ادب بنی آدم کی زندگی کا بہترین سرمایہ ہے اور دنیا کی جملہ زبانوں کا فروغ ادب کے ذریعہ ہی عمل میں آیا ہے اور یہی ادب انسانی خوابوں اور آرزوؤں کو اپنے قالب میں ڈھالتا ہے۔اور آنے والی نسلوں کو اپنی تازگی کا احساس بھی عطا کراتا رہتا ہے ۔ادب سماجی ،سیاسی ،معاشی نظام کو بالواسطہ طورپر انسانی جذبات و احساسات سے جو ڑتا ہے ۔ادب انسان کو شعور عطا کرتا ہے ۔جس کے ذریعہ انسان کے ذہن و قلب کو آسودگی عطا ہوتی ہے اور انسان میں سماجی ،سیاسی اور معاشی بیداری بھی پیدا ہوتی ہے۔
ظفر اقبال ایک اہم تجرباتی شاعر ہیں جنہوں نے پاکستان بننے کے بعد اُردو غزل میں چند ایک تجربات کیے جن سے غزل کی رنگت میں تبدیلی کا امکان نظر آتا ہے۔ظفر اقبال کا پہلا شعری مجموعہ آب رواں ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا تھا جس میں کلاسیکی غزل کا نقش محکم تھا۔اس مجموعے میں غزلیں چست ہیں لیکن مانوس واردات عشق کی پیروی کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔
شب سیاہ میں اُمید کا دیا بھی
نشانہ ستم موجہ ء صبا بھی ہیں
۱۹۶۴ء ظفر اقبال کی ملاقات افتخا ر جالب سے ہوئی جو اس وقت لسانی تشکیلات سے گتھم گتھا تھے۔گل آفتاب ایک غیر معمولی شعری مجموعہ ہے ۔یہ آب رواں کی نسبت اُردو غزل میں ایک بڑی جست ہے ۔ اس شعری مجموعے میں صحیح طور پر جدید اُردو غزل کا نقش قائم ہوتا ہے۔ظفر اقبال نے غزل کے صرف موضوع ہی نہیں بدلے طرز ِ احساس ،متخیلہ کی غیر معمولی کارکردگی سے اُردو غزل کا رن و آہنگ بدلا ہے ۔گل آفتاب کے بعد رطب و یا بس،عیب و ہنر ،سرعام ،غبار آلود سمتوں کا سراغ وغیرہ ان کے چند ایک شعری مجموعے ہیں۔
ظفر اقبال نے طنز،تمسخر ،پیراڈاکس کے استعمال سے اعلیٰ اور اسفل کو یک جا کرکے غزل کا ایک نیا احساساتی منطقہ دریافت کیا۔پاکستان میں اُردو غزل کی اولین جھلک ظفر اقبال کے شعری مجموعے ’’رطب و یابس ‘‘ میں دکھائی دیتی ہے۔اس میں شامل واحد آزاد غزل کی توصیف میں انیس ناگی لکھتے ہیں:۔
’’ظفراقبال کا روایتی غزل کے خلاف ردعمل اتنا شدید ہے کہ
وہ وسیع تر اظہار کی تمنا میں۔۔۔۔۔۔۔غزل کا رسمی قالب توڑ
کر آزاد غزل لکھنے لگتا ہے جو پیروڈی بھی ہے اور غزل کے نئے
تصور کی نشان دہی بھی کرتی ہے۔‘‘
غزل کے ’’نئے تصور‘‘ کی حامل اور ’’وسیع تر اظہار‘‘ کی خواہش سے سرشار اس آزاد غزل کے اشعار دیکھئے:۔
اس مکاں کو اُس مکیں سے ہے شرف
یعنی اک افواہ سی اڑنے لگی ہے ہر طرف
معترض کے منہ ہے کتا بندھا
اس لیے سننا پڑے گئی عف عف
نظر ثانی بھی کریں گئے اس غزل پر ،اے ظفر
فی الحال تو لکھی ہے ،رف
ظفر اقبال نے بعد میں اس ہیئتی پیکر کو استعمال نہ کیا ورنہ جس طرح انہوں نے لسانی توڑ پھوڑ سے غزل کو ضعف پہنچایا ہے اسی طرح ہیئتی حوالے سے بھی غزل مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے ۔غزل کو ہیئتی حوالے سے مفلوج کرنے کی سعادت ظفر اقبال کی بجائے معروف ترقی پسند غزل گو فارغ بخاری کو عطا ہوئی۔
ظفر اقبال کے یہاں معاصر شعرای میں انیس ناگی ،افتخار جالب اور جیلانی کامران کے لیے توصیفی جملے ہیں ،وہیں کہیں وہ رستم نامی اور فرحت عباس کی شاعری کی بھی توصیف کرتے ہیں۔ہم عصروں کے بارے میں مکالمہ کرتے ہوئے وہ رومانوی شعراء میں اختر شیرانی اور عدم کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی لکھتے ہیں کہاب انہیں کون یاد کرتا ہے ؟ ظفر اقبال کی آب رواں جب شائع ہوئی تو سب طرف اس کی تحسین ہوئی۔اس زمانے میں انیس ناگی اور افتخار جالب نے لسانی تشکیلات کا ڈول ڈھولا۔ظفر اقبال کااصرار ہے کہ اچھا شعر محبت کے تجربے سے گزرنے کے بعد ہی اور وہ تجربہ جان لیوا ہوتا ہے تب ہی ڈھلتی ہے شعر کی صورت۔
ظفر اقبال کے لسانی تجربات کے جائزے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے لسانی تشکیلات کے بنیادی رجحان سے اثر تو قبول کیا ہے لیکن بعینہ اپنی غزل کا جزو نہیں بتایا،بلکہ روایات اور جدت کے امتزاج سے وہ الفاظ گرامر،تلفظ ،زبان سازی اور زبان شکنی کے تجربات کرتے ہوئے نئی راہ سلجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس حوالے سے وہ ہر طرح کے الفاظ کو غزل کا جزو بناتے ہوئے اُسے نئے شعری پیکر اور نئی معنویت کا لبادہ عطا کرتے ہیں اور یوں اُن کی غزل اسلوبیاتی سطح پر اپنے اندر فکر و معنی کا ایسا مختتم خزانہ رکھتی ہے کہ جس میں الفاظ تراکیب نئے مصادر اور قوافی پیرہن بدل بدل کر غزل کی روایات ِ کہنہ کو یوں اجالتے ہیں کہ ظفر اقبال کی پیرویکرنا جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف دکھائی دیتا ہے۔الغرض ظفر اقبال نے نئی شعری روایات کی تشکیل سے ابلاغ کی نئی سطحوں اور نئے لسانی گلشنوں کی طرف پیش رفت کا عندیہ دے دیا ہے۔