افسانہ : انقلاب ۔ افسانہ نگار : زيب سندھی ۔ اردو ترجمہ : آکاش مغل
انتخاب : ظفر معین بلے جعفری
وہ انقلابی رہنما کی تقرير سے متاثر ہوا اور اس کے قول و فعل سے بھی۔ اسے وہ انقلابی رہنما ہر اعتبار سے صداقت شعار نظر آيا۔ اس انقلابی رہنما کی تقرير و تحرير سے اسے پختہ يقين ہوگیا کہ اب انقلاب کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ چناں چہ اس نےبہت غور و خوض اور چھان پھٹک کے بعد اس انقلابی رہنما کی زیر قیادت چلنے کا فیصلہ کیا ۔
انقلابی جدوجہد کے لیے فنڈز کی ضرورت پڑی تو اس نے اپنی کل وراثت چار ايکڑ قابل کاشت اراضی فروخت کر کے ، اس سے حاصل شدہ تمام رقم انقلابی فنڈز میں جمع کروا دی۔
وہ انقلابی رہنما کے پیچھے چلتا رہا ۔
مسلسل چلتا رہا ۔
چلتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔
وہ چل چل کر تھک گیا ۔ اس نے انقلابی رہنما کے پیچھے چلتے ہوئے کہا ، ”میں تھک گیا ہوں ۔“
انقلابی رہنما نے پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر ، آگے بڑھتے ہوئے کہا، ”انقلابی کبھی تھکتے نہیں !“
انقلابی رہنما کے جذبے نے اسے ایک نئی توانائی بخش دی ، اس کا حوصلہ بڑھ گیا۔
وہ اپنے رہنما کے پیچھے چلتا رہا ۔
مسلسل چلتا رہا ۔
چلتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔
اک نہ ختم ہونے والی لامتناہی مسافت ۔ ۔ ۔ ۔
مسلسل گزرتا وقت ۔۔۔
اس نے اپنے وجود کو برافتادہ محسوس کیا ۔ اس نے بہ دقت تمام, انقلابی رہنما کے زیر سایہ چلتے ہوئے کہا ، ” اب میں بہت تھک گیا ہوں ۔“
انقلابی رہنما نے مڑ کر دیکھے بغیر , مسلسل آگے بڑھتے ہوئے کہا، ”انقلاب جہد مسلسل کا نام ہے ۔“
وہ انقلابی رہنما کے جہد مسلسل پر مبنی فلسفے کی پیروی میں چلتا رہا ۔
مسلسل چلتا رہا ۔
چلتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔
اک نہ ختم ہونے والی لامتناہی مسافت ۔ ۔ ۔ ۔
مسلسل گزرتا وقت ۔ ۔ ۔
وہ برسوں انقلابی رہنما کے پیچھے چلتا رہا۔ اس نے اپنے آگے چلنے والے انقلابی رہنما سے پوچھا ، ”آخر انقلاب کب آئے گا ؟ “
انقلابی رہنما نے پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر کہا ، ”مجھےتمہارے لہجے سے شکستہ خاطری کی بو آرہی ہے ۔ لیکن ياد رکھو ایک انقلابی کسی بھی حال میں مايوس نہیں ہوتا ۔“
اس کا جسم لاغر ہوتا چلا گیا , مگر انقلاب کی اميد اسے آگے بڑھتے رہنے کی طاقت دیتی رہی ۔ برسوں بیت گئے ۔ لیکن وہ انقلاب کی اميد سینے سے لگائے انقلابی رہنماکے پیچھے چلتا رہا۔
اس کے سیاہ بال سفید ہوگئے, لیکن وہ چلتا ہی رہا۔
لگاتار چلتا رہا۔
چلتا رہا۔
نہ ختم ہونے والی مسافت ۔ ۔ ۔
مسلسل گزرتا وقت ۔ ۔ ۔
اس کی آنکھوں کے سامنے تاریکی چھانے لگی ۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ ناگہاں چہار سُو تاریکی اپنے پر کیوں پھیلا رہی ہے !
اسے اپنے آگے چلنے والا انقلابی رہنما بھی نظر نه آیا۔ اس نے ناگاہ تیرگی کا سبب جاننے کے لیے چِلّا کر اپنے رہنما کو پکارا ، لیکن انقلابی رہنما کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا ۔ وہ مسلسل چِلّا چِلّا کرانقلابی رہنما کو پکارتا رہا ، مگر اس کی کسی صدا ، کسی پکار کا کہیں سے کوئی جواب نہ آیا۔ سامنے صرف تاریکی ہی تاریکی تھی ۔ اسے محسوس ہوا وہ انقلاب کے راستے میں کھو گیا ہے ۔۔۔۔
وہ سوچتا رہا۔۔۔۔
سوچتا رہا۔ ۔ ۔ ۔
سوچتے سوچتے اس نے گردن گھما کر اپنے عقب میں دیکھا ۔ پیچھے بھی تاریکی تو تھی مگر اتنی نہیں ,کچھ نه کچھ اجالا ضرور تھا ۔۔۔۔ اس نے حسرت سے سرد آہ کھینچی تو اپنے بدن سے درد آگیں لہریں ابھرتی محسوس کیں۔
اس نے واپسی کا فيصلہ کيا۔ وہ جوں جوں پیچھے ہٹتا گیا تمام مناظر اس پر واضح ہوتے گئے ۔۔۔ واپسی پر اسے سب سے پہلے اپنی وہ چار ایکڑ زرعی اراضی نظر آئی, جسے اس نے فروخت کر کے اس سے ملنے والی رقم انقلابی فنڈ میں جمع کروا دی تھی۔ وہی چار ايکڑ زمين ، جو کبھی اس کا کل اثاثہ تھی ۔ جو اس کے بچوں کے آب وخورش کا وسيلہ تھی , اب اس کی ملکیت نہ رہی تھی !
وہ مزید پیچھے لوٹا تو اسے وہ ہزاروں ايکڑ سرکاری زمين نظر آئی، جو کبھی بے آب وگیاہ اور خشک سار تھی، لیکن اب وہاں ثمرہ ومیوہ جات سے بھرے باغات اور سرسبز کھلیان موجود تھے۔ وہ چوں کہ اپنی چار ایکڑ اراضی سے محروم ہوچکا تھا ۔ چناں چہ اس نے اپنے گزر اوقات کے لیے اس زمین میں بطور کسان کام کرنے کا سوچا اور زمینوں پر کام کرنے والے ایک کسان سے زمین دار کا ٹھکانا معلوم کیا ۔
جب وہ کسان کے بتائے ہوئے پتے پر باغ میں بنی محل نما اوطاق (بیٹھک) پر پہنچا تو وہاں انقلابی رہنما ، زمين دارکے روپ میں موجود تھا , جو اسے پہچاننے سے ہی منکر ہوگیا !
وہ صدمے کی کیفیت میں اوطاق سے نکل آیا۔ اسے محسوس ہوا جیسے انقلاب کے نام پر اس کی چار ایکڑ اراضی ہی نہیں , اس کی سنہری جوانی بھی لٹ گئی ہو ۔!
وہ مزید پیچھے لوٹا تو اسے وہ مِل نظر آئی، جہاں وہ فصل کے لیے پانی نہ ملنے کے دنوں میں مزدوری کرکے بچوں کا پيٹ پالتا تھا۔ وہ مزدوری حاصل کرنے مِل چلا گیا۔ مِل مالک کے آفس پہنچا تو انقلابی رہنما ، سيٹھ کے روپ میں موجود تھا جو ماتھے پر بل ڈالے خشمگین نگاہوں سے اسے گھور رہا تھا ! وہ آتش دروں آفس سے نکل آیا ۔ اسے محسوس ہوا , گویا انقلاب کے نام پر نہ صرف اس کی چار ایکڑ زرعی اراضی اور سنہری جوانی، بلکہ اس کے بچوں کے مستقبل پر بھی ڈاکہ پڑ گیا ہو ۔ !
وہ اپنے گهر واپس جانے لگا ۔ گهر کی گلی میں پہنچا تو اس کا گھر جو پہلے قدرے بہترحالت میں تھا، اب وہ خستہ حالی اور خانہ براندازی کا شکار تھا ۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔ وہ اپنے گهر میں داخل ہوا تو اس کی نظر اپنی بیوی پر پڑی ، جو کبھی انتہائی صحت منداور ہشاش بشاش ہوتی تھی ، مگر اب ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی چارپائی پر پڑی تھی ۔ وہ پشیمانی سے آگے بڑھا۔ اور سر جھکا کر ، چارپائی کے قریب فرش پر بیٹھ گیا۔ ۔اس کی بیوی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے انتہائی نحیف آواز میں پوچھا، ” انقلاب آگیا۔ ۔ ۔ ۔ ؟“
اس نے شِدّتِ غم سے بیوی کا ہاتھ تھام لیا ۔ اس کی آنکھوں سے دو آنسو نکلے اور اس کی بیوی کی ہتھیلی پر جا گرے۔
اس نےکہا ، ”انقلاب بِک گیا۔ ۔ ۔ !“
اور اس کم سن بالک کی طرح سسکیاں بھر بھر کر بلک اٹھا ,جس کے سب کھلونے کسی نے چھین لیے ہوں !