(Last Updated On: )
Abstract:
Urdu Poetry has a distinct among its so many other forms. Among them Na’at has gained a unique , sacred and dominating place all over the other forms. The Poets consider it an honour for themselves to write Na’at-e-Nabi (S.A.W.). While writing the Na’at they consciously try to write praisingly about the features of the life of the Holy Prophet Hazrat Muhammad (S.A.W.). They also write about Drood-o-Salam which the Allah Almighty has made an obligation for the Muslims. Zaib-un-Nisa Zebi belongs to the district Karachi, is a poet of Na’at and Hamd. He has been writing Na’at-e-Rasool (S.A.W.( for the last two decades. He has published Works based on the above mentioned types of poetry with the Titals ” Sakhun Tamaam ” , ” Haraf Haraf Bandgi ” and ” Bheegi Bheegi Palkain”. Zaib-un-Nisa Zebi has also gaind the fame as a critic. In this article his way of mentioning the facts and his feelings about the Holy Prophet (S.A.W. ) with respect to the above mentioned books have been discussed.
Zaib-un-Nisa Zebi Naat collection “Haraf Haraf Bandgi”is mostly in the form of ghazal. In the genre of ghazal , the abundance of love and affection has the glory of the ghazal. In it, the leaven of human emotions, subtle feelings rises from the vally of love. In the Naatiya kalam of Zaib-un-Nisa Zebi , the relation of love adn affection is due to the beautiful attributes of the benefactor of humanity. The fact is that love of Islam is the first condition of the Crown Prince of Arabia and Ajam. These pleasures of love are the ascension of love. The love of the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) is the truth that pervades the heart and finds the truth of faith. Then man’s goal is the success of the Hereafter. The secret lies in this love. It is an addiction that cannot be eradicated. The subject of praise of the Holy Prophet is very great and sacred.
Kye Words: Decades, Facts, Respect, Features, Consciously, Consider, Praisingly, Distinct, Gained, Unique.
تمہید: دنیائے شعر و سخن میں بڑے نامور شعرا ء پیدا ہوئے، جنہوں نے شہکار غزلیں کہیں، لاجواب نظمیں تخلیق کیں، کسی نےمرثیہ گوئی میں نام پیدا کیا تو کسی نے جدت پسندی میں اپنا لوہا منوایا ۔کسی نے حالاتِ حاضرہ کو موضوعِ سخن بنایا تو کوئی انقلابی شاعر کہلایا۔ الغرض کوئی صنفِ سخن ایسی نہیں جس میں قادر الکلام شعراء نے طبع آزمائی نہ کی ہو۔ دنیائےفنِ شعر گوئی میں ان شعراء کو وہ مقام نصیب ہوا کہ ان کا لکھا ہوا کلام حجت مانا گیا اور انہیں سند تسلیم کیا گیا ۔ لیکن جب نعت گوئی کا مرحلہ آتا ہے تو الفاظ ختم ہو جاتے ہیں۔قلم رک جاتے ہیں، آنکھیں پر نم ہو جاتی ہیں ،دلوں پہ رقت طاری ہو جاتی ہے،روانی سے اشعار کہنے والے سوچوں میں گم ہو جاتے ہیں ،الفاظ کے جادوگر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں، تخیل آفرینی کی صلاحیتیں جواب دینے لگتی ہیں کیونکہ نعت گوئی شاعری کا وہ نگینہ ہے جو بطورِفن اپنی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ظاہراً یہ(فن) جس قدر آسان نظر آتا ہے،باطناً اسی قدر مشکل ہے ۔ناقدین ِ ادب اس صنف ِسخن کو مشکل ترین شمار کرتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہےکہ ایک طرف وہ ذات ِگرامی ہےجو اپنی ذات میں ممدوحِ رب العالمین ہے ۔جو محمد ﷺ یعنی سراپا حمد و ستائش ہےجس کے جلوؤں کا نظارا قدسیوں کے لئے باعثِ فخر ، مومنوں کے لئے وجہِ قرار، عاصیوں کے لئے وسیلۂ شفاعت ، جملہ مخلوقات کے لئے ان کی تخلیق کی بِنا ہے۔ یہی وہ ذاتِ والا و ستودہ صفات ہے جس نے ابتدائے آفرینش میں خالق کے رَبّ تسلیم کیا، جو سب سے بڑھ کر اپنے اور کائنات کے رب کی حمد کرنے والا ہے۔
بحیثیت اِنسان اس ذاتِ گرامی کی تعریف و ثنا کے لائق الفاظ نصیب ہونا محال ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہو جاتا ہے اور بالآخر اعترافِ عجز کے بغیر کوئی چارۂِ کار نہیں رہتا اور دوسری طرف زبان اور شاعری کے جمالیاتی تقاضے ہیں۔اس لیے نعت کا حق وہی ادا کر سکتا ہے، جو جذبۂ عشقِ رسول ﷺسے سرشار ہو اور فن ِ شاعری کی باریکیوں سے بھِی واقف ہو ۔جب یہ نہیں ہوتا تویوں کہنا پڑتا ہے : نعت گوئی عربی سے فارسی اور پھر اُردو زبان میں آئی۔عربی سے فارسی اور فارسی سے اُردو زبان تک پہنچتے پہنچتے لفظ نعت ایک خاص مفہوم سے وابستہ ہوگیا، یعنی ایسے اشعار(بلکہ تحریریں بھی) جن میں رسول اللہ ﷺکی تعریف و توصیف ہو، انھیں ’’نعت‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور نعت لکھنے والا نعت گو کہلاتاہے۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا نعت گوئی کا آغاز عربی زبان میں ہوا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عربی کے بعد سب سے زیادہ نعتیں اُردو میں لکھی گئی ہیں اوریہاں نعتوں کا بہت بڑا ذخیرہ اورسرمایہ موجود ہے ۔ اگرچہ بظاہر نعت گوئی آسان لگتی ہے، لیکن اللّٰہتعالیٰ توفیق نہ دے، تو نعت کہنا نہ صرف انسانی اختیار میں نہیں بلکہ انسان کے بس کا کام ہی نہیں ہو سکتا۔کتاب و سنت کی یہی وہ روشن تعلیمات ہیں، جن کے باعث صحابہ ء کرام کو آپ ﷺکی ذات اور دعوت سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہ تھی۔اپنے ربّ کی خوش نودی اور رضا اور اپنے محبوب از جاں رسولِ کریم ﷺکی محبت اور اتباع سے وہ سرشار تھے۔سیرت نبوی اور اسوۂ صحابہؓ میں وہ سینکڑوں مواقع اور واقعات درج ہیں جو آپ کی ذات سے والہانہ شیفتگی اور آپ ﷺکے پیغام کے سامنے سرِ تسلیم خم کیے رکھنے کا ذوق و شوق ظاہر کرتے ہیں۔اسی وجہ سے نعت گو شعرا نے رسول اکرم ﷺسے محبت کو نعت کی اساس اور بنیاد کا درجہ دے دیا، اس لئے نعت گو شاعر کے لئے ضروری ہے کہ وہ آپ سے والہانہ محبت ، عقیدت اور شیفتگی رکھتا ہو۔
شاعر جس قدر آپ ﷺ کی محبت میں سرشار ہوگا، اسی قدر اس کے کلام میں کیف اور اثرپیدا ہوگا۔ نعت کی دل آویزی ، دل کشی اور خوبی کے لئے محبت رسول شرط و لازم ہے۔نعت کے موضوع کی مناسبت سے الفاظ کےانتخاب میں بھی ایک پاکیزگی اور شائستگی ہونی چاہئے۔نعت کے لوازمات میں ادب و احترام کے بہت سے پہلو ہیں جن کا تعلق موزوں زبان و بیان، انتخاب الفاظ ، تشبیہ و استعارہ اور انداز تخاطب سے ہے۔نعت کی مجموعی فضا کو ادب و احترام کے ان جذبات عالیہ سے سرشار ہونا چاہئے جن کی نعت متقاضی ہے۔در اصل نعت ہے شان رسالتﷺ کا ادب و احترام۔نعت کے اظہار میں ایسی تشبیہ یا استعارے سے گریز کرناچاہئے جس سے نعت کی پاکیزگی اور شائستگی متاثر ہوتی ہے۔نعت گوئی ایک ایسا نازک مقام ہے جس کی نزاکت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ یعنی حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں ادب و احترام، الفاظ کا چناؤ، خیالات اور مضامین کی پاکیزگی اور منصبِ نبوت کا تقدس ہر وقت پیش نظر رہنا ضروری ہے۔ یعنی نعت گوئی کے دوران کوئی ایسا کلمہ صادرنہ ہوجائے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ کے شایانِ شان نہ ہو۔ اور نہ ہی آپ کی ذاتِ مبارکہ کو اس درجہ تک بڑھادیاجائے کہ الوہیت اور عبدیت کا فرق مشکل ہوجائے۔ الغرض نعت گوئی دو دھاری تلوار ہے۔ فاضل بریلوی امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’’حقیقتاً نعت شریف لکھنا بہت مشکل کام ہے، جس کولوگ آسان سمجھتے ہیں اس میں تلوار کی دھار پرچلنا ہے۔ اگر شاعر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہے۔
بے شک ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی تعریف و توصیف کی محتاج نہیں ہے کیونکہ رب العالمین نے ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ کہہ کر آپﷺکے ذکر کو بلند کردیا۔ اس کے باوجود اہل ایمان اپنی عقیدتوں، ارادتوں، محبتوں اور نیاز مندیوں کے نذرانے حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرکے سچی اور پکی غلامی کا ثبوت دیتے ہیں اور خوشنودی اور رضائے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طلب گا ر رہتے ہیں۔ حقیقت تویہ ہے کہ بندے تو بندے رب العالمین بھی اپنے محبوب کی رضا چاہتا ہے۔
تعارف: نام زیب النساء ، تخلصّ زیبی 3 جولائی1958 کو کراچی پاکستان میں پیدا ہوئیں۔والدین دہلی کے رہنے والے تھے ۔والد اقبال بیگ مرحوم انگریزی فوج میں میکنیکل انجنیئر تھے جو بعد میں ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے۔زیب النساء زیبی نے 12 سال کی عمر سے ہی اشعارکہنا شروع کردیےاور ہمیشہ اپنے اساتذہ شعراء سے رہنمائی حاصل کرتی رہیں۔مقرب حسین دہلوی جن کا تعلق ہندوستان سے ہے ان کے سسر (Father in Law)تھے۔جنہوں نے شادی کے بعد ان کا کلام پڑھ کر ان کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ بچپن ہی سے زیب النساء زیبی نے اپنے گھر کے قرب و جوار میں موجود شعرا کرام سےبہت کچھ سیکھا ۔ذکی عثمانی، راغب مرادآبادی سے گاہے بگائے شعر و سخن میں رہنمائی لی اور آخر میں اپنی تمام کلیات شائع کرنے سے قبل مُحسنِ اساتذہ ، محسن اعظم محسن ملیح آبادی کو دکھا ئیں جن کا شمار اس عہد کے صف ِ اوّل کے استادوں میں ہوتا ہے ۔
زیب النساءزیبی عہد ِحاضرکی اعلٰی تعلیم یافتہ ،سنجیدہ ،معتبر اور علم وادب میں انفرادی قابل ِ ذکر اہم خدمات کے سبب نمایاں مقام کی حامل شاعرہ و ادیبہ کی حیثیت سے علم وادب کے میدان میں اپنی شناخت رکھتی ہیں۔انہوں نے شاعری میں روایتی انداز سے ہٹ کر اور فرسودہ رومانی موضوعات کو ترک کرکے نت نئے سماجی موضوعات کو موضوع ِسخن بنایا ۔آپ محکمہ اطلاعات حکومت سندھ میں افسر ِ اطلاعات کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئی ہیں۔ آپ فری لانس جرنلسٹ ہیں، انگلش لنگویج، ماسٹر ماس کمیونیکیشن، اُردو اور پولیٹکل سائنس اور ۔سی ایس ایس ، پی سی ایس ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کی رہنمائی کلاسسز لیتی ہیں۔۔یوں آپ بلا معاوضہ درس و تدریس کی خدمات سر انجام دیتی ہیں ۔
اردو ادب میں مختلف اصناف ِ ادب پہ سب سے زیادہ کتب تخلیق کرنے کا سہرا آپ کے سر ہے۔ آپ نے جن اصناف پر کتب تحریر کی ہیں اُن میں شاعری، غزل ، افسانہ ، ناول ، کالم ، تحقیق ، تنقید، مقالے تراجم ، تبصرے تذکرے وغیرہ شامل ہیں۔آپ 85 سے زائد کتب اور پانچ ضخیم کلیات کی خالق ہیں ۔اور25 نصابی کتب کی مؤلف بھی ہیں۔ادب ہی آپ کا اوڑھنا بچھوناہے۔آپ شعر وشاعری کو اپنی زندگی کاایک مشن مانتی ہیں۔ دنیا بھر کے لوگوں کے حالات و مشکلات میں ان کا ساتھ دینا ان کی اپنی شاعری اور نثر نگاری کے ذریعے حوصلہ بڑھانا اُن کے دکھوں المیوں کو زبان دینا اور نوع ِ انساں کی بھلائی و خوشحالی کے قلمی جد و جہد کرنا آپ کے عظیم مقاصد ہیں ۔آپ عالمی مشاعروں میں بطور صدر، مہمان خاص اور بہت عزت و احترام کے ساتھ مدعو کی جاتی ہیں۔آپ کو یہ بھی اختصاص حاصل ہے کہ آپ نےعالمی سطح پہ نظم کی سب سے زیادہ اصناف پہ نہ صرف شاعری کی ہے بلکہ اس کی تکنیک پر بھی کام کیا ہے ۔ نظم کی ستر 70 اصناف پر مشتمل آپ کی کلیات “سخن تمام “کے نام سے 2013 ءمیں شائع ہوئی جس سے دنیا بھر کے محققین پی ۔ایچ ۔ڈی اور ایم فل کے طلبہ و طلبات تمام یونیورسٹیز میں استفادہ کر رہے ہیں۔دنیائےادب میں رباعی گو شاعرہ کی حیثیت سے بھی آپ کی اُردو ادب میں ایک منفرد پہچان ہے ۔ آپ نے رباعی کی 24 اوزان بحر ہزج، 12شجرہ اخرب اور 12شجرہ اخرم میں رباعیات کہی ہیں۔
زیب النساء زیبی نے اردو ادب میں ایک شعری صنف “سوالنے ” بھی ا یجاد کی ہے “سوالنے ” ایک سہ مصری نظم ہے جو تمام بحور میں لکھی جاتی ہے اور جواب بھی بین السطور ہی ہوتا ہے۔انہوں نے تخلص کے بے نام نشان جس کو بزرگ شعرا ڈوئی کہتے تھے اسے ایک ادبی نام دیا یعنی تخلص کو”موخلص (Mookhalaas) “کا ادبی نام تفویض کر کے اردو ادب کی ڈکشنری میں ایک نئے لفظ کا اضافہ کیا۔زیب النساء زیبی کو عالمی سطح پہ تقربیا ََایک ہزار تروینیاں لکھنے کا بھی اعزاز حا صل ہے اور آپ تروینی کی پہلی صاحب ِ کتاب شاعرہ ہیں۔آپ کی یہ کتاب2009 میں” تیرا انتظار ہے ” کے نام سے شائع ہوئی(یہ صنف انڈیا کے شاعر گلزار کی اختراع ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی ان علمی ،ادبی و سماجی خدمات کے اعتراف میں کراچی میں ایک روڈ آپ عظیم شاعرہ کے نام سے “زیب النساء زیبی روڈ” منسوب کیا گیا ہے۔آپ کے اس علمی و ادبی کام پہ 6 ایم فل مقالے مکمل ہو چکے ہیں۔ مزید4 مقالہ جات تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالوں میں آپ کے کام کو تحقیق کے لیے شامل کیا گیا ہے ۔آپ کے کام پہ عالمی سطح پہ تحقیقی مقالے اور مضامین تحریر کیے گیے ہیں جن میں امریکہ، کینیڈا، بر طانیہ، انڈیا، ملا ئشیا،آسٹریلیا ، اور کئی ممالک کےمحققین نے تحقیقی مقالے تحریر کیے ہیں۔
آپ کے فن و شخصیت پہ اکادمی ادبیات سندھ کراچی کے تعاون سے ایک 800 صفحات کی کتاب بھی محسن اعظم محسن ملیح آبادی نے تحریر کی ہے۔انہوں نے نظم کی جن 70 شعری اصناف پہ دنیائےادب میں پہلی مرتبہ شاعری کی ہے ان کے نام یہ ہیں حمد، نعت ،سلام نوحہ،مرثیہ منقبت، مناجات ،بچوں کی شاعری ، نسائی شاعری ، مزاحمتی شاعری ، فکاہیہ شاعری، طنز و مزاح ،۔پیروڈی, ہجو تضمین, سین ریو فکا ہیہ ،سہ مصرعی نظمیں_ثلا ثی ۔ماہیہ ۔چیسیاں ۔ سہ الگی ,سہ گا نیاں ,سہ مصرعی،ہا ئیکو “سوالنے” زیب النساء زیبی کی اختراع تروینی، قطعات،رباعیات ، دوہے،مثلث3، مربع،4 مخمس5، مسدس 6 ۔ مسبح 7، مثمن، 8 متسح 9 ، معثر، 10 مسمط، ترجیج بند، ترکیب بند ۔۔چہار بیت، کہہ مکرنی، وائ ۔ لوری، کافی، ڈھولا، گیت، پہلی، ہیر، خماسی، پنجگانہ، سداسی، ملی نغمہ، قوالی، سہرا رخصتی یک مصری تکونی، ترائیلے،پابند نظمیں، نظم ِ معری ۔آزاد نظم ۔نثری نظم ۔نظمانے ۔۔واسوخت ۔ مستزاد ۔شہر آشوب ۔ دہر آشوب ۔ ریختی ۔ قصیدہ ۔ سانیٹ ۔ مثنوی ۔ صنعتِ تو شیح ۔صنعت ِ غیر منقوط اور دیگر صنعتوں میں صنعت ِ تلمیح ۔ صنعت ِ تضاد ۔صنعت ِ مراعا ة النظر ۔وغیرہ شامل ہیں جبکہ سندھی اصناف میں ہمر چو، ہو جمالو،چھلو، پنجڑہ،نڑ اور بیت ، گیچ، مولود شریف ، سنبھارو دوہڑے ، گاہ یا گاون ،رزم نامہ اور پنچابی ہندی اصناف چو مصرعی ، بارہ ماہ ، اٹھوار، سہ حرفی، گھوڑیاں ، چک لی ،بولیاں، برطانیہ میں مقیم انور شیخ نے جن اصناف کے تجربات کیے اُن میں مکالمہ، راز و نیاز ، غزالہ، منظومہ ، تمثلیچہ ، محبوبہ، اور منظومہ شامل ہیں انہوں نے ان سب کی تکنیک پہ مضامین کی ایک کتاب “علم ِ سخن” کے نام سے بھی تخلیق کی ہے۔
دنیائے اردو ادب میں خواتین میں سب سے زیادہ کتب کی تخلیق کارہ زیب النساء زیبی کی 85 سے زائد ادبی اور 25 نصابی کتب/ تخلیقات وتصنیفات کی فہرست دینا تو ممکن نہیں صرف اُن کی پانچ ضخیم کلیات جو مختلف ادب کی اصناف پہ شا ئع ہو چکی ہیں۔اور ہر کلیات تقربیا 2000 صفحات پہ مشتمل ہے یہ درج ذیل ہیں ۔”سخن تمام”،کلیات ِ اوّل )ستر سے زائد نظمیہ شعری اصناف پر زیب النساء زیبی کی دنیا کی پہلی کلیات “سخن تمام ” اس میں ان کے نظمیہ شاعری کے 23 مجموعے شامل ہیں۔ اشاعت ۔2013کارِ دوام،( کلیات ِ دوئم غزلیات کے 21 مجوعے شامل ہیں۔”عکسِ زندگی”،(کلیات افسانے ناولٹ اور ناول) ، (کلیات)اس میں افسانوں کے سات مجموعے،سات ناولٹ اور ایک ناول “میں آدھی گو اہی”شامل ہے۔”کلیات چہارم ” متاع ِ زیست ” اس میں 20 تحقیق و تنقید کالم، تذکرے تبصرے ،انشائیے ، یادداشتیں سیاسی ادبی سماجی مذہبی ادبی و فکری مضامین اور عالمی و مقامی کانفرنسوں ورک شاپ میں پیش کیے گیے مقالات مجموعے شامل ہیں اشاعت 2019کلیات پنجم شاعری “حرف ناتمام ” اس میں 12 شعری مجموعے شامل ہیں جس کی اشاعت 2019ء میں ہوئی۔
زیب النّساء زیبی کے اسلامی و مذہبی کلام کا جائزہ:
زیب النساء زیبی شہرِ کراچی میں اسلامی ومذہبی شاعری کی آبیاری کرنے والوں میں بڑا معتبر حوالہ ہیں ۔ زیب النساء زیبی تقریباََ پچاس برس سے نعتیہ و حمدیہ ، منقبت کی شاعری کرنے اور نعت خوانی کی سعادت سے فیض یاب ہونے والی عظیم شخصیت ہیں ۔ یقیناََ انہوں نے خود کو بطورِ خاص اسلامی شاعری اور دیگر اصنافِ سخن کے لیے وقف کیا ہوا ہے ۔ وہ “حرف حرف بندگی” اور ” بھیگی بھیگی پلکیں “کے عنوانات سے حمد و نعت اور اسلامی شاعری پر مشتمل ایسا قلوب کو مُنوّر و معنبر کرنے والا کلام لکھا ہےجن کو قارئین اور عاشقان و ثناخوانانِ رسولﷺ کو بڑی دلچسپی اور عشق رسول ﷺ میں مگن ہو کر پڑھتے ہیں ۔ زیب النساء زیبی عمدہ حمد نگار و نعت نگار ہونے کے ساتھ ساتھ عشقِ رسول ﷺ کے جذبے سےبھی سرشار ہیں ۔ وہ نہ صرف نعت گو شاعر ہ ہیں بلکہ منقبت ، مرثیہ ، نوحہ اور دیگر اصناف ِ سخن میں بھی طبع آزمائی کرتی ہیں ۔ اس کے علاوہ حمدیہ و نعتیہ ادب کی تخلیق کے ساتھ ساتھ حمدیہ و نعتیہ ادب کے فروغ کے حوالے سے بھی زیب النسا زیبی کا کام نہایت قابل ذکر ہے۔یقیناََ یہ سب اُن پر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے باعث ممکن ہوا۔
نعتیہ کلام میں دُرودوسلام کا ذکر ِخیر اُردو نعتیہ ادب کا نہایت قیمتی سرمایہ ہے ۔شاید ہی کوئی نعت گو ایسا ہو جس نے اپنی نعتیہ شاعری کو درودوسلا م کے ذکر وخیر سے آراستہ وپیراستہ نہ کیا ہو۔شعرائے کرام نے اپنے کلام میں نبی رحمت ﷺپر درودوسلام بھیجنے کی پُرانوار رحمتوں،برکتوں اور تمام تر فیوض وبرکات کا ذکر اپنے اپنے انداز میں کرنے کی سعی کی ہے ۔ ہر شاعر کی محبت وعقیدت کا پیمانہ مختلف ہوتا ہے۔ مگر شاعرہ زیب النساء زیبی نے اپنے نعتیہ کلام میں درودوسلام کا ذکر انفرادیت کے ساتھ دل کش انداز میں کیا ہے۔یہی اندازِ بیان ان کے فنی ومعنوی پہلوؤں کو اُجاگر کرتا ہے ۔شاعرہ نے اپنے کلام میں دُرودوسلام کے موضوع کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے اور زیادہ تر اشعار اسی سے تعلق رکھتے ہیں۔اس موضوع کے سبب ایک مسلمان ہونے کے ناطے جو دل میں حضورنبی کریم ﷺ سے دوری یا ہجر کے سبب جو کیفیات پیداہوتی ہیں ۔یعنی اضطراب و بے قراری وغیرہ اور ساتھ ساتھ ہی مشتاقی اور شوق زیارت و دیدار کی جو تمنا ئیں ظہور کرتی ہیں اور مدینے پہنچ کر جو دلی،ذہنی اور روحانی تسکین پیدا ہوتی ہے اور وَہیں رہ جانے والی اور آپ ﷺکے قدموں میں زندگی بسر کرنے کا جو بے پایاں جذبہ پیدا ہوتا ہے شاعرہ نے ان سب کو سلیقہ مندی اور تخلیقی صلاحیت کے ساتھ اپنے کلام میں بیان کیا ہے ۔
“حرف حرف بندگی”اور “بھیگی بھیگی پلکیں ” نعتیہ و اسلامی شعری ادب میں زیب النساء زیبی کے ایسے مجموعہ کلام ہیں جو یقینا کسی صحائف آسمانی کی تاثیر سے کم نہیں ہیں ۔ زیب النساء زیبی کا قلب ووجدان ہی بسا اوقات منظر شہر طیبہ محسوس ہونے لگتا ہے۔موصوفہ کے نعتیہ کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ یقین و پختگی اختیار کر جاتا ہے کہ زیب النساء زیبی دوری و مہجوری کی تمام تر کیفیات سے مبرا ہو کر حضوری اور حضوری ہی کے لمحات پُر کیف میں ہمہ تن گوش رہتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ زیب النساء زیبی کے حمدیہ ونعتیہ اور اسلامی کلام میں فنی اور فکری لحاظ سے تمام تر اعلیٰ پائے کے مظاہر بدرجہ اتم موجود ہیں ۔
زیب النساء زیبی چمنستانِ نعت کے شاعر انِ خوش نوا کی طرح چمن زار نعت کے تمام شعراء کے درمیان ایک مہکتے پھول کی مانند ہیں جو اپنے کلام کی رعنائیوں اور خوشبوؤں سے پوری فضا کو مسلسل معطر و معنبر کر تی رہتی ہیں ۔ جس سے سیرتِ رسولﷺ کی ضوفشانی ہوتی ہے۔ رحمت دوعالمﷺکی سیرت طیبہ اور صورت مقدسہ کے بارے میں ایک حدیث مبارکہ میں یوں بیان کیا گیا ہے:
لو لاک لما خلقت الافلاک ولو لاک لما اظھرت الربیۃ۔(1)
ترجمہ: اگر آپ (ﷺ) نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا اور اگر آپ(ﷺ) نہ ہوتے تو میں اپنی ربوبیت کو ظاہر نہ کرتا۔
اسی حدیث قدسی کی وضا حت کرتے ہوئے زیب النساء زیبی لکھتی ہیں :
روشنیوں کا مرکز ہے اُنﷺ کی ذات
میرے آقا ﷺمیں ہزاروں ہیں صفات
وہی ختم الرسل ہیں اور حبیبِ کبریا ہیں وہ
وہ جب پیدا ہوئے تو باغِ عالم میں بہار آئی
آپﷺ کی ذات مُنزہ ہے ہمہ خیر الامور
آپ ہی سے ہر طرف ہے عالم امکاں میں نُور
آپﷺ کی اقلیم تو ہے بس ھُواللہ اَحد
آپﷺ نے نوعِ بشر کو بخشا ہے رب کا شعور
اس میں نہیں ہے شک کہ خدا کی ضیا ہیں آپﷺ
جو تا ابد جلے گی وہ شمع ہُدا ہیں آپﷺ
فرق سمجھا ہی نہیں زردار میں نادار میں
بیٹھتے تھے مل کے اصحاب و نبیﷺ دربار میں
بس خاتم النّبیﷺ ہیں ، وہی کائنات میں
اُنﷺ سا کوئی نہیں ہے کہیں شش جہات میں
سب سے افضل ہے مقامِ مُصطفیٰ
ہیں حبیبِ کبریاﷺ خیرُالوریٰ
وہ پیشوائے مُرسلاں ، وہ رحمتوں کا سائباں
ہیں فخرِ کائنات وہ ، ہیں رہنمائے انس و جاں(2)
شاعر اور ادیب معاشرے کے جمگھٹے میں جو کچھ دیکھتے ہیں اس میں اپنے تخیل کا عکس شامل کرکے معاشرے کو لوٹا دیتے ہیں۔دراصل وہ شعری لفظیت کی صورت میں عصر حاضر کا منظر نامہ قاری کے سامنے لے آتے ہیں ۔ زیب النساء زیبی نے اپنے تمام تر تعلیمی مراحل شہر کراچی میں طے کیے ہیں ۔تعلیم کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر کام بھی سر انجام یتی رہیں ۔ زیب النساء زیبی صرف شاعر ہ ہی نہیں بلکہ ایک متحرک سماجی کارکن بھی ہیں اور معاشرتی بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں ۔ زیب النساء زیبی خاص طور پر روشینوں کے شہر کراچی کی جانی پہچانی شخصیت ہیں اور عام طور پر ادبی حلقوں میں بھی جانی پہچانی جاتی ہیں ۔ پہلے پہل تو شاعرہ کی حیثیت سے جانی جاتی تھیں مگر اب ایک محقق اور نقاد کی حیثیت سے بھی اپنی پہچان قائم کر چکی ہیں ۔
حیا ت جاوداں کی حامل وہ شاعری ہوتی ہے جس کے اندر روح عصر حاضر ہواور جس کے اندر تینوں زمانے اپنے خاص تناظر میں اپنی جگہ پر پائے جاتے ہوں ۔ شاعر اور ادیب ماضی سے سبق حاصل کر کے حال کو بیان کرتے ہیں اور مستقبل کے امکانات کی طرف اشارے بھی کرتے ہیں ۔یہ وہ تمام پہلو ہیں جنہیں زیب النساء زیبی نے اپنے کلام میں یکجا کر دیا ہے۔
خیام العصرمحسن اعظم محسن ملیح آبادی ، زیب النّسا زیبی کے اس ہُنر کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” زیب النّسا زیبی کی نعتوں میں متقدمین و متوسطین اور آخرین شعراء سے اکتساب فیض نظر آتا ہے ۔ انہوں نے رب کائنات ، آقائے نامدار ، ختمی مرتبت رسول کریم ﷺ اور دیگر محترم ہستیوں کی مدح و ستائش میں کتنے شفاف آئینوں کی تخلیق کی ہے ۔ ان میں ان کی شعری مہارت و چابک دستی کس حد تک نظر آتی ہے ۔ ان میں حمد و نعت ، مناقب و سلام میں کتنا ترفیع ہے ۔ روایتی انداز کتنا ہے ، جدید اندازِ فکر کس قدر ہے؟ ان سب باتوں کی شہادت ان کے حمدیہ ، نعتیہ ، مناقب و سلام ، نوحہ و مرثیہ کے اشعار دیں گے “۔(3)
زیب النساء زیبی دنیائے شاعری میں “نعتیہ ” اور “مذہبی واسلامی” شاعری کے طور پرکلیات “سخن تمام “اور”حرف حرف بندگی” تخلیق کر چکی ہیں ۔ان کے کلام کا مرکز و محور رحمت دو عالم ﷺ کی ذات گرامی اور آپ ﷺ کے اوصاف حمیدہ کی تعریف و توصیف ہے۔اور اس محبت و اُلفت میں آپ اپنے کلام میں جذبوں کی شدت کا بڑے والہانہ انداز میں عجزوانکساری کے ساتھ اظہار کرتی ہیں ۔ زیب النساء زیبی نے اپنی مشہور زمانہ کلیات “سخن تمام” میں رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ اپنی محبت و اُلفت کو حقیقت میں قلبی تعلق اور محبت رسول ﷺ کے ساتھ اپنی محبت و اُلفت کو حقیقت میں قلبی تعلق اور محبت رسول ﷺ سے سر شار جذبوں سے سجا دیا ہے۔رحمت دو عالم ﷺ کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں :
جب زمانے نے حضور آپ کا چہرہ دیکھا
شکلِ محبوب میں اُمّت کا مسیحا دیکھا
فہم و ادراک نے پلٹا ہوا نقشہ دیکھا
شب معراج میں جب صبح کا جلوہ دیکھا
ہم نے ڈھونڈا ترا ثانی نظر آیا نہ ہمیں
اس لباس بشری میں تجھے یکتا دیکھا
شبِ معراج تھی اسرارِ الٰہی کی کلید
دیکھنے والے نے کیا جانیے کیا کیا دیکھا(4)
عقیدت جب عشق کا روپ اختیار کرتی ہے تو ہر سو محبوب کے جلوے نظر آنے لگتے ہیں ۔رسول اللہ ﷺ کی مدح سرائی روزِ اوّل سے جاری ہے اور تا ابد رہے گی۔قرآن مجید ایک لاریب اور لافانی کتاب ہے جس میں خدائے وحدہ لا شریک نے اپنے محبوب ﷺ کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے حبیب ﷺ پر درودوسلام بھی بھیجا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ان ا للہ و ملاءکتہ یُصلون علّی النبی یاایھاالذین امنو صلو علیہ وسلموا تسلیما ۔ (5)
ترجمہ: بے شک! اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی ؐ پر درود بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو!تم بھی آپؐ پر درود اور خُوب سلام بھیجو۔
اسی آیت کریمہ کی روشنی میں محبوب خدا ﷺ کی بارگاہ عقیدت میں پھول نچھاور کرتے ہوئے زیب النساء زیبی لکھتی ہیں :
کرم ہے ، مجھے وردِ صلِّ علیٰ کا ، گُہر مل گیا ہے
دُرودوں کا یہ سلسلہ ، اب رہے دم بدم یا محمدﷺ(6)
آیت کریمہ کی روشنی میں دُرود شریف کی وضاحت کرتے ہوئے شاعرہ زیب النّسا زیبی مزید لکھتی ہیں:
سیّد لولاک وہ ہیں اور وہ ہیں حبیبِ کبریا
جو پڑھے صلِّ علیٰ ، تو رُوح میں ، اُترے سُرور
معرفت کا راستہ ہیں ، وہ ہدایت کا چراغ
مرحبا صلِّ علیٰ ، صلِّ علیٰ ، میرے حضورﷺ(7)
رسول اللہ ﷺ صورت و سیرت ،جمال و کمال ،شان و عظمت ،اور اَخلاق و خصائل کے لحاظ سے کامل و اکمل ہیں ۔آپ ﷺ جہاں گفتار وکردار کے لحاظ سے بے مثل و بے نظیر ہیں ۔تو اسی قدر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو “یٰسین ﷺ”،”والضحیٰﷺ” ،” طٰہٰ ﷺ “، جیسے عظیم القابات سے بھی مالا مال فرما دیا ہے اور آپﷺ کی شان و عظمت کے چرچے زمین و آسمان میں ” ورفعنا لک ذکرک” کی صورت بلند فرمائے ہوئے ہیں ۔اسی بلند وبالا شان کا ذکر کرتے ہوئے زیب النساء زیبی کا کہنا ہے :
آپ کے حسنِ بیاں میں تھی کچھ ایسی دلکشی
ہو گئے دشمن بھی سارے ، دشمنی سے اپنی دُور
وہ رسول مجتبیٰ ہیں ، وہ محمد مصطفیٰﷺ
راہِ حق کی روشنی میں ، جلوہ حق کا سُرور
آپ ہی ، صدق و امانت کے ، عَلم بردار ہیں
آپ کے ذکرِ حسیں سے ، ہوتا ہے ، سچ کا ظہور(8)
اسم ِ محمدﷺ ایک ایسا نگینہ ہے جس سے ہر سوگُلِ تازہ کِھل اُٹھتے ہیں ۔حریم ِجاں میں روشنی اُترنے لگتی ہے۔منہ سے پھول جھڑنے لگتے ہیں ۔گُلشنِ ہستی مَہک اُٹھتا ہے۔کلیاں معطّر ہوجاتی ہیں ۔عقل اور دل ونگاہ کو کیف اور سُرور کی سرشاریاں میسّر آتی ہیں ۔دَرِ مُراد کُھل جاتا ہے۔زمانے بھر کی سوغاتیں دامن ِمراد کو لبریز کرنے لگتی ہیں ۔آپﷺ کا اسِم گرامی ایسا شیریں ہے کہ بدزبان کو بھی خوش کلامی کی تاثیر عطا ہو جاتی ہے ۔اسمِ مُحمدﷺ سے طاہر سلطانی کی عقیدت صرف شاعری کی حد تک نہیں بلکہ عشقِ محمدﷺ ان کی زندگی میں جا بجا شامل ہو چکا ہے۔آپﷺ کے اسمِ مبارک سے ان کی قلبی وابستگی کے ثبوت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہمہ وقت اسمِ محمد ﷺ کو حرزِ جان بنائے ہوئے ہیں جو انہیں ایسے کیف وسرور سے سرشار کر دیتا ہے کہ وہ خود کو سب سے خوش بخت انسان تصور کرنے لگتے ہیں ۔اسمِ محمد ﷺ کو جس انداز میں زیب النساء زیبی نے اپنایا ہے اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
میں لکھتی رہوں نعت ، مجھ پر ہو چشمِ کرم یا محمدﷺ
رہیں رہنما ، آپ ہی کے ، نقوشِ قدم یا محمدﷺ
تعصّب میں ، حرص وتکبر کی جانب ، نہ جائیں کبھی ہم
رہِ حق میں ہم کو ہمیشہ ہی رکھنا، بہم یا محمدﷺ
عطا کیجیے ، میرے آقا مجھے، دولتِ فہم و ایماں
ثنا آپ ہی کی ، لکھے جائے میرا قلم یا محمدﷺ
فن و فکر کی نسبتیں ہوں عطا ، میرے الفاظ کو سب
کروں میں ہمیشہ محبت کے قصے ، رقم یا محمدﷺ(9)
تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ( اسم محمدﷺ )عرش کی بلندیوں پر، جنت کے درختوں پر،شجر طُوبی کے پتوں پر ،فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان اور عاشقانِ محمدﷺ کے سینوں پر نقش ہُوا ہے ۔اسی مقدس نام کی برکت سے حضرت آدمؑ کی توبہ قبول ہوئی اور حضرت نوحؑ کی کشتی طوفانِ بلا خیزکی سختیوں کو برداشت کر کے کنارہ آسودگی سے مشرّف ہو ئی۔
اصنافِ شعری کا ایک اہم موضوع سراپا نگاری ہے ۔سراپا نگاری اُردُو ادب کی اصطلاح میں ایسی شاعری ہے جس میں شاعر سر سے لے کر پاؤں تک محبوب کے ایک ایک عضو کی تعریف و توصیف بیان کرتا ہے ۔ سراپا نگاری کے متعلق ابوالاعجاز حفیظ صدیقی لکھتے ہیں :
“ادبیات کی اصطلاح میں محبوب یا ممدوح کے بالوں سے لے کر ناخن پا تک ایک ایک کر کے مختلف اعضائے بدن کی تو صیف سراپا نگاری کہلاتی ہے “۔(10)
زیب النساء زیبی ایسی با کمال شاعرہ ہیں جن کی شاعری ابتدا سے لے کر رفعت کی بلندیوں تک سراپا جمال ہے ۔آپ نے اپنی نعتیہ شاعری میں نبی رحمت ﷺ کے سراپا کے بیان میں انتہا درجے کی عجز و انکساری کا مظاہرہ کیا ہے ۔ان کے نزدیک نبی رحمت ،نورِ مجسم ﷺ کا ظاہری جمال بھی آپ ﷺ کے کمال باطنی کی طرح بے مثل و یکتا ہے۔جس کے جملہ محاسن کا مشاہدہ کرنا اور شروع سے لے کرآخر تک مکمل تصویر پیش کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔مگر زیب النساء زیبی نے آپﷺ کے محاسن بیان کرنے کی سعی کرتے ہوئے لکھا ہے:
آپ کے در پر نہیں ، تخصیص اپنے ، غیر کی
آپ کی چشمِ کرم تو ، ہے سبھی پر ، اے حضورﷺ(11)
حضور نبی رحمت ﷺ کے جمال دل نشین کے بارے میں شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانیؒ اپنی مشہور زمانہ تالیف ” شمائل ِ رسولﷺ” میں قُرطبیؒ کے حوالے سے رقم طراز ہیں :
“نبی ﷺ کا حُسنِ سراپا ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا ۔ اگر آپ ﷺ کا حُسنِ سراپا پورے طور پر ظاہر کردیا جاتا تو آنکھیں اس کے دیدار سے عاجز و درماندہ ہو جاتیں”۔(12)
زیب النساء زیبی کے خیال میں نبی مکرم ﷺ کا جمال دِل پذیر حُسن کائنات کے دیگر تمام پیکروں سے ممتاز و ممیّز ہے بلکہ ان کے نزدیک تو انسانی بصارت میں یہ حوصلہ ہی نہیں کہ پوری طرح نبی رحمتﷺ کا نظارہ کر سکے ۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتی ہیں :
آپ کے حسنِ بیاں میں تھی کچھ ایسی دلکشی
ہو گئے دشمن بھی سارے ، دشمنی سے اپنی دُور(13)
نبی رحمت ،نورِ مجسم ﷺ کے مقدس واطہر سراپا کے حوالے سے طاہر سلطانی آپﷺ کے چہرہ انور ،نقش قدم ،لب مقدس ،طرزتکلم اور خدوخال مقدسہ کا ذکر بھی بڑی وارفتگی اور شیفتگی سے کیا ہے ۔حضرتﷺ کے خّدوخال اس قدر اعلی و ارفع ہیں کہ زیب النساء زیبی کی آنکھوں میں وہ قیمتی جواہرات کی طرح سج دھج گئے ہیں ۔اس کی وضاحت میں آپ لکھتی ہیں :
آپ کی ذات مُنزّہ ہے ، ہمہ خیرالاُمور
آپ ہی سے ، ہر طرف ہے ، علمِ امکاں میں نُور
آپ سے ہے ، عالم امکاں میں ، جلووں کا ظُہور
آپ کی فطرت میں ، عفوو در گزر کا ہے وُفور(14)
نبی مکرم ﷺ کا پسینہ مبارک معطر ومعنبر تھا ۔آپ ﷺ سے جب کوئی صحابی ہاتھ ملاتا تو کئی دنوں تک ہاتھوں سے خوشبوں نہیں جاتی تھی۔ آپ ﷺ جس بچے کے سر پر ہاتھ پھیرتے اس کے سر سے خوشبو آنے لگ جاتی ۔حتیٰ کہ آپﷺ جس راستے سے گرزتے وہ راستہ خوشبو سے مہک اُٹھتا ۔آپﷺ کے پسینہ مبارک کی خوشبو کی وضا حت کرتے ہوئے امام حسین بن سعود البغویؒ،حضرت انس بن مالک کے حوالے سے رقم طراز ہیں :
“حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ آپﷺ کی آمد کو آپﷺ کی خوشبو کے ذریعے پہچان لیا کرتے تھے”۔(15)
زیب النساء زیبی کے ہاں سراپا نگاری کا بیان نبی مکرمﷺ سے والہانہ عقیدت و محبت کا مطہر ہے ۔آپ نے حضور ﷺ کے جمال اور خدوخال کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہوئے جزئیات کی گہرائی اور گیرائی کے بیان سے زیادہ جمال نبی ﷺ کے قلب و روح پر مرتب ہونے والے اثرات پر توجہ دی۔آپ نے نبی مکرمﷺ کا سراپا اخلاص و خلوص کے متنوع رنگوں سے تیار کیا ہے۔مگر تصویر کا عکس دور کا ہے جس سے تصویر کے گہرے نقوش سامنے نہیں آئے۔اس حوالے سے انہوں نے اپنے عجزوانکساری کے ساتھ ان الفاظ میں اظہار کیا ہے :
نام اُن کا لیجیے ، تو دل میں بھر جاتا ہے ، نُور
اور آنکھوں میں سما جا ہے گویا کوہِ طُور(16)
زیب النساء زیبی کے ہاں نبی مُکرّم ﷺ کی نسبت کا ایک حوالہ مدینہ طیّبہ کی سر سبز و شاداب فضائیں بھی ہیں ۔ مدینہ کی فضاؤں کی بابت ان کا خیال ہے کہ مدینہ ارضِ پُربہار ہے ۔ جس کی فضائیں شگفتہ ، شاداب اور مُعطّر رہتی ہیں ۔ فضائیں ارضِ طیّبہ کی مُعطّر کیوں نہ ہوں کہ یہاں روزانہ نورانی فرشتے اُترتے ہیں ۔ اور بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں دُرود و سلام کے نذرانے پیش کرتے ہیں ۔ زیب النساء زیبی نے مدینہ مُنوّرہ سے جس طرح اپنی عقیدت مندی کا اظہار کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مدینہ طیّبہ اُجالوں کا نگر ہے ۔ جس کی فضائیں معطر و معنبر ہیں ۔اس کی زیارت سے نفس نفس میں خوشبوئیں اُترنے لگتی ہیں ۔اس کی مسافت میں بھی اک کیف و سرور ہے۔اس کے ذکر میں دل پذیری اور دل بستگی کا سامان ہے۔اس کی راہ جنت کا نشان ہے جس کا ہر ذرہ جان افزاہے اور خورشید تاباں سے زیادہ منور بھی ہے۔اس سے روح پر مہر و محبت کی بارش ہونے لگتی ہے ۔اس کی ہوا وجہ راحت و سکون قلب وجاں ہے۔اس کی زمین رشک فلک ہے اور یہ شہرنبی رحمتﷺ کی معرفت ،حق کا ایک مکان ہے۔درحقیقت مدینہ منورّہ کو یہ تمام فضائل نسبت رسول ﷺ کی وجہ سے ملے ہوئے ہیں۔ زیب النساء زیبی اس کی مزید وضاحت میں اپنے دل پذیر لہجہ میں کہتی ہیں :
میں سُرمہ خاکِ طیبہ کا لگا لاؤں گی آنکھوں میں
فزوں ہوتی ہوئی ، دل کی بصارت دیکھ آؤں گی
رہے گا سر پہ میرے سائبانِ دامن رحمت
تپش تیری بھی ، خورشیدِ قیامت دیکھ آؤں گی
جہاں جن و ملک ہیں دست بستہ حکمِ خالق سے
وہ جلوہ گا ہے ، فخرِ آدمیت دیکھ آؤں گی
کرم جس دن بھی ہو جائے گا مجھ پر میرے آقاﷺ کا
میں زیبیؔ اُن کے در کی زیب و زینت دیکھ آؤں گی(17)
زیب النساء زیبی کے نعتیہ کلام کا ایک اور اہم موضوع خصائص سیدالمرسلین ﷺ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرامؑ کو کئی مختلف طرح کے فضائل سے نوازاہے جن میں بعض قدریں مشترک تھیںلیکن کچھ باتیں خاص الخاص آپﷺ سے منسوب ہیں۔ مثلاً نبیٔ مکرّم ﷺ اصل تکوینِ روزگار ہیں، آپﷺ رحمۃ اللعالمٰین ہیں، آپﷺ کا سایہ نہ تھا، آپﷺ کا پسینہ مبارک معطّر تھا، آپﷺ کے بدن مبارک پر کبھی مکھی نہیں بیٹھی، آپﷺ جامع صفات اور جوامع الکلام ہیں، آپﷺ تمام عالم کے لئے نبیٔ رحمت بنائے گئے ہیں، آپﷺ کو اوّل و آخر کے علم سے نوازا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سیّد المُرسلین کو رحمۃ اللعالمٰین بنا کر نہ صرف اہلِ دُنیا پر احسانِ عظیم فرمایا بلکہ اس سے انسانیت کا وقار بھی بلند ہوا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَتُہ الِّلْعَالمِٰیْن ۔ (18)
ترجمہ: اور ہم نے تمہیں(ﷺ) نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہانوں کےلیے۔
اللہ تعالیٰ نے ہماری کائنات کے علاوہ بھی بے شمار عالَم تخلیق کئے ہیں۔ خُدائے بزرگ و برتر کو ربُّ العالمین اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ تمام عالمین کا پالنہار ہے۔ لفظ عالمین کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر نصیر احمد ناصر یوں رقم طراز ہیں:
” عالم کئی ہیں۔ مثلاً عالمِ جمادی، علمِ نباتی، عالمِ حیوانی، عالمِ انسانی۔ زمانے کے لحاظ سے بھی کئی عالم ہیں جیسے ماضی، حال اور مستقبل۔ وجود کے لحاظ سے ایک عالمِ ظاہری ہے اور دوسرا عالمِ باطنی ہے۔ اور زندگی کے لحاظ سے دو عالم ہیں ، دنیوی اور اُخروی۔ آپﷺ ان تمام عالمٰین کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں”۔ (19)
لفظ رحمت کی ترکیب اپناتے ہوئے زیب النساء زیبی اپنے کلام میں رحمۃُ الِّلْعَالمٰین کی وضاحت اس انداز سے کرتی ہیں:
وہ دو جہان کا مرکز ، وہ رحمتِ عالم
ہمارے دل میں مکیں ہیں ، ہماری ذات میں ہیں(20)
لفظ رحمت کی وضاحت میں مزید لکھتی ہیں :
بلائیں گے مدینے ، بابِ رحمت دیکھ آؤں گی
زمین کی گود میں آباد جنّت دیکھ آؤں گی(21)
رحمۃاللعالمین کی وضاحت میں دوسری جگہ لکھتی ہیں :
وہ، جو ہیں رحمتِ کُل بزمِ دو عالم کے لیے
اُن ﷺ کے صدقے میں ہمیں رب نے بچا رکھا ہے(22)
اسی کی وضاحت میں مزید لکھتی ہیں :
رہے گا سر پہ میرے سائبانِ دامن ِ رحمت
تپش تیری بھی خورشیدِ قیامت دیکھ آؤں گی(23)
زیب النساء زیبی نے نعتیہ کلام کے ذریعے نبیٔ مکرّمﷺ کے جن محاسن کا ذکر کیا ہے ان میں آپﷺ کے علم و حکمت، شعور و آگہی، اُخوّت و مُساوات، رواداری، حقِ آزادی، صداقت و ایثار اور معجزات و کمالات کا کافی دخل ہے۔ آپﷺ نے معاشرے کے ثقافتی ، جمالیاتی اور عسکری پہلوؤں کو بھی مدِّ نظر رکھا ہے۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ یہ معاشرے میں عدل اور مساوات کی بالا دستی قائم کرنے کے لئے شر پسند عناصر کے خلاف جہاد کا فلسفہ بھی پیش کرتا ہے۔ آج دنیا میں اسلام کے نام لیوا سب سے زیادہ تعداد میں ہیں اور اپنے قلب و نظر میں عشقِ رسولﷺ کی شمع روشن کئے یہ جاں نثارانِ مصطفٰیﷺ اسلامی انقلاب کی روشنی عام کرنے میں مصروف ہیں۔ عشقِ رسولﷺ ہمارے ایمان کی شرطِ اوّلین ہے۔ حدیثِ قدسی ہے:
عَن اَنس قَالَ: قَالَ رَسُول اللہ ﷺ ! لَا یُو مِنْ اٰحَدَ کُم حَتّٰی اَکُونَ احِبَّ اِلَیْہ من وَّالدہٖ وَ وَلِدِہٖ وَالنَّاس اَجْمَعِین۔(23)
ترجمہ: تم میں سے کو ئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اُس کے نذدیک اس کے باپ ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب اور عزیز نہ ہو جاؤں۔
زیب النساء زیبی کے نعتیہ کلام کا بنظرِ عمیق مطالعہ کیا جائے تو بے شمار فنی محاسن اپنی چاشنی بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔
۱۔ زبان کی چاشنی:
شاعرانہ کلام کی تاثیر میں زبان و بیان کا عمل بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ خوبی کلام کو خوبصورتی عطا کرنے کے ساتھ ساتھ دل پذیری میں بھی اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ فصاحت و بلاغت کی پاسداری اور روز مرّہ و محاورہ کا بر محل و برجستہ استعمال کلام میں زبان و بیان کے حوالہ سے چاشنی کا سبب بنتا ہے۔ زیب النساء زیبی کے ہاں ایسے الفاظ کی کمی نہیں جو زبان کی صفائی خیال کی پاکیزگی اور جملے کی روانی و سلاست سے جلوہ گر نہ ہوئی ہو۔ یہ خوبی ان کے کلامِ میں یوں نظر آتی ہے:
بادشاہوں کو آن دیتا ہے
وہ ہی انسان کو شان دیتا ہے
یہ فضلیت ہے میرے قرآں کی
بے نواؤں کو مان دیتا ہے
نُور بن جاتا ہے زمانے میں
جو تیرا امتحان دیتا ہے
صدق سے تو اجالتا ہے ہمیں
تو ہی حق کو زبان دیتا ہے
تیری قدرت ہی کا کمال ہے یہ
جاہلوں کو گیان دیتا ہے(25)
2۔ محاورات:
اُردو اَدب میں اصطلاحاَ خاص اہلِ زبان کے روز مرّہ یا بول چال یا اُسلوبِ بیان کا نام محاورہ ہے۔ زبان کی بنیاد اہلِ زبان کے ہاں ہی رکھی جاتی ہے۔ان کی بول چال آہستہ آہستہ لفظی معنی سے ہٹ کر مجازی معنی کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہےاور محاورات کے وجود میں آنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ایک طرف یہ زبان کا حُسن ہوتے تو دوسری جانب زبان کو بلاغت عطا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ محاورات سے زبان میں وسعت اور کشادگی پیدا ہوتی ہے۔ محاورہ کا اطلاق خاص کر ان افعال پر ہوتا ہے کہ اسم کے ساتھ مل کراپنے حقیقی معنوں کی بجائے مجازی معانی میں استعمال ہوتے ہیں۔ زیب النساء زیبی کے ہاں محاورات کا استعمال اشعار پر گراں نہیں گزرتا بلکہ شیرینی و لُطفِ زبان میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ اپنے کلام میں محاورات کا استعمال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ورد تیرا ہی آسرا ہے بس
تو غموں میں امان دیتا ہے
جب تجھے ہم سمجھ کے پڑھتے ہیں
جسمِ بے جاں کو جان دیتا ہے(26)
ایک اور جگہ اس طرح رطب اللسان ہوتی ہیں:
اتنی طاقت ہے تیری قدرت میں
چادرِ سائبان دیتا ہے(27)
کلامِ زیب النساء زیبی میں محاورے کی مزید مثال کچھ اس طرح ملتی ہے:
میں لکھتی رہوں نعت ، مجھ پر ہو چشمِ کرم یا محمدﷺ
رہیں رہنما ، آپ ہی کے ، نقوشِ قدم یا محمدﷺ(28)
3۔ سہلِ ممتنع:
ایسا کلام جو دیکھنے میں بہت ہی سادہ اور سہل ہو سہلِ ممتنع کہلاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بات کو تصنّع ، بناوٹ سے ہٹ کر سیدھے سبھاؤ بیان کرنا سہلِ ممتنع کہلاتا ہے۔ زیب النساء زیبی کے کلام میں سہلِ ممتنع کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ آپ لکھتی ہیں:
اسلام کو یہ عظمت و عزّت کا مرتبہ
ملنا تھا اس جہاں میں ، بدولت حسینؑ کی
ہر دل پکارتا ہے ، مدد کیجیے مری
ہر ایک کو ہے آج ضرورت حسینؑ کی(29)
4۔ قوافی کی عمدگی:
قوافی قافیہ کی جمع ہے جو لفظ ’’ قفا ‘‘ سے مشتق ہے۔ قافیہ سے مراد فقروں یا مصرعوں کے آخر میں وہ یکساں حرکات و حروف ہیںجو ایسے الفاظ میں واقع ہوںجن میں لفظی یا معنوی یا دونوں اختلاف پائے جاتے ہوں۔ جیسے (یار، اعتبار، ۔۔۔)،(اَجل، اکمل، ۔۔۔) ، (جان ، مان،۔۔۔) وغیرہ۔ زیب النساء زیبی کے ہاں قوافی کے استعمال میں خاص انتخاب کا تاثر اُبھرتا ہے ۔ آپ ایسے قوافی کو استعمال میں لاتی ہیں جو نعت کے بیان میں موزوں اور فصاحت و بلاغت میں ممد و معاون ثابت ہوں:
عقل کا وہ منارا ، وہ فہم کا حوالہ
ظلمات میں علیؑ ہیں ، بس علم کا اُجالا
وہ بے کسوں کے ساتھی ، اک باپ ہیں مثالی
کیسی محبّتوں سے ، حسینؑ کو ہے پالا
یکتا بہادری میں ، چٹان کی طرح وہ
ہے نام ہی علیؑ کا ، کیا عزوشان والا(30)
5۔ تمثیلی انداز:
تمثیل کے معنی تشبیہ دینا ، مشابہ کرنا ہے۔ ایسی تشبیہ جس میں شُبہ مرکب ہو مثلاً مثال ، نظیر، مشابہت، مطابقت، ڈرامہ، مجازیہ واقعہ وغیرہ۔ زیب النساء زیبی کے کلام میں نہایت عمدہ انداز میںتمثیلی انداز اپنایا گیا ہے۔ ان کے کلام سے یہ اس طرح واضح ہے:
شہنشاہِ دو عالم تھے ، وہ تھے رب کے قریں بے حد
ٹھکانا تھا خس وخاشاک ، قدموں میں تھی سُلطانی
فقط املاک میں کٹیا تھی ، کملی تھی ، بچھونا تھا
اگرچہ دونوں عالم ، آپ کے تھے زیرِ نگرانی
بہت معمولی تھی پوشاک ، اور سادہ غذا بالکل
طبیعت ہی میرے آقاﷺ کی تھی ، ہمرنگ قربانی(31)
6۔ ردیف کی جدّت پسندی:
جدید انداز اپنانا، تحریر میں نیا پن پیدا کرنا ، نقش نگاری کرنا، بنانا، سنوارنا جدّت طرازی کہلاتا ہے۔ زیب النساء زیبی نے اپنے نعتیہ کلام میں بڑی نفاست سے جدّت طرازی کو اختیار کیا ہے۔ اسی جدّت طرازی کی بنا پر زیب النساء زیبی نعتیہ شعراء میں منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔ درج ذیل ا شعار کے ذریعے آپ کے کلام میں جدّت طرازی دیکھیے:
یقیں ہے مجھ کو اک دن اس کی نزہت دیکھ آؤں گی
نبیؐ کے شہر خوش منظر کی عظمت دیکھ آؤں گی
بلائیں گے مدینے ، بابِ رحمت دیکھ آؤں گی
زمیں کی گود میں آباد جنّت دیکھ آؤں گی
ادب سے چاند سورج چومتے ہیں جس کی رفعت کو
میں وہ مینارِ انوارِ حقیقت دیکھ آؤں گی
نبی ہیں آخری اور نُورِ اوّل ہیں مرے آقاﷺ
خدا کے لفظ کن کی ہے جو غایت دیکھ آؤں گی(32)
7۔ استفہامیہ انداز :
استفہامیہ انداز سے کلام میں وسعت پیدا ہوتی ہےاور قاری کی توجہ بھی بڑھتی ہے۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جس سے شاعری میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ شعر کی نئی جہتیں متعارف ہوتی ہیںجو قاری پر مفاہیم و معانی کے نئے دَر وا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیب النساء زیبی کے کلام کی خُوبصورتی ان کا استفہامیہ انداز ہے۔ اُردو اَدب کی اصطلاح میں استفہام کی تین اقسام اس طرح ہیں:
ا۔ استفہامِ اقراری
استفہامِ اقراری میں سوال کے ذریعے کسی چیز یا اَمر کے ثبوت کے بارے میں دریافت کیا جاتا ہے۔ مثلاً
۱۔ کہتے کیوں نہیں
۲۔ کیوں نہ جاؤں
زیب النساء زیبی کے ہاں استفہامِ اقراری کی مثال اس طرح سامنے آتی ہے:
تدبیر کوئی اُن سی ، کرے کس میں حوصلہ
آتا ہے کام اُن کا وسیلہ نجات میں(33)
ب۔ استفہامِ انکاری
استفہامِ انکاری میں کسی بات کی نفی کرنا مقصود ہوتا ہے۔ مثلاً
۱۔ میں نے یہ کب کہا
۲۔ کسی میں اتنی ہمت ہے
زیب النساء زیبی کے کلام میں استفہامِ انکاری کا استعمال بڑے موزوں اور موثر انداز میں نظر آتا ہے:
آپ کا رتبہ بیان کیسے کرے ، عاجز زبان
آپ ہیں مولودِ کعبہِ رحمت ، اکبر ، علی(34)
ج۔ استفہامِ استخباری
استفہامِ استخباری کو استفہامِ حقیقی بھی کہتے ہیں۔ یہ استفہام اس جگہ پیدا کیا جاتا ہے جہاں کسی شےکی حقیقت کا سراغ لگانا مقصود ہو۔ کب آؤ گے؟، اب کیا کریں؟ وغیرہ استفہامِ استخیاری کی مثالیں ہیں۔ زیب النساء زیبی کے کلام میں استفہامِ استخباری کی مثال اس طرح سامنے آتی ہے۔
نہ کیسے ربط بصارت سے ہو بصیرت کا
طوافِ گنبد ِ خضرا ہےروشنی کا طواف(35)
استفہامِ استخباری کی ایک مثال اور ملاحظہ ہو:
کیا خُوب تجھے رُتبہ ملا گُنبدِ خضرا
دیکھوں جو تجھے ، دل یہ کہے دیکھے ہی جاؤں(36)
(8۔ القابات کا استعمال:
نبیٔ مکرّمﷺ اخلاق و کردار، اعمال و افعال کے بلند و بالا مراتب پر ہیں۔ آپﷺ کے اخلاقِ کریمانہ کے پیشِ نظر آپﷺ کے منصبِ رسالت پر مبعوث ہونے سے قبل ہی اہلِ مکّہ آپﷺ کو مختلف القاب و صفاتی ناموں سے پُکارتے تھے۔ زیب النساء زیبی کے ہاں بھی آپﷺ کے صفاتی اسمائے مبارکہ کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں موجود ہے۔ مثلاً:
وہ پیشوائے مُرسلاں ، وہ رحمتوں کا سائباں
ہیں فخرِ کائنات وہ ، ہیں رہنمائے انس و جاں
وہ روشنی میں روشنی ، وہ امرِ رب دو جہاں
اُنہی سے جاں ہے نورزا ، اُنہی سے دل ہیں ضوفشاں
پیام اُن کا پیار ہے ، ہیں سب ہی کے لیے اماں
وہ ہیں شفیعِ عاصیاں ، سکون ِ دل ، سکونِ جاں(37)
القابات کی مزید مثال ملاحظہ ہو:
وہ ہیں جمالِ اولیاء ، وہ ہیں سراج الانبیاء
ہیں سر بسر پیام ِ رب ، وہ بے مثال و بے گماں(38)
سخن تمام میں کچھ اس انداز میں لکھتے ہیں :
خدا سے بخشوائیں گے ، دل آئینہ بنوائیں گے
وہی علاجِ گمرناں ، وہی شفیعِ عاصیاں(39)
9۔ صنعتِ تضاد:
اس صنعت کو مختلف ناموں مطابقت، تطبیق، تکافو، تقابل، ضدین، تناقص یا مضاد سے پکارا جاتا ہے۔ مگر زیادہ تر اسے تضاد کےلفظ سے پکارا گیا ہے۔ اُردو اَدب کی اصطلاح میں کلام میں ایسے دو الفاظ کا استعمال جو معانی کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہوں ، صنعتِ تضاد کہلاتا ہے۔ صنعتِ تضاد کی وضاحت کرتے ہوئےمولوی نجم الغنی رامپوری لکھتے ہیں:
’’ ایسے الفاظ استعمال میں لائے جائیں جن کے معانی ایک دوسرے کے مخالف اورمقابل بھی ہوں خواہ دونوں اسم، دونوں فعل یا دونوں حروف ہوںیا ایک اسم ہو اور دوسرا فعل ہو صنعتِ تضاد کہلاتا ہے۔”(40)
زیب النساء زیبی نے اپنے کلام میں صنعتِ تضاد کا استعمال عمدہ طریقے سے کیا ہے۔ جس سے کلام کی معنوی صورت میں نکھار پیدا ہوا ہے۔ ان کے کلام میں صنعتِ تضاد کے استعمال کی مثال اس طرح سامنے آتی ہے:
بندے نہیں تھے عام وہ ابنِ رسول تھے
سارے شہید باغِ نبوّت کے پھول تھے(41)
ان کے ہاں صنعتِ تضاد کے استعمال کی ایک اور مثال یوں نطر آتی ہے:
روزِ محشر ، کیا تعجب ہے کہ فرمائیں حضورؐ
دیکھ زیبیؔ! وہ ہے ، جامِ حوضِ کوثر سامنے(42)
زیب النساء زیبی کے ہاں صنعتِ تضاد کی مزید مثال ملاحظہ ہو:
خورشید صفت کردار اُن کا
ہر ایک قدم ضوبار اُن کا
اَخلاق بنی روشن روشن
کردار بنی درپن درپن(43)
حیات جاوداں کی حامل وہ شاعری ہوتی ہے جس کے اندر روح عصر حاضر ہواور جس کے اندر تینوں زمانے اپنے خاص تناظر میں اپنی جگہ پر پائے جاتے ہوں ۔ شاعر اور ادیب ماضی سے سبق حاصل کر کے حال کو بیان کرتے ہیں اور مستقبل کے امکانات کی طرف اشارے بھی کرتے ہیں ۔یہ وہ تمام پہلو ہیں جنہیں زیب النساء زیبی نے اپنے کلام میں یکجا کر دیا ہے۔
زیب النساء زیبی کا نعتیہ کلام پڑھتے ہوئے راقم الحروف کو جو باتیں ان کی نعت میں نمایاں طور پر دیکھنے کو ملی ہیں وہ ذکرِ مدینہ ،زیارتِ گنبدِ خضریٰ اور برکات دُرود و شریف ہیں ۔ جس طرح مدینہ عاشقانِ رسولﷺ کی جان میں بسا ہوا ہے ، اسی طرح دُرود شریف وہ وظیفہ ہے جو زبان کا ذکر اور قلب و رُوح کی روشنی ہے ۔ اور گنبدِ خضریٰ کی دید سے عاشقانِ رسولﷺ آنکھوں کی طراوت بھی حاصل کرتے ہیں اور یہ درجۂ ایمان کو بھی بڑھانے کا سبب بنتا ہے ۔ زیب النساء زیبی خوش گوار اور سلیس ترین زبان لکھنے والی شاعرہ ہیں ۔ ان کے نعتیہ کلام” حرف حرف بندگی ” کا بغور مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نعت گوئی کے میدان میں وہ کتنی سادگی و صفائی ، بے تکلفی و بر جستگی سے کامیاب ہوئی ہیں ۔ حتیٰ کہ وہ جو کچھ بھی نعت شریف میں کہتی ہیں ، سُننے والا وجد کرتا ہے اور لطف اندوز ہوتا ہے ۔ زیب النساء زیبی کا تمام کلام فصاحت و بلاغت ، سلاست و روانی، مضمون و زبان اور کیف و سُرور کی دولت سے مالا مال ہے ۔ ان کی نعتیں اُردو ادب میں بجا طور پر ایک اضافہ تصّور کی جاسکتی ہیں ۔ کیوں کہ انھوں نے اوصافِ حمیدہ کو انتہائی عقیدت ، محبّت اور وارفتگی سے نظم کیا ہے جن میں جذبات اور خیالات کا اچھوتا رنگ اور دلکش انداز فکر نظر آتا ہے ۔ جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں زبان اور بیان پر کس قدر قدرت حاصل ہے ۔ یقیناََ ان کا نعتیہ کلام بارگاہ نبویﷺ میں نیاز مندانہ عرض اوربندگانہ التجا و التماس کی شانِ حقیقی رکھتا ہے ۔
زیب النساء زیبی کی نعتیہ شاعری کے مطالعہ کے بعد جو بنیادی بات قارئین کے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ نعت رسول ﷺ ان کا محبوب ترین مشغلۂ حیات ہے ۔ جس کی بنیاد اور محرک اُن کی حرارتِ ایمانی اور رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مقدسہ سے والہانہ عقیدت و شیفتگی ہے۔ اور اسی سرمایۂ عشق و محبّت کو وہ اپنے لیے ذریعۂ نجات اور وجہ مغفرت سمجھتی ہیں ۔ اُن کے نعتیہ کلام سے خوب واضح ہوتا ہے کہ نعت گوئی اُن کے مضطرب اور بے قرار روح کے لیے باعث تسکین اور موجب راحت ہے ۔ ان کے کلام میں موجود ایک ایک شعر سے نبی رحمت ﷺ کی عقیدت و محبّت جھلکتی ہے ۔ اور عشق رسول ﷺ کی مستی و سر شاری میں ڈوبی ہوئی یہ فضا پڑھنے والے کی آنکھ بھی نم کر دیتی ہے ۔غرض یہ کہ زیب النساء زیبی کا نعتیہ مجموعہ ” حرف حرف بندگی”اس بات کا ثبوت ہے کہ شاعرہ کو نعت رسول ﷺ سے ایک قلبی اور رُوحانی وابستگی ہے ۔ اور نبی رحمت ﷺ کی ذات بابرکات سے بے پناہ لگاؤبھی ہے ۔ اور اسی عشق و محبّت کو انہوں نے بڑی مہارت ، فن کاری اور عقیدت مندانہ جذبے کے تحت بڑی خوبی سے شعری قالب میں ڈھالا ہے ۔ بلا شبہ اُن کی نعتیں اور اسلامی شاعری اُردو شعر و ادب کی نعتیہ شاعری میں ایک نمایاں اور لائقِ تحسین اضافہ ہیں ۔ اور حقیقت میں یہی نعتیہ شاعری اُن کی شہرت و عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ زیب النساء زیبی کو بارگاہِ رب ارض و سماوات میں بہ صمیمِ دل شکر گزار ہو نا چاہیے کہ انہیں نعت نگاری کی توفیق ارزانی ہوئی ۔ ذالک فضل اللہ ، میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ان پر تا دمِ حیات رہے ۔ اور نعت نگاری کے جادے پر سلامت روی سے منزل فلاح و نجات کی طرف بڑھتے رہیں ۔ اور جیسا کہ انہوں نے اپنے نعتیہ مجموعہ کلام کا نام ” حرف حرف بندگی” رکھا ہے، نعت ہی ان کی زندگی کا سرمایۂ حیات ہو اور انہیں روزِ حشر شافعِ محشر ﷺ کے سامنے سرخرو ہونے کی سعادت بھی نصیب ہو ۔ آمین
حوالہ جات
1۔ عبدالرحمٰن، امام ابو الفرج، بحر الدّمُوع، کراچی: مکتبۃ المدینہ باب المدینہ، اگست 2007ء ، ص:41
2۔ زیبی ، زیب النّساء ، سخن تمام
3۔ محسن ملیح آبادی ، زیبی کی نعتیہ شاعری کا تاثراتی و انتقادی مطالعہ
4۔ زیبی ، زیب النّساء ، سخن تمام
5۔ الاحزاب: 56
6۔ زیبی ، زیب النّساء ، سخن تمام
7۔ ایضاَ
8۔ ایضاَ
9۔ ایضاَ
10۔ حفیظ صدیقی ، ابوالاعجاز ، تفہیم و تحسینِ شعر ، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز ، 2006ء ، ص: 144
11۔ زیبی ، زیب النّساء ، سخن تمام
12۔ محمد میاں صدیقی (مترجم)، شمائلِ رسولﷺ از شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی ، لاہور: تصوّف فاؤنڈیشن ، 1998ء ، :23
13۔ زیبی ، زیب النّساء ، سخن تمام
14۔ ایضاََ
15۔ خالد محمود ، مولانا ، آنحضرت ﷺ کے فضائل و شمائل از حسن بن سعود البغوی ، لاہور: بیت العلوم ، س۔ن، ص: 40
16۔ زیبی ، زیب النّساء ، سخن تمام
17۔ زیبی ، زیب النّساء ، سخن تمام
18۔ الانبیاء : 107
19۔ نصیر احمد نصیر ، ڈاکٹر ، پیغمبرِ اعظم و آخر ﷺ ، لاہور : فیروز سنز ، 1988ء ، ص: 279
20۔ زیبی ، زیب النّساء ، سخن تمام
21۔ ایضاَ
22۔ ایضاَ
23۔ ایضاَ
24۔ بخاری ، محمدبن اسماعیل، امام ، صحیح بخاری ، لاہور: شیخ غلام علی اینڈ سنز ، 1969ء ، ص: 265
25۔ زیبی ، زیب النّساء ، سخن تمام
26۔ ایضاَ
27۔ ایضاَ
28۔ ایضاَ
29۔ ایضاَ
30۔ ایضاَ
31۔ ایضاَ
32۔ ایضاَ
33۔ ایضاَ
34۔ ایضاَ
35۔ ایضاَ
36۔ ایضاَ
37۔ ایضاَ
38۔ ایضاَ
39۔ ایضاَ
40۔ یوسف حسین خان ، ڈاکٹر ، اُردو غزل ، لاہور: زاہد پرنٹرز اُردو بازار ، (طبع اوّل)، 1952ء، ص: 288
41۔ زیبی ، زیب النّساء ، سخن تمام
42۔ ایضاََ
43۔ ایضاَ