جنوری 1972 کا مہینہ ہے۔ پاک بھارت جنگ اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھی۔ اس جنگ کے بطن سے ایک نوزایده مُلک “بنگلہ دیش” وجود میں آچکا ہے جو پچھلے چوبیس سال سے مشرقی پاکستان کہلاتا تھا اور پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ تھا۔ بنگلہ دیش کے بابائے قوم شیخ مجیب بھی پاکستان کی دس مہینے کی قید سے آزاد ہو کر ڈھاکہ پہنچ کر عنانِ اقتدار سنبهال چکے ہیں۔ پاکستان میں قید کے دوران انہیں فوجی عدالت سے سزائے موت کا حکم بھی سنا دیا گیا تھا لیکن بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے پاکستانی حکام اس سزا کو عملی شکل نہیں دے سکے تھے۔
سابقہ مشرقی پاکستان کی پولیس اور سابقہ ایسٹ پاکستان رائفلز کے فوجی یونٹ جو اب بنگلہ دیش کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بن چکے ہیں، نئے مُلک میں حکومتی رٹ قائم کرنے میں مصروف ہیں لیکن ڈھاکہ کے مضافات میں واقع غیر بنگالیوں کی دو بستیاں “محمد پور” اور “میر پور” میں ابھی تک حکومتی ںظم و ضبط بحال نہیں ہو سکا ہے۔ پاکستانی فوج کی تربیت یافتہ نیم فوجی رضاکار تنظیمیں البدر اور الشمس کے بچے کچھے کارکن ان دونوں بستیوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر مُکتی باہنی اور نوزائیدہ بنگلہ دیشی فوجیوں کو ان بستیوں میں گھسنے نہیں دے رہے تھے۔ دونوں بستیوں میں خوف و دہشت کی فضا چھائی ہوئی تھی۔ تیس جنوری 1972 کو بنگلہ دیشی فوج اور پولیس کے کچھ یونٹ ان بستیوں کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے میرپور پہنچے۔ ان دستوں کے ساتھ ایک چتھیس سالہ خوبرو سیویلین بنگلہ دیشی بھی ہے۔ ابھی یہ لوگ بستی کے قریب ایک کُھلے میدان میں پہنچ کر اردگرد کا جائزہ ہی لے رہے تھے کہ بستی کے اندر سے ان پر بھاری ہتھیاروں کے ساتھ حملہ کر دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی اندھا دھند فائرنگ بھی شروع ہو جاتی ہے۔ بستی کے اندر سے یہ حملے بہت ہی منظم طریقے سے کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے فوجی موقع پر ہی ہلاک ہو جاتے جبکہ کچھ زخمی فوجیوں کو حملہ آور چاقوؤں کے وار کر کے ہلاک کر دیتے ہیں اور ان کی لاشیں بستی کے اندر گھسیٹی جاتی ہیں۔ خوش قسمتی سے کچھ بنگلہ دیشی فوجی وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو میڈیا کو یہ خبر دیتے ہیں کہ ہلاک ہونے والے فوجیوں کے ساتھ وہ شہری بھی مارا گیا ہے۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ اس شہری کا نام ظہیر ریحان تھا۔ دستاویزات کے مطابق اس روز ایک افسر سمیت 40 فوجی ارکان ہلاک ہوئے اور ان کی لاشیں کبھی نہ مل سکیں۔
ظہیر ریحان کون تھے اور وہ کیوں فوجی دستوں کے ساتھ غیربنگالیوں کی بستی میرپور میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ ایک بہت دردناک داستان ہے۔
ظہیر ریحان 19 اگست سن 1935 کو مشرقی بنگال کے ضلع فینی کے گاؤں مجوپور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مترا انسٹیٹیوٹ میں حاصل کی اور پھر کلکتہ عالیہ مدرسہ میں داخلہ لے لیا۔ یہیں پر ان کے والد بحیثیت پروفیسر بھی تعینات تھے۔
1947 میں بنگال کی تقسیم کے بعد وہ اپنے والدین کے ساتھ اپنے گاؤں واپس آگئے جو اب مشرقی پاکستان کا حصہ تھا۔ ظہیر نے امیرآباد ہائی اسکول سے 1950 میں میٹرک پاس کیا اور ڈھاکہ کالج سے آئی ایس سی کا امتحان پاس کرنے کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی سے بنگالی لٹریچر میں بی اے آنرز کیا۔ دورانِ تعلیم ہی انہوں نے کمیونسٹ سیاست سے وابستگی اختیار کر لی تھی۔ ان کا نام کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم کارکنوں میں شمار ہوتا تھا۔ جب جولائی سن 1954 میں پاکستان کی حکومت نے کمیونسٹ پارٹی کو کالعدم قرار دے کر پابندی لگائی تو ظہیر نے انڈر گراؤنڈ ہونے والے سینیئر کمیونسٹ ساتھیوں کے لئے پیغام رسانی اور خط و کتابت کا کام کیا۔ ظہیر نے بنگالی زبان کی تحریک میں بھی حصہ لیا۔ 21 فروری 1952 کو بنگالی زبان کی تحریک کے لیے نکالے جانے والے جلوس میں شرکت کی وجہ سے ظہیر کو دوسرے ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کر کے جیل بھی بھیجا گیا تھا۔
سن 1952 میں ہی آپ نے کلکتہ جا کر “برووا میموریل فوٹوگرافی اسکول” میں داخلہ لیا اور فلم بنانے کی مکمل تعلیم حاصل کی۔ سن 1956 میں انہوں نے فلمی دنیا میں قدم رکھا۔
25 مئی سن 1959 کو ریلیز ہونے والی اردو-بنگالی فلم “جاگو ہوا سویرا” کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ظہیر ریحان تھے۔ اس فلم کی کہانی بنگالی مصنف مانک بندھو پادھیائے کی تھی۔ پاکستان کے مشہور ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض نے اس فلم کا “اسکرین پلے” تحریر کیا تھا۔ بنیادی طور پر یہ ایک آرٹ فلم تھی لیکن بدقسمتی سے باکس آفس پر بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔ یہ کراچی کے واحد “جوبلی سینما” پر نمائش پذیر ہوئی اور محض تین دن ہی چل سکی۔ البتہ بین الاقوامی فلمی میلوں میں اس فلم کو خوب پذیرائی ملی۔ کچھ سال پہلے پاکستان سمیت دنیا بھر میں جب فیض احمد فیض کی صد سالہ تقریبات منائی جا رہیں تھی تو “جاگو ہوا سویرا” کو بھی مختلف ملکوں میں ہونے والی فیض تقریبات میں دکھایا گیا تھا۔ بدقسمتی سے اس فلم کا کوئی پرنٹ پاکستان میں دستیاب نہیں ہوا تھا۔ میلے کے منتظمین نے لندن کے کسی فلمی آرکائیوز سے اس فلم کا پرنٹ ڈھونڈ نکالا۔
ظہیر ریحان ہی کی ہدایت کاری میں بننے والی پہلی بنگالی فلم “کاکھونو آشینی” سن 1961 میں ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد ان کی دیگر بنگالی فلمیں جن میں کاجل، کنچر دیال، بہولا، زندگی تھیکے نیا، انوارہ قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی فلم “زندگی تھیکے نیا” میں پاکستان کی آمرانہ طرز زندگی کو موضوع بنایا گیا تھا۔ اپنے موضوع کے لحاظ سے یہ اس وقت کی ایک انتہائی منفرد اور سنجیدہ نوعیت کی فلم تھی۔
23 اپریل1964 کو عیدالاضحی کے پرمسرت موقع پر اردو فلم سنگم ریلیز کی گئی۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اسے پاکستان کی پہلی رنگین فلم ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس فلم کے مصنف، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بھی ظہیر ریحان تھے۔ بطور ڈائریکٹر یہ ان کی پہلی اردو فلم تھی۔ اس فلم کا ایک رومانوی گیت “نیلا گگن ہے تیرا” اور ایک مزاحیہ گیت “ہزار سال کا جو بڈھا مر گیا تو اسے دھوم دھام سے دفن کرو” زبان زد عام تھے۔ یہ دونوں گیت ریڈیو پاکستان سے مہینے میں کئی بار باقاعدگی سے نشر کیے جاتے تھے۔ 16 اپریل 1965 کو ظہیر ریحان کی دوسری اردو فلم “بہانہ” ریلیز ہوئی۔ یہ پاکستان کی پہلی سینما اسکوپ فلم تھی۔ اس فلم کی بیشتر عکس بندی کراچی میں کی گئی تھی اور فلم کے گیتوں نے بھی بےپناہ مقبولیت حاصل کی۔ فلم “بہانہ” کے شاعر سرور بارہ بنکوی تھے اور اس کی موسیقی خان عطا الرحمن نے تخلیق کی تھی۔ اس فلم کا ایک گیت بہت مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے؛
“شہر کا نام ہے کراچی، کراچی، کراچی،
تم کھو نہ جانا یہاں”۔
ظہیر ریحان کی پہلی کامیاب اردو فلم “بھیا” تھی جو 1966 میں ریلیز ہوئی۔ یہ اُس سال کی باکس آفس ہٹ ثابت ہوئی۔
1970 میں انہوں نے لاہور میں ایک اور اردو فلم “جلتے سورج کے نیچے” بھی بنائی تھی۔ لیکن جب 1971 میں یہ فلم ریلیز ہوئی تو ظہیر ریحان مغربی بنگال کے شہر کلکتہ کا رخ کر چکے تھے۔ اُس وقت پاکستان میں ان کا نام غداروں کی فہرست میں شامل کیا جا چکا تھا اس لیے حکومتی عتاب سے بچنے کے لیے ڈسٹریبیوٹر نے ڈائریکٹر کا نام تبدیل کر کے اس فلم کو سینما گھروں میں ریلیز کیا تھا۔ متحدہ پاکستان کے بینر تلے ڈھاکہ میں بنائی جانے والی اردو فلم “مہربان” ظہیر کی آخری فلم تھی۔
طالب علمی کے زمانے سے ہی انہوں نے علمی و ادبی مشاغل کی بدولت اپنی ایک خاص پہچان بنا لی تھی۔ ان کی پہلی ادبی کتاب “سوریہ گرہن” کے نام سے 1962 میں شائع ہوئی۔ ان کی تصنیفات میں ہجر بچھر دھارے، شیش بائیکلر مایا، ارک فالگن، باراف گلہ ندی اور ارکاتا دن شامل ہیں۔ علمی و ادبی جرائد میں اپنی تخلیقات تحریر کرنے کے علاوہ ظہیر ریحان 1970 میں انگلش ویکلی ایکسپریس شائع کرنے والوں میں سرفہرست تھے۔ ظہیر کو ان کے تخلیق کردہ ناول “ہجر بچھر دھارے” کے لیے آدم جی لٹریری ایوارڈ اور 1972 میں بنگلہ اکیڈمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
25 مارچ سن1971 کا دن پاکستان کے کئی تاریک ترین دنوں میں سے ایک ہے۔ اس دن فوج نے اس وقت کے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے خلاف آپریشن سرچ لائٹ شروع کیا۔ ظہیر ریحان آپریشن شروع ہونے کے ابتدائی دنوں میں کلکتہ چلے گئے جہاں پر انہوں نے Stop The Genocide کے نام سے ایک دستاویزی فلم بنائی۔ یہ فلم فوج کی اپنے ہی ہم وطنوں (مشرقی پاکستان کی عوام) کے قتل عام پر مبنی تھی۔ اس فلم کی بدولت سابقہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں ہونے والے جنگی جرائم دنیا کے سامنے آئے۔
16 دسمبر 1971 میں جب پاکستانی فوج نے ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالے تو ایک نئی مملکت بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ ظہیر ریحان ڈھاکہ میں واقع اپنے گھر واپس آگئے تھے۔ اُن دنوں بنگلہ دیش کا ہر گھر سوگوار تھا۔ بنگلہ دیش آزادی حاصل کر چکا تھا لیکن اس دوران بہت سے بنگالی دانشور قتل کیے جاچکے تھے اور کچھ لاپتہ تھے۔ لاپتہ ہونے والوں کی فہرست میں پاکستان کے آدم جی ایوارڈ یافتہ ناول نگار شاہد اللہ قیصر کا نام بھی شامل تھا۔ یہ ظہیر ریحان کے سگے بھائی تھے۔ جنگ سے تباہ حال مُلک بنگلہ دیش میں تحقیقاتی ٹیمیں گمشدہ کیے جانے والے شہریوں کا سراغ لگا رہیں تھیں۔ ظہیر بھی ان تحقیقاتی ٹیموں میں سرگرم تھے۔ تیس جنوری سن 1972 کے دن ظہیر ریحان کو ایک نامعلوم فون کال کے ذریعے یہ اطلاع ملتی ہے کہ ان کا بھائی میرپور کی بستی کے ایک گھر میں قید ہے۔ اتفاق سے اُسی دن سیکیورٹی فورسز کی ٹیم پہلی دفعہ میرپور میں نئی حکومت کی رٹ بحال کرنے کی غرض سے روانہ ہو رہی تھی۔ ظہیر ریحان موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بھائی کی بازیابی کی امیدیں لیے سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ہو لیے اور خود بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گمشدہ افراد کی فہرست میں شامل ہو گئے۔