ظفر خان سے میری گہری شناسائی کبھی نہیں رہی لیکن چند بار جب بھی ملاقات ہوئی تعلق گہرا ہی محسوس ہوا تھا۔ اس سے میری آخری ملاقات کوئی پانچ برس پیشتر ہوئی تھی۔ میں سعودی عرب میں انتقال کر چکے رشتے دار جیسے ایک دوست کا آخری دیدار کرنے اپنے بھائی اور بھتیجے کے ہمراہ ڈی جی خان گیا تھا۔ واپسی پر رات ہو چکی تھی۔ قریشی موڑ پر میں نے بھتیجے سے گاڑی روکنے کو کہا تھا۔ اس نے گاڑی روکی تو میں نے کہا ٹھا” تم لوگ جاؤ میں کل پرسوں گھر آ جاؤں گا”۔ بڑے بھائی نے میرے اس اچانک فیصلے کا برا بھی مانا لیکن میں نعیم چیشتی کو کوٹ ادو آنے کے بارے میں مطلع کر چکا تھا۔ نعیم چشتی ظفر خان کی این جی او کے ساتھ جزوی طور پر کام کرتا ہے، ویسے وہ ہائی سکول میں استاد ہے۔
کوٹ ادو جانے والی بس بہت دیر بعد ملی تھی۔ ادھر نعیم چشتی مضطرب تھا۔ وہ تو وہاں اتر کر معلوم ہوا کہ ظفرخان نے اپنی این جی او کے دفتر میں کچھ دوستوں کو مجھ سے ملاقات کرانے اور تبادلہ خیالات کرنے کے لیے بلایا ہوا تھا۔ ظفرخان کے ساتھ کام کرنے والوں میں نعیم چشتی کے علاوہ ملازم حسین قیصر بھی ہیں۔ یہ دونوں کہتے ہیں کہ میں ان کی سوچ میں تبدیلی لایا تھا۔ جی ہاں میں کوئی ساڑھے تین چار سال کوٹ ادو میں کلینک چلاتا رہا تھا جہاں پٹھانے خان کی سنگت کے علاوہ میری سنگت میں تین نوجوان مظہر گورمانی، عابد چوہدری اور نعیم چشتی شامل تھے۔ یہ میرے ساتھ سرائیکی لوگ سانجھ اور پی این پی میں شامل رہے تھے۔ ملازم حسین جو تب قیصر نہیں تھا میرے کلینک پر اپرنٹس کے طور پر جزوی کام کیا کرتا تھا۔ ملازم حسین بھی بعد میں ہائی سکول کا استاد بن گیا اور قیصر تخلص کرنے لگا۔
ظفر خان سے میری گہری شناسائی کبھی نہیں رہی لیکن چند بار جب بھی ملاقات ہوئی تعلق گہرا ہی محسوس ہوا تھا۔ اس سے میری آخری ملاقات کوئی پانچ برس پیشتر ہوئی تھی۔ میں سعودی عرب میں انتقال کر چکے رشتے دار جیسے ایک دوست کا آخری دیدار کرنے اپنے بھائی اور بھتیجے کے ہمراہ ڈی جی خان گیا تھا۔ واپسی پر رات ہو چکی تھی۔ قریشی موڑ پر میں نے بھتیجے سے گاڑی روکنے کو کہا تھا۔ اس نے گاڑی روکی تو میں نے کہا ٹھا” تم لوگ جاؤ میں کل پرسوں گھر آ جاؤں گا”۔ بڑے بھائی نے میرے اس اچانک فیصلے کا برا بھی مانا لیکن میں نعیم چیشتی کو کوٹ ادو آنے کے بارے میں مطلع کر چکا تھا۔ نعیم چشتی ظفر خان کی این جی او کے ساتھ جزوی طور پر کام کرتا ہے، ویسے وہ ہائی سکول میں استاد ہے۔ ظفرخان لونڈ نے ان دونوں کے خیالات اور کام کرنے کی لگن کو دیکھتے ہوئے اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا۔ نعیم چشتی اور ملازم حسین قیصر، تنظیم “ہرک” کے ایک شعبے “وسوں” کے تحت سرائیکی ثقافت، شخصیات، مقامات اور واقعات سے متعلق مختصر دستاویزی فلمیں بناتے ہیں۔ تحریر بالعموم نعیم چشتی یا ملازم حسین قیصر کی یا دونوں کی مشترکہ ہوتی البتہ ملازم حسین قیصر کیمرہ مین ہونے کا فریضہ بھی سرانجام دیتا۔ وائس اوور بھی اس کی ہوتی اور فلم ایڈیٹنگ بھی کرتا۔ ان دونوں نے اس ضمن میں بہت زیادہ کام کیا ہے اور ان کا کام “ہرک” کی ویب سائٹ کے علاوہ یو ٹیوب پر بھی موجود ہے۔
ایسے لوگوں اور ایسے بھلے کام کی سرپرستی ظفر خان لونڈ کرتا رہا۔ ظفر خان اپنی ذات میں ایک سکول تھا تبھی تو کوٹ ادو میں ٹریڈ یونین اور پی پی پی کے لیے انتہائی فعال اور مستعد جوان دانشور، جدوجہد گروپ کے جوشیلے کارکن اور میرے دوست عابد چودھری کے چھوٹے بھائی علی اکبر نے مجھے لکھا ، ” ظفر خان لونڈ حکمت عملی سے متعلق شدید اختلافات کے باوجود میرے استاد اور اتالیق تھے”۔
اس رات ظفر خان اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ بھرپور گفتگو رہی تھی۔ کھانا بھی دفتر میں ہی کھایا تھا لیکن ظفر خان کے کام سے متعلق آگاہی اس سے اگلے روز ہونی تھی جس کے لیے ظفرخان نے مجھے بھی اپنے ساتھ لیہ کے نزدیک ایک جگہ جانے کی دعوت دی تھی۔ میں عابد چودھری کے ہاں جا کر سو گیا تھا۔ اگلے روز ہم سب ظفر خان کی این جی او کی وین پر سوار ہو کر متعینہ مقام پر پہنچے تھے۔
ایک نہری بند کے کنارے پر قناتیں لگی ہوئی تھیں، سٹیج بنا ہوا تھا اور کم از کم ایک سو افراد جمع تھے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ یہ دریائے سندھ کے مچھیرے اور ان کی عورتیں تھیں اس کے علاوہ ڈاکٹر اشو لال فقیر اور رفیق خان جیسے دانشور اور سیاسی کارکن بھی پہنچے ہوئے تھے۔ ان نادار مگر باشعور لوگوں کی ظفرخان کے ساتھ والہانہ محبت دیدنی تھی اور ظفر خان خود بھی ان لوگوں میں وہ جسے کہتے ہیں “ایٹ ہوم” محسوس کرتے تھے۔
ان نادار اور ناخواندہ لوگوں کو اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کا شعور ظفرخان لونڈ اور ان کے مخلص اور ان تھک ساتھیوں نے دیا تھا۔ ظفرخان چونکہ جوانی میں خود بھی ایک سٹریٹ تھیٹر گروپ کے ساتھ وابستہ رہے تھے چنانچہ انہوں نے اس علاقے میں اپنے پڑھے لکھے باشعور دوستوں اور ساتھیوں کا ایک سٹریٹ تھیٹر گروپ تشکیل دینے کے علاوہ خالصتاً ان مچھیروں اور مزدروں پر مشتمل ایک تھیٹر گروپ بھی بنایا تھا جس میں لڑکیاں اور عورتں بھی شامل ہیں۔ اس گروپ کی جانب سے پیش کردہ مختصر ڈرامے دیکھ کر میں نہ صرف خوش ہوا تھا بلکہ حیران بھی کیونکہ ظفرخان لونڈ نے مجھے بتایا تھا کہ یہ ڈرامے اس گروپ نے خود سوچے اور خود تیار کیے تھے۔
چودہ جولائی کو دن کے چار بجے کوٹ ادو میں ظفر خان کے گھر کی گھنٹی بجی۔ اس کا چھوٹا بیٹا راول باہر نکلا۔ دو جوان مرد جن کی عمریں چوبیس پچیس سال تھیں۔ ان میں ایک کے ہلکی ہلکی داڑھی تھی جبکہ دوسرے کے داڑھی نہیں تھی، دروازے کے باہر موجود تھے۔ انہوں نے راول سے کہا، “اپنے والد صاحب کو باہر بھیجو”۔ راول نے بتایا کہ ابا سو رہے ہیں۔ ان افراد نے کہا ہمیں کام ہے جگا دو۔ راول نے اندر جا کر ظفرخان کو جگا دیا۔ ظفرخان سائل کو سننے باہر نکلا، جس کے بعد ایک بار پھر گھنٹی بجی، راول ہڑبڑا کر باہر کو بھاگا تو دیکھا باپ خون میں لت پت سڑک پر گرا پڑا ہے، ارد گرد بھی خون ہے اور سر میں سوراخ۔ قاتل سائلنسر لگے پستول سے ظفرخان کو مار کر فرار ہو چکے تھے۔ گولی بہت نزدیک سے ماری گئی تھی جو دائیں آنکھ سے داخل ہو کر سر کی پشت سے نکل گئی تھی۔ ظاہر ہے موت فوری واقع ہو گئی تھی۔
مارنے والوں نے ایک ایسے انسان کو خبر بنانا چاہا اور این جی اوز کے لیے کام کرنے والوں میں دہشت پھیلانے کی کوشش کی جس نے نہ صرف اس علاقے میں کام کرنے کی بنیادیں کھڑی کر دی تھیں بلکہ انہیں مضبوط بھی کر چکا تھا۔ وہ ستارہ بجھانا چاہتے تھے مگر ستارہ نہیں بجھا۔ اس ستارے کی دمک نعیم، قیصر اور دیگر کے علاوہ ان مچھیروں اور ان لوگوں کی آنکھوں میں دیکھی جا سکتی ہے جن کے حقوق کے لیے وہ ستارہ دن رات روشن تھا۔ ستارے بجھ کر بھی روشنی چھوڑ جاتے ہیں۔ بجھا ستارہ ستارہ ہی رہتا ہے جسے بجھا ہوا نہیں کہا جا سکتا البتہ ستارہ ایسی ناانصافی پر کچھ دور چلا جاتا ہے۔