”بلاول معمولی شخصیت نہیں ہے وہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کا منتخب چیئر مین ہے۔ پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے اسے چنا ہے اور اسے قوم کا مینڈیٹ حاصل ہے۔“
یہ بیان وزیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا ہے جو انہوں نے چوہدری نثار علی خان کے بیان کے جواب میں دیا ہے۔ بیان سے ظاہر ہے کہ یہ انکے دلی جذبات ہیں۔ اس میں ملازمت کی مجبوری کا کوئی پہلو نہیں۔ اس بیان کا اس حقیقت سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ بطور وزیر اطلاعات خوش نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پیپلز پاٹی کے پرانے لوگ انکی وزارت میں مداخلت کرتے ہیں۔ ”پرانے “ اور ”نئے“ کا مسئلہ ٹیڑھا ہے۔ پرانے لوگوں کا موقف یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کو پیپلز پارٹی میں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔آٹھ دن پہلے وہ کسی اور پارٹی میں تھیں۔ تاہم ”نئے“ اور ”پرانے“ کا یہ قضیہ صرف پیپلز پارٹی میں نہیں۔ جماعت اسلامی کے پرانے رہنما قاضی حسین احمد نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت نے نیٹو سپلائی کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا تو انکے یعنی قاضی صاحب کے جماعتی سرگرم ارکان سپلائی روٹ بند کر دینگے۔ اس پر ”نئے“ رہنما جناب منور حسن کا ردّ عمل نہیں معلوم ہوا۔ جس انگریزی معاصرنے قاضی حسین احمد کی تقریر رپورٹ کی ہے ا س نے :
HIS PARTY ACTIVISTSکے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اگرپارٹی کے ارکان کسی رہنما کی ملکیت ہیں تب بھی یہ فیصلہ تو کرنا پڑےگا کہ وہ پرانے رہنما کی ملکیت میں ہیں یا ان کا مالک نیا رہنما ہے۔ ویسے قاضی صاحب کو خدا اور توانائی دے، وہ اِن رہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ یوں بھی کئی دہائیاں جماعت پر حکمرانی کرنے کے بعد انکی حالت شاہ جہان جیسی ہے۔اورنگ زیب نے اسے قلعے میں محبوس کیا تو اس نے بچے پڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس پر فرزند ارجمند کا تبصرہ یہ تھا کہ حکومت کرنے کی خُو نہیں گئی۔ اس سے ہمیں ایک اور نکتہ یاد آیا۔ ہم جب بھی رونا روتے ہیں کہ پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی کے اندر انتخابات نہیں ہوتے تو ہمیں ”خوشگوار“ او ر ”نرم“ قسم کی ای میلیں بھیجی جاتی ہیں کہ تم جماعت کا ذکر نہیں کرتے جس میں انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں جبکہ جمہویت کیلئے صرف ایسے انتخابات ہی ضروری نہیں ہوتے جسکے نتیجے میں بیس بیس پچیس پچیس سال کیلئے ایک ہی شخص پارٹی پر مسلط ہو جائے بلکہ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ سب کچھ شفاف ہو اور کچھ بھی خفیہ نہ ہے لیکن یہاں کچھ جماعتیں ایسی بھی ہیں جن کے شورائی اجلاسوں کی باہر کی دنیا کو ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔ خبریں باہر نکلتی بھی ہیں تو ٹکڑوں کی صورت میں اب ہم جیسے باہر والے زیادہ سے زیادہ یہ تصور ہی کر سکتے ہیں کہ نئے اور پرانے رہنما کے باہمی تعلقات ”نارمل“ ہیں اور یہ کہ کسی قسم کی تفتیش وغیرہ نہیں ہو رہی!
ویسے اس ملک کی بدقسمتی دیکھئے کہ کچھ سیاسی جماعتیں تو مشتمل ہی بالائی طبقات پر ہیں۔ ان سے توقع ہی عبث ہے۔ ان میں اگر کوئی صدیق الفاروق ہے بھی تو نقار خانے میں طوطی کی آواز ہے بلکہ آواز بلند کرنا تو دور کی بات ہے۔ ارب کھرب پتیوں کی دنیا میں کچھ کہنا ہی ناممکن ہے لیکن جو پارٹیاں نام نہاد مڈل کلاس کی چھاپ لیے ہوئے ہیں وہ بھی عوام کے حقیقی مسائل سے مکمل اجتناب کرتی ہے۔ جے یو آئی ہے یا سنی تحریک زرعی اصلاحات یا نظام تعلیم کی یکسانیت کی بات کوئی بھی نہیں کرتا۔ قاضی حسین احمد کے مضامین اکثر و بیشتر چھپتے ہیں لیکن ان کا موضوع افغانستان ہوتا ہے یا ترکی یا عرب ملکوں میں رونما ہونےوالے واقعات۔ ملک کے اندر کیا ہونا چاہیے، اس سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ رہے سید منور حسن تو عوام کے مسائل سے ان کا تعلق بھی اس حد تک ہے کہ گو امریکہ گو اور نیٹو سپلائی روٹ، نو۔
بعض اوقات محسوس اس طرح ہوتا ہے کہ ہماے ایجنڈے ہی باہر سے آتے ہیں۔ امریکہ نے حافظ سعید کے سر کی قیمت لگائی تو پوری قوم کا ایجنڈا اس طرف مڑ گیا۔ حالانکہ خدا کی کتاب میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب بھی لغو اور بے ہودہ بات کا سامنا ہو تو متانت سے گزر جاﺅ، لیکن ہم امریکہ کی ہر لغو اور بے ہودہ بات کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ آخر کار ساری تشہیر کا فائدہ امریکہ ہی کو ہوتا ہے۔
یہی حال نیٹو سپلائی کا ہے۔ سالہا سال سے پاکستان یہ کام کرتا رہا ہے۔ اس اثنا میں امریکہ نے متبادل راستے تلاش کر لیے ہیں۔ وسط ایشیائی ریاستیں اور رو س یہ کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ اس رکاوٹ کو دور کرنے سے پہلے امریکہ سے بہت سی باتیں منوا لے۔
نیٹو سپلائی روکنے کیلئے ساری مذہبی جماعتیں دفاع پاکستان کے پرچم تلے یکجہتی کا بے مثال مظاہرہ کر رہی ہیں۔ یہاں ایک عام پاکستانی کے ذہن میں یہ بلبلہ ضرور اٹھتا ہے کہ اگر نیٹو کا سامنا کرنے کیلئے یہ ساری جماعتیں متحد ہو سکتی ہیں تو عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کیوں نہیں اکٹھی ہو سکتیں؟ سید منور حسن کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ حافظ سعید انمول ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ان کیلئے حافظ سعید کی قیادت بھی انمول ہونی چاہیے۔ کیا یہ ساری جماعتیں اپنی الگ الگ شناختیں ختم کرکے ایک قیادت کے نیچے کام کرنے کیلئے تیار ہو جائیں گی؟ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ حافظ صاحب کی رہنمائی میں یہ سب حضرات قوم کو ایک پروگرام دیں جس کی روشنی میں سیات سے وڈیروں اور سرداروں کا خاتمہ ہو سکے۔ لاکھوں ہاری عورتیں ظلم کے پنجے سے آزاد ہو سکیں۔ کاروکاری، وَنی، سوارہ اور جاگیرداروں کی پنچایتوں کا ڈھونگ ختم ہو سکے۔ آخر وہ کونسی وجوہ ہیں جن کی بنا پر ہماری مذہبی جماعتیں وسائل کی عادلانہ تقسیم کے بارے میں نہ صرف یہ کہ کوئی بات نہیں کرتیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی رائے ہی نہیں رکھتیں؟ کیا انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ عوام دو وقت کی روٹی مشکل سے کھا رہے ہیں۔اخلاق رذیلہ کے حساب سے اس وقت یہ قوم دنیا میں سرفہرست شمار ہوتی ہے۔ جھوٹ، وعدہ خلافی، ملاوٹ، ٹیکس چوری، جعلی ادویات، کم تولنا، فروخت کرتے وقت شے کا نقص نہ بتانا…. غرض ہر وہ گناہ جس سے اسلام نے منع کیا اور جس سے اللہ کے رسول نے منع فرمایا، رات دن ہو رہا ہے۔ کیا ان جماعتوں کا فرض نہیں کہ اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کو ختم کرکے ایک قالب میں ڈھل جائیں اور ایک قیادت تلے، قوم کو ان ساری سماجی برائیوں سے نجات دلائیں؟یہ ہم اس لیے تجویز کر رہے ہیں کہ عام سیاسی جماعتوں سے عوام کو کوئی امید نہیں۔ ہاں! جو جماعتیں مذہب کا نام لیتی ہیں وہ مذہب کے احکام کے مطابق کچھ کر نے کی پا بند بھی ہیں۔
http://columns.izharulhaq.net/2012_04_01_archive.html
“