میں سکردو میں ہوں اور اپنے پڑھنے والوں کو بتانا چاہتا تھا کہ دیوسائی میدان کی شاہراہ کے ساتھ حکومت نے کیا سلوک کیا ہے۔ دیوسائی دنیا کا بلند ترین ہموار میدان ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ چودہ ہزار فٹ بلند ،اتنا بڑا ،میدان دنیا میں اور کہیں نہیں، لیکن جو ”شاہراہ“ سکردو سے دیوسائی جا رہی ہے، وہ اتنی ہولناک ہے کہ پتھر کے زمانے کی سڑکیں بہتر ہوتی ہوں گی۔ کوئی اور ملک ہوتا تو دو رویہ عالی شان شاہراہ ہوتی اور ریل کار بھی چوٹی تک جا رہی ہوتی۔ چین نے تبت میں ٹرین پہنچا دی ہے جو کئی گنا زیادہ مشکل بلندی ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اس میدان کو دیکھنے آنا چاہتے ہیں لیکن ”سہولیات“ کا سن کر رخ بدل لیتے ہیں۔
میں اپنے پڑھنے والوں کو یہ بھی بتانا چاہتا تھا کہ دس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع گاﺅں ”گوما“ سے تعلق رکھنے والا رشید پاکستانی فوج کا سپاہی ہے اور قابل فخر کارنامے سرانجام دے چکا ہے۔ وہ نوربخشی ہے اور پاکستان اس کی جان ہے اور ایمان بھی۔ یہ ملک ہر فرقے ہر مذہب ہر علاقے اور ہر زبان سے تعلق رکھنے والوں کو یکساں عزیز ہے اور یہ فوج بھی ان سب کی فوج ہے۔ اس فوج پر کسی صوبے‘ کسی فرقے اور کسی نسل کی اجارہ داری ہے نہ اس ملک پر کسی خاص صوبے، کسی خاص زبان اور کسی خاص عقیدے کی ٹھیکیداری کامیاب ہو سکتی ہے۔
میں اپنے پڑھنے والوں کو یہ بھی بتانا چاہتا تھا کہ جو کچھ پاکستان میں یوم عشق رسول پر ہوا اس پر فلم بنانے والوں نے‘ کس طرح اجلاس منعقد کرکے بحث کی ہوگی اور شادیانے بجائے ہوں گے۔
میں اپنے پڑھنے والوں کو یہ سب کچھ بتانا چاہتا تھا لیکن اب نہیں بتا رہا۔ اس لئے کہ اس کا ٹیلی فون آ گیا اور اس کے بارے میں بتانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اس لئے کہ اللہ کی کتاب میں کچھ لوگوں کے چہروں کی رنگت کا ذکر ہے اور ان لوگوں کو آئینہ دکھانا میرا بھی فرض ہے اور میرے پڑھنے والوں کا بھی۔
میں شنگریلا کی جھیل کے کنارے ایک لوہے کی کرسی پر بیٹھا سیبوں سے لدے پھندے درختوں کو دیکھ رہا تھا جب فون کی گھنٹی بجی۔
”آپ کب آ رہے ہیں؟“
”اکتوبر میں۔“
”اکتوبر کے شروع میں یا اس کے بعد؟“
”پہلے ہفتے میں۔“
”اکتوبر میں کتنے دن رہتے ہیں؟“
”تقریباً دو ہفتے“
”آپ کتنے دن ٹھہریں گے؟“
”چار پانچ دن۔“
”کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ فورٹین (چودہ) دن ٹھہریں؟“
ٹیلی فون پر پہلے اس کی ماں نے بات کی اور بتایا کہ یہ رو رہی ہے اور کہتی ہے کہ میں نے نانا ابو سے فوراً بات کرنی ہے۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں فورٹین دن نہیں رہ سکتا تو رو پڑی اور کہنے لگی آپ ابھی آ جایئے، آج ہی!
سات سال پہلے جب وہ امریکہ میں پیدا ہوئی تو ہسپتال میں شور برپا ہو گیا کہ ایک بچی سیاہ بالوں والی پیدا ہوئی ہے۔ سنہری بالوں والی عورتیں اسے دیکھنے آئیں اور ہر ایک کی خواہش تھی کہ اسے بازوﺅں میں لے کر پیار کرے۔
سات سال سے ہم ایک دوسرے کے بہترین دوست ہیں۔ پیار تو اس کی ماں سے بھی بہت تھا اور ہے کہ دونوں بیٹیاں دعائیں مانگ مانگ کر حاصل کیں لیکن یہ تعلق کچھ اور ہی ہے۔ جب چل نہیں سکتی تھی تو پارک میں ایک گھنٹے کی سیر کے دوران اس کی پرام ساتھ ہوتی تھی۔ باتیں کرنا اور سمجھنا شروع ہوئی تو زندگی بھر کی رات کو مطالعہ کرنے کی عادت‘ اسے کہانیاں سنانے کی نذر ہو گئی۔ لاہور سے جس دن اسے آنا ہوتا، موٹروے ٹول پلازا پر پہنچ کر انتظار کرتا۔ واپس جا رہی ہوتی تو یہ بھی ہئوا کہ رخصت کرنے چکری انٹرچینج تک گیا۔ جب بھی جانے کا وقت ہوتا، روتی اور روتے روتے ہی آنکھوں سے اوجھل ہوتی۔ ایک بار اس کے ماں باپ کو قانونی چارہ جوئی کی دھمکی بھی دی کہ میری نواسی زبردستی اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ تھوڑی اور بڑی ہوئی تو مجھے بتانے لگی کہ کس پتلون کے ساتھ کون سا کوٹ پہننا ہے اور کس قمیض کے ساتھ کون سی ٹائی لگانی ہے۔ لیکن جو واقعہ دو سال قبل پیش آیا، جگر پر کھدا ہوا ہے۔ اسی کے گھر میں کوئی تقریب تھی۔ بہت سے مہمان آئے ہوئے تھے اور ہنگامہ تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ دل کی دھڑکن معمول سے زیادہ تیز ہو رہی ہے۔ پھر نقاہت محسوس ہونے لگی، میں کسی کو بتائے بغیر اوپر کی منزل پر جا کر لیٹ گیا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے آ گئی۔ پہلے گلے لگایا پھر پوچھا، نانا ابو آپ کی طبیعت خراب ہے؟ میں نے کہا، ہاں، لیکن ابھی ٹھیک ہو جائے گی اور میں آپ کے پاس نیچے آ جاﺅں گا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو پہلے جمع ہوئے، پھر ننھے ننھے رخساروں پر بہنے لگے۔ کہنے لگی ”نانا ابو میں دعا کروں گی کہ آپ کبھی فوت نہ ہوں۔“
اس دنیا میں جتنی بھی معلوم راحتیں ہیں،
جیسے شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے لبریز پیالہ،
دھوپ کے سفر میں شیشم کی گھنی چھاﺅں،
حدنظر تک کھلے ہوئے پھولوں کا نظارہ،
لمبے بحری سفر کے بعد خوبصورت جزیرے کا دکھائی دینا، باغ میں رنگین پرندوں کا اترنا،
خواب میں اڑتے ہوئے غالیچے کی سواری،
طویل بیماری کے بعد شفایابی، بیٹی کا وجود ان تمام راحتوں سے زیادہ شیریں ہے۔ بیٹی خواہ بیٹی ہو یا نواسی یا پوتی، ایک ایسی نعمت ہے جو ایمان کی نعمت کے بعد شاید سب سے زیادہ قیمتی نعمت ہے۔ میں جب بھی پڑھتا یا سنتا ہوں کہ کسی نے بیٹی کی پیدائش پر بیوی سے بدتہذیبی کا سلوک کیا یا گھر سے نکال دیا تو بے اختیار دل چاہتا ہے کہ جا کر اس سے کہوں کہ پہلے اپنی ماں سے پوچھو وہ کیوں پیدا ہوئی تھی؟ ایسے شخص کی سیاہ بختی کی کیا حد ہوگی جس کا ذکر اللہ نے اپنی کتاب میں کر دیا ہے…. ”اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوش خبری دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غم زدہ ہو جاتا ہے۔“ یہ بدبختی اجڈ ان پڑھوں ہی پر موقوف نہیں، اس کا شکار بڑے بڑے اعلیٰ تعلیم یافتہ، دیندار اور خاندانی کہلانے والے شرفا بھی ہیں۔ جب بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ دینے کا وقت آتا ہے تو متکبر ّ جاگیرداروں کی جاہلیت تو آڑے آتی ہی ہے، حقوق نسواں پر لمبی لمبی بحثیں اور تقریریں کرنے والے تھری پیس سوٹوں میں ملبوس روشن خیال جدیدیئے بھی اپنا تھوکا ہوا چاٹ لیتے ہیں۔ پرپیچ عمامے، لمبی عبائیں اور ریش ہائے دراز، کیا برف سی سفید اور کیا وسمہ زدہ، اس وقت غیض و غضب کا پیکر بن جاتی ہیں‘ جب بیٹی اپنی پسند کی شادی کا حق مانگتی ہے۔ یہ درست ہے کہ گھر سے بھاگ کر عدالتی شادی رچانا مذہب کے نکتہ¿ نظر سے مستحسن ہے نہ معاشرتی زاویے سے
اس کی اجازت دی جا سکتی ہے لیکن آخر اس حقیقت سے کیوں انکار کیا جاتا ہے کہ اسلام نے جوان لڑکی کو اپنی پسند کی شادی کی اجازت دی ہے۔ یہ اس کا حق ہے اور اس پر کسی اور کی پسند مسلط نہیں کی جا سکتی۔ اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں ایک خاتون حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میں شوہر سے علیحدگی چاہتی ہوں۔ کائنات میں حقوق نسواں کے عظیم ترین محافظ نے پوچھا کہ سبب کیا ہے؟۔ خاتون نے کہا وہ مجھے پسند نہیں! اور آپ نے اس جواب پر کوئی اعتراض نہ فرمایا!
ہمارا ”اسلامی“ معاشرہ ایسی مثالوں سے اٹا پڑا ہے کہ بیٹی جوان ہو گئی، تعلیم مکمل ہو گئی، برسرروزگار ہو گئی، تیس سے اوپر ہو گئی پھر پینتیس برس کی ہو گئی لیکن قبلہ والد صاحب برادری سے باہر شادی نہیں کرنا چاہتے، دوسری ذات بھی گوارا نہیں، یہ بھی خوف ہے کہ شادی ہوئی تو تنخواہ ہاتھ سے نکل جائے گی، تھک ہار کر بیٹی اپنا حق استعمال کرتی ہے اور اپنا گھر بسا لیتی ہے۔ اب والد صاحب فرماتے ہیں کہ وہ میرے لئے مر گئی ہے۔ جب تک زندہ ہوں اس سے کوئی تعلق نہیں! کاش! عربوں کے ہم نے محاسن بھی لئے ہوتے۔ عورت وہاں آج بھی پسند کے مرد کو خود پیغام بھیجتی ہے اور عہد رسالت میں بھی ایسا ہی تھا۔ ایک صحابی حاضر ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ یارسول اللہ! مجھے فلاں خاتون نے پیغام بھیجا ہے!
زینب میرا انتظار کر رہی ہے۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں…. زندگی ہوئی تو…. اس کے پاس پہنچنا ہے۔ وہ دو بجے سکول سے آ جاتی ہے۔ دو بجے کے بعد میں کسی دوست کسی عزیز سے نہیں مل سکتا۔ ہم پہلے ہوم ورک کریں گے پھر ہاشم اور قاسم کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلیں گے۔ سیر کے لئے پارک میں بھی جانا ہوگا اور چھٹی کے دن پلے لینڈ میں بھی بہت سا وقت گزارنا ہے!!