محمد زاہد سرفراز کا ادبی نام زاہد سرفراز زاہد ہے۔ آپ کا شمار عہدِ حاضر کے نوجوان شعرا میں نعت گو کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ آپ ۲۵ مارچ ۱۹۷۹ء کوعبدالمجید کے ہاں حیدرآباد سندھ میں پیدا ہوئے۔وہاں آپ کے والد واپڈا سندھ میں ایس ڈی او تھے۔زاہد سرفراززاہد بھی واپڈا فیصل آباد میں اپنی پیشہ وارانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے ایم فل اردو تک تعلیمی مدارج طے کیے۔
‘‘کشفِ نعت’’ کی تسوید و تدوین کرتے ہوئے زاہد سرفراز زاہد نے روایتاً اس کا آغاز حمدِ باری تعالیٰ سے کیا ہے۔ بحر‘‘ہزج مثمن مخدوف’’ میں لکھی گئی اس حمد سے زاہد سرفراز کے وژن Visionاور حمدیہ شاعری کے لوازمات پر ان کی دسترس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ زاہد سرفراز زاہد ا ن خوش بخت شعرا میں سے ہیں جو شاعری کو مدحت سرکار صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پاکیزگی بخشتے ہیں اور اسے ذکرِ رسولؐ کی خوشبو میں بساتے ہیں۔ یہ جذبہ انھیں نعت گوئی میں نجات کا رستہ دکھاتا ہے:
جا مدینے سے یہ تحفہ لے آ
اُن کی دہلیز کا بوسہ لے آ
مضطرب ہیں تری آنکھیں گرچہ
سامنے عکسِ مدینہ لے آ(۱۸۲)
یہی جذبہ جب عشق کی سرحدوں میں داخل ہو کر دو آتشہ بن جاتا ہے تو بے اختیار زبان سے نکلتا ہے:
اعلیٰ گفتار میں کردار میں آقا تم ہو
صرف تقلید کے قابل ہوا اُسوا تیرا(۱۸۳)
زاہد سرفراز زاہد طویل بحروں اور مشکل زمینوں کو بھی بہ آسانی کام میں لاتے ہیں۔ فنی لوازمات کو یہ خوبی نبھا جاتے ہیں اور اپنی قادرالکلامی کے نقوش ذہن پر ثبت کر جاتے ہیں۔ زاہد سرفراز زاہد نے ردائف کا استعمال بھی کمال ہنرمندی سے کیا ہے۔ عام طور پر جن ردائف کا استعمال بہت مشکل اور کم مستعمل ہو ، ان پر بھی آپ نے عمدگی کے ساتھ نعتیں لکھی ہیں مثلاً مفرد حروف ، آ، ٹ، چ، ذ، ڑ، ژ، غ، ق، ء، وغیرہ کو بطور ردیف انھوں نے بہ خوبی برتا ہے جو ان کے پختہ شاعر ہونے کی دلیل ہے۔ مرکب یا ہائیہ صورت رکھنے والے حروف بھ، پھ، تھ، ٹھ، ج، چھ، دھ، ڈھ، رھ، ڑھ، کھ، گھ، لھ، مھ، نھ، اور منفرد حرف نون غُنہ(ں) کو بھی اردو زبان کے باقاعدہ حروف تسلیم کیا جا چکا ہے۔اس لیے باقاعدہ دیوان لکھنے کے متمنی شعرا دانستہ کوشش کر رہے ہیں کہ ان حروف کو بھی بطور ردیف لایا جائے ۔‘‘کشفِ نعت’’ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ زاہد سرفراز زاہد نعت گوئی کی اپنی جسارت میں بے معنی قافیہ پیمائی پر مشتمل نعتیں نہیں کہتے اور نہ ہی اپنے قلم کو شرعی حدود سے باہر نکلنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ان کا کلام نئی نئی زمینوں میں عشق و عقیدت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مزین ، جذبے کی شدت اور فکر کی لطافت کے ساتھ زبان کی نزاکتوں کے رنگین پھول کھلاتا ہے اور عشاقِ رسول ؐ کے دلوں کو فرحت تسکین اور تازگی بخشتا ہے۔ یہی عشق ان کی شاعری کا محور ہے ۔ زاہد سرفراز زاہد کی تصانیف میں ‘‘کشفِ نعت’’ کے علاوہ پنجابی شعری مجموعہ ‘‘بھکھ دا دُکھ’’ ، ‘‘نعت آقاؐ دی’’(پنجابی شاعری مرتب) اور‘‘ محمد اکرام احسان کی نثری خدمات ’’(مقالہ ایم۔ فل) شائع ہو چکی ہیں۔
‘‘کشفِ نعت’’ میں زاہد سرفراز زاہد نے ہر ایک حرفِ تہجی کو نعت آشنا کیا ہے ۔ انھوں نے نعت کہنے کے کئی طریقے اور انداز وضع کیے ہیں اور نعتیہ دیوان لکھنے کے تمام مقاصد حاصل کیے ہیں۔ نئے نئے رنگ سے نعت کہنے کا ارمان تو صرف نعتیہ دیوان میں ہی پورا ہوتا ہے۔ شاعر ایسی ایسی ردائف و قوافی میں نعت کہتا ہے جو دوسرے شعرا کرام نے نہیں لکھی ہوتیں۔ نئی نئی بحور ،نئی نئی زمینوں کی تلاش بھی نعتیہ دیوان میں ممکن ہے۔ قوافی و ردائف بدلنے سے مضامین خود بخود بدلتے ہیں اور نئے نئے تخیلات شاعر کو عطا ہوتے ہیں۔ زاہد نے ایسی ایسی ردائف بھی استعمال کی ہیں جو اس سے پہلے نعت میں استعمال نہیں ہوئیَ ایسے ایسے قافیے بھی ان کے قلم کے ذریعے نعت آشنا ہوئے ہیں جو اس سے پہلے تشنہ تعبیر تھے۔
زاہد سرفراز زاہد نے حیرت انگیز انداز میں بڑی دیانت و متانت سے سنگلاخ زمینوں کو زرخیز بنا لیا ہے ۔ انھوں نے تمام چوّن (۵۴)حروفِ تہجی کو نعت سے سیراب و سرشار کر کے یقیناً تخلیق نعت کی دُنیا میں ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا اور اس نعتیہ دیوان کو بطور حوالہ پیش کیا جاتا رہے گا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...