آج – ٢١؍ اگست ١٩١٩
کالم نگار، فلم کہانی نویس، ہدایت کار، نقاد اور ممتاز ترقی پسند شاعر” ظہیرؔ کاشمیری صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام پیرزادہ غلام دستگیر ظہیر اور تخلص ظہیرؔ تھا۔ ۲۱؍اگست۱۹۱۹ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ کشمیر ان کا آبائی وطن تھا۔انگریزی میں ایم اے کیا۔ گیارہ برس کی عمر سے شعر گوئی کی ابتدا ہوگئی تھی۔تقسیم ہند سے قبل ہی لاہور آگئے تھے۔ابتدا میں فلمی دنیا میں ادبی مشیر کی خدمات انجام دیں۔ ۱۹۵۹ء میں روزنامہ ’احسان‘ میں ’مجنوں‘ کے نام سے کالم لکھتے رہے۔ ’’سویرا‘‘ کی ادارت بھی کی۔فلم ’’تین پھول‘‘ کی کہانی لکھی اور خود ہی ہدایت کاری بھی کی۔ روزنامہ ’’مساوات‘‘ لاہور سے بھی ظہیرؔ کاشمیری وابستہ رہے۔ ۱۲؍دسمبر۱۹۹۴ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’عظمتِ آدم‘، ’تغزل‘، ’چراغِ آخر شب‘، ’رقصِ جنوں‘،’اوراقِ مصور‘،’ادب کے مادی نظریے‘۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:102
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر ظہیرؔ کاشمیری کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
آہ یہ مہکی ہوئی شامیں یہ لوگوں کے ہجوم
دل کو کچھ بیتی ہوئی تنہائیاں یاد آ گئیں
—–
بڑھ گئے ہیں اس قدر قلب و نظر کے فاصلے
ساتھ ہو کر ہم سفر سے ہم سفر ملتے نہیں
—–
برق زمانہ دور تھی لیکن مشعل خانہ دور نہ تھی
ہم تو ظہیرؔ اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے
—–
دل بھی صنم پرست نظر بھی صنم پرست
اس عاشقی میں خانہ ہمہ آفتاب تھا
—–
فرض برسوں کی عبادت کا ادا ہو جیسے
بت کو یوں پوج رہے ہیں کہ خدا ہو جیسے
—–
ہمارے پاس کوئی گردشِ دوراں نہیں آتی
ہم اپنی عمرِ فانی ساغر و مینا میں رکھتے ہیں
—–
ہوتی نہ ہم کو سایۂ دیوار کی تلاش
لیکن محیطِ زیست بہت تنگ رہ گیا
—–
عشق اک حکایت ہے سرفروشِ دنیا کی
ہجر اک مسافت ہے بے نگارِ صحرا کی
—–
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
—–
سونے پڑے ہیں دل کے در و بام اے ظہیرؔ
لاہور جب سے چھوڑ کے جانِ غزل گیا
—–
تو مری ذات مری روح مرا حسنِ کلام
دیکھ اب تو نہ بدل گردشِ دوراں کی طرح
—–
وہ بزم سے نکال کے کہتے ہیں اے ظہیرؔ
جاؤ مگر قریب رگِ جاں رہا کرو
—–
ہیں بزم گل میں بپا نوحہ خوانیاں کیا کیا
بہار چھوڑ گئی ہے نشانیاں کیا کیا
—–
ہجر و وصال کی سردی گرمی سہتا ہے
دل درویش ہے پھر بھی راضی رہتا ہے
—–
جب خامشی ہی بزم کا دستور ہو گئی
میں آدمی سے نقش بہ دیوار بن گیا
—–
تمام عمر تری ہمرہی کا شوق رہا
مگر یہ رنج کہ میں موجۂ صبا نہ ہوا
—–
تو مری ذات مری روح مرا حسنِ کلام
دیکھ اب تو نہ بدل گردشِ دوراں کی طرح
—–
اس دورِ عافیت میں یہ کیا ہو گیا ہمیں
پتا سمجھ کے لے اڑی وحشی ہوا ہمیں
—–
موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
—–
لوح مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
—–
کس کو ملی تسکین ساحل کس نے سر منجدھار کیا
اس طوفان سے گزرے جس نے ندی ندی کو پار کیا
—–
اہلِ دل ملتے نہیں اہلِ نظر ملتے نہیں
ظلمتِ دوراں میں خورشیدِ سحر ملتے نہیں
—–
جمال یار کی نادیدہ خلوتوں میں ظہیرؔ
اگر گئے تو یہ آشفتہ سر ہی جائیں گے
—–
وہ محفلیں وہ مصر کے بازار کیا ہوئے
اے شہر دل ترے در و دیوار کیا ہوئے
—–
بستی بستی آج ہماری سعیٔ وفا کی شہرت ہے
ہم نے ظہیرؔ اک عالم کو پابند نگاہِ یار کیا
ظہیرؔ کاشمیری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ