زینب کیس ایک سماجی مطالعہ:
ہمارے ہاں جہاں میڈیا سنسنی خیزی، جذباتیت، افواہ سازی، مفروضوں، ادھوری معلومات اور ریٹنگ بڑھانے کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ وہاں ایک عام سا صحافی لیکن سماجی شعورسے لیس جب اپنے ادارے کی طرف سے رپورٹنگ پربھیجا جاتا ہے۔ تو وہ اپنے چینل یا اخبارکا صرف پیشہ ورانہ پیٹ ہی نہیں بھرتا۔۔ بلکہ ایک سماجی سائنس دان کی حثیت سے تمام پہلووں کا انسانی اورفکری سطح پر تجزیہ بھی کرتا ہے۔ زینب نام کی بچی جنسی بربریت کا نشانہ بننے والی بچیوں کا استعارہ بن گئی۔ یہ وہ جرائم اورگناہ ہیں۔ جسے ہماری نیک اسلامی لیکن بے حس سوسائٹی نے کارپٹ کے نیچے دبا رکھا ہے۔ لیکن جب کرائم کارپٹ کوپھاڑکرہمیں معاشرے کا مکروہ چہرہ دکھاتا ہے تو چند دن کے لئے ریاستی، حکومتی، معاشرتی سطح پرواویلا دیکھنے کومل جاتا ہے۔ جس کا زیادہ ترمقصد خود کو'نیک' معاشرے کے طورپرثابت کرنا ہی ہوتا ہے۔ ہم نے خود کوکبھی اکیڈیمک احتساب کے سامنے نہیں رکھا۔ ویسے بھی یہ زمینی اورغربت کے مسائل ہیں۔ جب کہ ہم حب الوطنی کی اونچی فضاوں میں اڑنے والا ہجوم ہیں۔ یہ ڈی پی او وہاڑی جناب عمرسعید ہی تھے، جنہیں اس کیس کی گھتی سلجھانے اورملزم تک پہنچنے کی زمہ داری دی گئی تھی۔ میں نے احمد اعجاز کی جب یہ کتاب ان کوپیش کی، تووہ قدرے حیران ہوئے۔ کہ اتنی جلدی۔۔اس کیس پرکوئی سنجیدہ کتاب بھی آسکتی ہے۔ اورجب انہوں نے کتاب کے کچھ اوراق کوپلٹا اورچند سطریں پڑھیں۔ تو وہ مزید حیران ہوئے۔ کہ مصنف نے تمام حقائق کوہوبہو لکھا ہے۔ اس میں کچھ بھی مبالغہ آمیزی، چٹ پٹا یا عامیانہ سطحی باتیں نہیں لکھی گئی۔ احمد اعجاز کا یہ وہ کام ہے، جوہماری ییورسٹیوں کے سوشیالوجی کے اداروں کا دراصل کام ہے۔ لیکن بالائی سطح پرمعاشرے کی زہنی تباہی کے بعد اصلاح اورعلمی فکری ارتقا کا بار فری لانسرز زود حس افراد کے کندھوں پرآ چکا ہے۔ یہ 106 صفحات کی چھوٹی سی کتاب ہے۔ لیکن اپنے موضوع پرجامعیت کا مظہرہے۔ انہوں نے یہ کتاب بڑی دردمندی اورمحنت سے تحقیق کرکے لکھی ہے۔ شورشرابے کا اضطراری دورتوگزرگیا۔ اصل میں اب ہمارے معاشرے کا اصل امتحان ہے۔ ہم سب کویہ کتاب پڑھنی چاہئے۔ تاکہ آئینے میں اپنے سماج، مختلف کرداروں اورخود کودیکھ سکیں۔ 'کھلے عام پھانسی' دو، کہنا بڑا آسان اورجہلانہ کام ہے۔ مجرم عمران جس نے معصوم روحوں کوکچلا، اس کی اپنی کہانی پڑھنی والی ہے۔ دوکمروں کے مکان آتھ دس افراد کے ساتھ رہتا ہے۔ جس کی گلی ایکڑوں پرپھیلے گندے نالے اورکچرے کے وسیع زخیرے کی طرف کھلتی ہے۔ وہ اپنے احساس گناہ کونعت خوانی کرکے دبا دیتا تھا۔ وہ خود بچپن میں جنسی زیادتی کا کثرت سے شکارہوچکا تھا۔ کتاب میں شکارہونے والی 9 بچیوں کی پروفائل دی گئی ہے۔ اگرچہ دل گردہ چاہئے ان کوپڑھنے کے لئے۔ ان میں 6 انتہائی غریب ماں باپ کی بچیاں تھی۔ یہ وہ گھرانے ہیں۔ جہاں بچے پیدا نہیں کئے جاتے، بس ان کا ڈھیرلگتا جاتا ہے۔ احمد اعجاز نے بتایا کہ ان بچیوں کے والدین کومجرم کوسزا سے نہیں۔۔کسی طرح حکومت سے پیسے مل جائیں، ان سے زیادہ دلچسپی تھی۔ ہماری قوم کی سائیکی بھی بتائی گئی ہے۔ کہ جب کیس کومیڈیا میں اتنی ہائپ مل گئ تھی۔ قوم کے ہرفرد کی زبان پریہی خبرتھی، توجب ملزم ایک نہائت غریب عام سا نوجوان ملا، توپوری قوم کونہائت مایوسی سی ہوئی۔ ان کواس میں کوئی بڑا اسکینڈل، کوئی بڑی شخصیت درکار تھی۔ پڑھے لکھے یقین سے کہہ رہے تھے، بس ویسے ہی کسی غریب پرمدھا ڈال دیا ہے۔ اس کتاب میں مذکورہ جرم کے تمام پہلووں پربحث کی گئی ہے۔ پولیس کی غفلت، دانش وروں، شاعروں ادیبوں کا ردعمل کیا تھا۔ کیسے لاتعداد راہ گزر لوگوں کوپکڑپکڑکران کے ڈی این اے کرائے گے۔ احمد اعجاز دیباچے میں لکھتا ہے۔ "مجھے زندگی سے پیارہے، اورمیں زندگی کوخوبصورت بنانے کے لئے لکھتا ہوں'۔ یقینی طورپرپاکستانی سماج کوخوبصورت بنانے میں احمد اعجاز کی شاندارکاوش ہے۔ یہ کتاب تمام اسکولوں، کالجوں، اوریونیورسٹیوں، پولیس کی لائبریریوں میں رکھنی چاہئے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“