ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید لب و لہجہ، نئے موضوعات، اور منفرد اسلوب دیکھنے کو ملتا ہے، مگر ناقدین کی جانب سے ان پر لسانی اور فنی خامیوں کے حوالے سے بھی تنقید کی جاتی رہی ہے۔ آئیے اس پر تفصیل سے بات کرتے ہیں:
1. لسانی خامیاں
ظفر اقبال نے اردو زبان میں نئے الفاظ اور محاورات متعارف کرانے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے ان کی شاعری کو کئی مرتبہ غیر مانوس اور پیچیدہ سمجھا گیا۔ لسانی حوالے سے ان پر درج ذیل تنقید کی جاتی ہے:
نئے الفاظ کا بے جا استعمال: ظفر اقبال کا جدید الفاظ اور ترکیبیں گھڑنے کا رجحان اکثر ان کی شاعری کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ نئے الفاظ کی بے جا تخلیق اور عجیب و غریب تراکیب کی وجہ سے ان کی شاعری قاری کے لیے بوجھل ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے زبان کی سادگی متاثر ہوتی ہے اور شاعری کا اثر کم ہو جاتا ہے۔
زبان کے قواعد سے انحراف: ظفر اقبال کی شاعری میں اردو زبان کے قواعد سے انحراف بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کئی جگہوں پر انہوں نے نحوی اور صرفی اصولوں کو نظر انداز کیا ہے۔ اس کی وجہ سے بعض اوقات ان کی شاعری میں روانی کا فقدان محسوس ہوتا ہے۔
محاورات کا توڑ مروڑ کر استعمال: انہوں نے کچھ پرانے محاورات اور استعاروں کو توڑ مروڑ کر استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے زبان کی روایتی خوبصورتی اور سادگی متاثر ہوتی ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ سے بعض قارئین ان کے اشعار کو سمجھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔
2. فنی خامیاں
فنی لحاظ سے ظفر اقبال کی شاعری میں کچھ مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے:
تکرار: ان کی شاعری میں موضوعات اور الفاظ کی تکرار دیکھی جاتی ہے۔ یہ تکرار بعض اوقات اشعار کو غیر دلچسپ بنا دیتی ہے، اور قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کسی نئے خیال یا جذبات کو ابھارنے میں ناکام رہا ہے۔
موضوعات میں ابہام: ظفر اقبال نے جدید موضوعات کو اپنانے کی کوشش کی ہے، مگر بعض اوقات یہ موضوعات اتنے زیادہ مبہم ہوتے ہیں کہ قاری کے لیے انہیں سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کا انداز بیاں بھی اتنا پیچیدہ ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں موجود خیالات اور احساسات قاری تک پوری طرح نہیں پہنچ پاتے۔
بیانیہ کی عدم وضاحت: ظفر اقبال کی شاعری میں بیانیہ واضح نہ ہونے کی شکایت بھی کی جاتی ہے۔ ان کے اشعار میں جذبات اور افکار کی فراوانی تو ہے، مگر کہیں کہیں قاری کو واضح سمت یا پیغام نہیں ملتا۔
روایتی صنائع و بدائع سے گریز: ظفر اقبال نے اردو شاعری کے روایتی صنائع و بدائع (مثلاً تشبیہ، استعارہ، صنعت، تجنیس) کو اکثر ترک کیا ہے اور سادگی سے بچنے کی کوشش کی ہے۔ اس انحراف سے ان کی شاعری میں جمالیاتی حسن کی کمی محسوس ہوتی ہے اور شعر کی روایتی دلکشی ماند پڑ جاتی ہے۔
مجموعی تجزیہ
ظفر اقبال کی شاعری میں جدید طرزِ احساس اور انوکھے خیالات ضرور پائے جاتے ہیں، لیکن ان کی لسانی اور فنی خامیاں شاعری کے اثر کو کم کر دیتی ہیں۔ ان کی زبان اور اسلوب میں جدت کے باوجود، اردو ادب کے کلاسیکی قارئین انہیں مشکل اور غیر مانوس محسوس کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ظفر اقبال کا شمار اردو کے ممتاز جدید شاعروں میں ہوتا ہے اور ان کی شاعری کا اپنا ایک منفرد مقام ہے۔
اندھوں کا دیس
"اندھوں کا دیس" انگریزی ناول نگار ہربرٹ جے ویلز نے اس کو پہلی مرتبہ 1936 میں پبلش کیا گیا تھا...