میں ڈی این ائے ڈیٹا بنک ہو جہاں ہزاروں افراد کا ڈیٹا پروفائل موجود ہو۔۔۔ ۔۔۔ڈی آئی جی ایسٹ کراچی نے گزشتہ روز ایک نیوز کانفرس کی تھی جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ ایک مجرم امجد علی کو گرفتار کیا گیا ہے ،اس نے ساتھ بچیوں کے ساتھ ریپ کیا ہے ،ان ساتوں بچیوں کی عمریں چھ سے آٹھ سال کے درمیان ہے ۔۔امجد علی ڈی این اے میچنگ کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے ۔۔۔اس سے اندازہ لگالیں کی ڈی این ائے پروفائل بنک کا ہونا کتنا ضروری اور اہم ہے ۔۔۔امجد علی کو سی سی ٹی وی فوٹیج سے گرفتار کیا گیا ہے ،ملزم کے قبضے سے پانچ موبائل بھی برآمد ہوئے ہیں ،کہا گیا ہے کہ یہ لزم سیریل ریپیسٹ اور کلر ہے جو ممکن ہے سینکڑوں وارداتوں میں ملوث ہو ،امجد علی کا تعلق جھنگ سے ہے جو پانچ سال پہلے روزگار کے لئے کراچی میں آیا تھا ۔۔اس کا مطلب ہے کہ اگر سائینٹفک پولیس انکوائری ہو تو درندوں کو گرفتار کیا جاسکتا ہے ۔۔۔بچوں سے جنسی زیادتی اور ان کا قتل اور اغوا خوفناک اور دل دہلا دینے والی وارداتیں ہیں ،جن کا سد باب بہت ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔ایک تنظیم ہے جو بچوں کے اغوا ،ان پر تشدد پر نظر رکھتی ہے اور ہر سال رپورٹ بھی شائع کرتی ہے ،اس تنظیم کا نام ہے ساحل ۔۔۔ساحل کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں روزانہ 9 بچے اور بچیاں جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں ۔۔۔گزشتہ سال یعنی2017 میں بچوں پر تشدد کے 3445 واقعات رکارڈ پر آئے ۔۔ان میں سے 1746 واقعات میں بچوں اور بچیوں کا ریپ کیا گیا ۔۔1039 واقعات میں بچے اور بچیاں اغوا کی گئی ۔۔جنسی استحصال کا شکار ہونے والوں میں 58 فیصد بچیاں ہیں اور 42 فیصد بچے ہیں ۔۔گزشتہ سال 158 بچیوں اور 180 بچوں کو اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔۔یعنی ان کا گینگ ریپ کیا گیا ۔۔109 واقعات میں بچوں اور بچیوں کو ریپ کے بعد قتل کردیا گیا ۔۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریپ کے بعد قتل کی وارداتوں میں 2016 کی نسبت گزشتہ سال میں نو فیصد اضافہ ہوا ہے ۔۔۔پچھلے سال جو واقعات ہوئے ان میں ساٹھ فیصد ایسے واقعات تھے جس میں خاندان کے افراد اور رشتہ دار یا ان کے جاننے والے ملوث تھے ۔۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 76 فیصد واقعات دیہی علاقوں میں جبکہ 24 فیصد واقعات شہری علاقوں میں ہوئے ۔۔۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب وہ صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے ،ان کا ریپ کیا جاتا ہے اور پھر ان کو قتل کردیا جاتا ہے ۔۔۔پنجاب کے ضلع راولپنڈی میں سب سے زیادہ بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں ۔۔۔پاکستان میں بچوں کی کم عمری کی شادی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے ۔۔۔2017 میں جبری شادی کے 143 واقعات رپورٹ ہوئے ۔۔۔63 فیصد جبری شادیاں سندھ میں کی گئی ۔۔یہ تو تھی رپورٹ جو واضح طور پر یہ بتا رہی ہے کہ پاکستان بچوں اور بچیوں کے لئے غیر محفوظ ملک بنتا جارہا ہے ۔۔۔اس ملک میں بچوں اور بچیوں کو محفوظ کرنا ہے تو پولیس تحقیق کو سائینٹیفک کرنا ہوگا ،شعور اور آگہی کی مہم کو تیز کرنا ہوگا ،اس کے لئے ضروری ہے کہ میڈیا اپنا اصلی اور حقیقی کردار ادا کرے ۔۔۔بہت عرصہ پہلے امریکہ میں ایمبر نامی ایک بچی لاپتہ ہو گئی تھی ،کچھ عرصہ بعد اس کی لاش ملی ،تفتیش اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ زیادتی کے بعد اسے قتل کردیا گیا تھا ۔۔یہ واقعہ بہت زیادہ رپورٹ نہیں ہوا تھا ۔۔۔اس لئے اب امریکہ میں کوئی بچہ گم ہو جائے تو الرٹ جاری کیا جاتا ہے ،اس الرٹ کو ایمبر الرٹ کہا جاتا ہے ۔۔۔یہ الرٹ امریکہ میں تمام مقامی میڈیا اور چینلز تک پہنچ جاتا ہے ۔۔اس کے علاوہ اس الرٹ کو سوشل میڈیا پر بھی اپ لوڈ کردیا جاتا ہے ۔۔پاکستان میں ہزاروں ایپ ڈیویلپرز ہیں جو پنجاب سپیشل یونٹ کے ساتھ کوارڈینیٹ کرکے اس طرح کا پروگرام ترتیب دے سکتے ہیں ۔۔۔پاکستان میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹ ہے اسے اس طرح کا پروگرام ترتیب دینا چاہیئے ۔۔پاکستان میں اب انٹرنیٹ کا بھی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ،جہاں بچہ گم ہو ،الرٹ جاری ہو ،تمام میڈیا ،اخبارات تک خبر پہنچے ،اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر خبر کو اپ لوڈ کردیا جائے ۔۔اس کے لئے وٹس ایپ کا استعمال کیا جاسکتا ہے ۔۔۔سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو کافر کہنے کے ساتھ ساتھ اس طرح کا کام بھی لیا جاسکتا ہے ۔۔بچوں کی حفاظت کرنا معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے لیکن بطور ماں باپ یہ تمام پاکستانیوں کا فرض ہے کے آپ اپنے بچے کو ان تمام حفاظتی اقدامات سے روشناس کروائیں جس کے ذریعے وہ اپنی حفاظت کرسکتا ہے۔اس میں سب سے اہم بچوں کو ان کی جسم کے ذاتی حصوں کے بارے میں بتائیں جس تک کسی کو رسائی کا حق حاصل نہیں سوائے ماں باپ اور ان کی موجودگی میں ڈاکٹرز کو۔چونکے یہ دیکھا گیا ہے کے بچوں سے زیادتی میں قریبی رشتے دار یا ایسے افراد ملوث ہوتے ہیں جن کو بچہ جانتا ہے تو اپنے بچے کو اس بات کی تعلیم دیں کے ماں باپ کو بتائے بغیر وہ کسی کے ساتھ نہ جائے۔بچے کی زندگی میں رہنے والے قریبی افراد کے بارےمیں خود بھی جاننے کی کوشش کریں اور اپنے بچے سے روز مرہ کی سرگرمیوں کی بات کریں۔ بچوں کو مناسب اور غیر مناسب طریقے سے چھوئے جانے کے بارے میں تعلیم دیں۔بچے کو بتائیں کے اگر کوئی اس کے جسم کے ذاتی حصوں پر ہاتھ لگانے کی کوشش کرے اور ان تمام باتوں کو راز رکھنے کو کہیں تو بچہ یہ تمام باتیں آپ سے کرے۔بچے کو اعتماد دیں کے اگر کوئی غیر اخلاقی حرکت کرے اور کسی کو بتانے کی صورت میں نقصان پہنچانے کا کہے تو اس سے ڈرے بغیر ماں باپ یا اپنے بڑوں سے شیئر کرے۔بچے کے دوست بنیں اور یہ بتائیں کے ماں باپ سے کوئی رازداری نہیں اور کوئی بھی بات چھپی ہوئی نہیں ہونی چاہیے۔ بچوں کو بھروسے مند افراد کے علاوہ کسی کے ساتھ اکیلا مت چھوڑیں۔بچے کو بتائیں کے اگر کوئی مفت چیز دینے کی کوشش کرے تو اس سے ہرگز نہ لے۔نہ اس کے ساتھ کہیں جائے۔پاکستان میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ جس طرح کی بدسلوی ہورہی ہے ،اس کے لئے ایک بہترین اسٹریٹیجی کی ضرورت ہے ،ایسی اسٹریٹیجی جس میں سائینٹیفک پولیسنگ سسٹم ہو ،اس کے علاوہ ڈی این ائے پروفائلنگ بنک ۔۔ساتھ ساتھ میڈیا پر والدین اور بچوں کی آگہی کے حوالے سے پروگرام اور اشتہارات ترتیب دیئے جائیں ۔۔۔بچوں پر بڑھتے مظالم کا سلسلہ بہت خوفناک اور خونی ہو گیا ہے ،اسی لئے ھکومت ،عوام اور میڈیا کواس پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیئے ۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔