آج – ٨ ؍جون؍ ١٩٣٨
محقق،نقاد، ادیب اور کہنہ مشق ممتاز شاعر” ظہیرؔ غازی پوری صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام ظہیر عالم انصاری اور تخلص ظہیرؔ ہے۔ ۸؍جون ۱۹۳۸ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی وطن غازی پور (یوپی) ہے ۔ وطن ثانی ہزاری باغ(جھارکنڈ) ہے۔۱۹۵۷ء میں بی اے کیا۔ آفس سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے ۱۹۹۶ء میں ریٹائر ہوئے۔ شاعری میں ابراحسنی گنوری مرحوم سے تلمذ حاصل ہے۔
ظہیرؔ غازی پوری ، ٣ ؍نومبر؍ ٢٠١٦ء کو وفات پائی۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’تثلیثِ فن‘‘ (نظمیں، مشترکہ مجموعہ)، ’’الفاظ کا سفر‘‘ (نظمیں ، غزلیں)، ’’آشوبِ نوا‘‘ (غزلیں)، ’’کہرے کی دھول‘‘ (نظمیں)، ’’سبزموسم کی صدا‘‘ (غزلیں)، ’’دعوت صد نشتر‘‘ (رباعیات)، ’’لفظوں کے پرند‘‘ (نظمیں)۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:333
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
ممتاز شاعر ظہیرؔ غازی پوری کے یومِ ولادت پر منتخب کلام بطورِ خراجِ تحسین…
ہر غزل ہر شعر اپنا استعارہ آشنا
فصل گل میں جیسے شاخ گل شرارا آشنا
خون تھوکا دل جلایا نقد جاں قربان کی
شہر فن میں میں رہا کتنا خسارا آشنا
کہہ گیا اپنی نظر سے ان کہے قصے بھی وہ
بزم حرف و صوت میں جو تھا اشارا آشنا
اپنے ٹوٹے شہپروں کے نوحہ گر تو تھے بہت
دشت فن میں تھا نہ کوئی سنگ خارا آشنا
عمر بھر بپھری ہوئی موجوں سے جو لڑتا رہا
وہ سمندر تو ازل سے تھا کنارا آشنا
***
کیا دعائے فرسودہ حرفِ بے اثر مانگوں
تشنگی میں جینے کا اب کوئی ہنر مانگوں
دھوپ دھوپ چل کر بھی جب تھکے نہ ہمراہی
کیسے اپنی خاطر میں سایۂ شجر مانگوں
آئنہ نوازی سے کچھ نہیں ہوا حاصل
خود بنے جو آئینہ اب وہی ہنر مانگوں
اک طرف تعصب ہے اک طرف ریاکاری
ایسی بے پناہی میں کیا سکوں کا گھر مانگوں
میری زندگی میں جو بٹ نہ جائے خانوں میں
مل سکے تو میں ایسا کوئی بام و در مانگوں
لمحہ لمحہ تیزی سے اب زمیں کھسکتی ہے
خود سفر کا عالم ہے کیا کوئی سفر مانگوں
بے طلب ہی دیتا ہے جب ظہیرؔ وہ سب کچھ
کس لیے میں پھر اس سے جنس معتبر مانگوں
ظہیرؔ غازی پوری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ