ظفر اقبال کے تازہ شعری مجموعے ”تاخیر“ کا تنقیدی جائزہ
کوئی مانے یا نہ مانے میں تو ظفر اقبال کو جدید غزل کا امام اور اپنا مرشدمانتا ہوں۔ایسے ماحول میں جب ہر طرف توصیف کے ڈونگرے برسائے جارہے ہوں۔نوجوان شعراءصرف اپنی تعریف سننے کے عادی ہوں اور نقاد بھی اپنی عزت بچانے یا منفعت کی خاطر ہر شاعر کو نمائندہ شاعر گردانیں،ہر شاعر کی شاعری میں ایسی خوبیاں نکالیں کہ جو میر، غالب اوراقبال کے کلام میں بھی مفقود ہوں۔اس ماحول میں ظفر اقبال کا دم غنیمت ہے کہ کُھل کر تنقید کرتے ہیں ،جہاں تعریف کرنی ہو وہاں تعریف بھی کرتے ہیں۔وہ ایسا کرکے دراصل نوجوانوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ تنقید تخلیق کو چمکاتی او جھوٹی تعریف تخلیق کو گہناتی ہے۔حال ہی میں ظفر اقبال کے دو شعری مجموعے تاخیر او ر توفیق کراچی سے شائع ہوئے جو مرشد کے 31 ویں اور 32 ویںشعری مجموعے ہیں۔ظفر اقبال ہی کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ان کے دونوں شعری مجموعوں کا جائزہ لینے کا ارادہ باندھا ۔” تاخیر“ کے مطالعے کے دوران مجھے جو خامیاں اور کوتاہیاں محسوس ہوئیں انھیں لکھنے میں تاخیر نہیں کی،جو کچھ یوں ہیں۔
اہل ِ زبان اور لسانیات کے ماہرین کے نزدیک وہاں(اُدھر) جہاں(جدھر)یہاں(اِدھر)،کہاں(کدھر)وہیں،کہیں،یہیں وغیرہ جیسے الفاظ کے ساتھ پر یا پہ کا استعمال معیوب ہے ۔اساتذہ نے بھی اس کے استعمال میں احتیاط برتی ہے۔یہ معیوب کیوں ہے ایک مثال دیکھیے۔
اگر میں کہوں۔۔۔۔ تم وہاں کب گئے یا تم وہاں پر کب گئے۔۔۔۔۔ وہاں کے ساتھ پر کے استعمال کے باوجود دوسرا جملہ جو کہ غلط ہے ہمیں بظاہر معیوب نہیں لگ رہا مگر انہی دونوں جملوں کو اگر میں یوں لکھوں
تم اُدھر کب گئے یا تم اُدھر پر کب گئے تو بالکل واضح ہورہاہے کہ دوسرا جملہ غلط ہے اور کبھی کسی کے منہ سے سنا بھی نہیں ہوگا۔اساتذہ کے دو شعر دیکھیں۔
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ہماری خبر نہیں آتی(غالب)
حضراتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے۔۔۔۔۔۔اور ہوں گے تری محفل سے ابھرنے والے(داغ دہلوی)
ظفر اقبال کی کتاب میں 14 ا شعار ایسے ہیں جن میں یہاں، وہاں ،جہاں وغیرہ کے ساتھ پہ یا پر کا استعمال کیا گیا ہے۔چند مثالیں۔
وہاں پہ ہوگی ملاقات اُس کے ساتھ جہاں۔۔۔۔نہ جایا جائے گا مجھ سے، نہ آیا جائے گا
یہ اور بات کہ تو ہی نہیں یہاں موجود ۔۔۔۔ یہیں پہ تونے کہا تھا یہیں پہ آگیا ہوں
جو تھی اگر تو یہی میری منزلِ مقصود۔۔۔کہ میں جہاں سے چلا تھا وہیں پہ آگیا ہوں
اب اور اس سے زیادہ بتا نہیں سکتا۔۔۔کہیں سے جا چکا ہوں اور کہیں پہ آگیا ہوں
کہاں پہ جاکے رکا ہوں کہاں بناتے ہوئے ۔۔۔زمیں کو بھول گیا آسماں بناتے ہوئے
کسی کو بھی نہ تھی امید ہوسکتا ہے ایسے بھی۔۔۔یہاں پر کام ہی تو کوئی انوکھا ہونے والا ہے
جہاں پہ جانا ضروری ہے جا نہیں سکتا۔۔۔میں اپنا بوجھ بھی اب اور اٹھا نہیں سکتا ۔
اس حوالے سے ایک مصرع جو کہ زبانِ زد عام ہے اس کا بھی ذکر کردوں کہ اس میں وہیں کے ساتھ پہ کا استعمال نظر آتا ہے جو کہ غلط ہے۔
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
یہ مصرع مغلیہ شہزادے جہاں دار شاہ جہاں دار کا ہے اور درست شعر یوں ہے
آخر گِل اپنی،صرفِ درِ میکدہ ہوئی۔۔۔پہنچے وہاں ہی خاک،جہاں کا خمیر ہو۔
شعر میں محض وزن پورا کرنے کے لیے ایسے الفاظ یا لفظ شامل کرنا جن کے نہ ہونے پر بھی شعر یا مصرعے کے مفہوم اور روانی میں فرق نہ پڑے ایسے عیب کو حشو یا بھرتی کا لفظ کہتے ہیں۔بھرتی کے لفظ سے جہاں مصرعے کی بندش چست نہیں رہتی وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کے پاس ذخیرہِ الفاظ کی کمی ہے اور شاعر مشّاق نہیں ہے۔ بقول آتش۔
بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں۔۔۔۔۔شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا۔
اس حوالے سے” تاخیر“ میں شامل 14 اشعار ایسے ہیں جن میں حشو کا عیب نمایاں ہے۔چندمثالیں۔
جو دوسروں کو ظفر یہ ہنر سکھاتے ہیں۔۔ہم ان کے سامنے عرضِ ہنر کریں گے کیا
کسی پر آج تک ظاہر نہیں ہونے دیا ہم نے ۔۔یہ مرنا چاہتے ہم کہ جینا چاہتے تھے ہم
اگر چہ صاف بغاوت بھی کرچکا ہے یہ دل۔۔۔مگر تمھارے لیے بے قرار پھر بھی ہے
درج بالا تمام اشعار میں’یہ‘ اضافی ہے۔
ٹانکا لگے تو کیسے لگے ٹھیک سے ظفر۔۔۔سوئی درست ہے نہ ہی دھاگا درست ہے
آگ سی اندر لگی رہتی تھی اُس کی یاد سے ۔۔ رات بھر ہی یہ دیا میں نے بجھا رہنے دیا
جلد بازی کا ہی یہ انجام ہے ورنہ ظفر۔۔شاخ بھی کچھ وقت لیتی ہے شجر ہوتے ہوئے
درج بالا تمام اشعار میں ’ ہی ‘اضافی ہے۔
نہ باغ ہے نہ ہی وہ پھول ہیں نہ بادِ صبا۔۔یہ ہے نغمہ سرائی یہ اور ہی کچھ ہے۔(گوکہ صبا اہلِ فارس کے نزدیک مطلقاً ہوا کے معنوں میں آتی ہے)
اس شعر میں ’وہ‘ اضافی ہے۔
مرضی سے اپنی ہر کوئی کرتا رہا ادا۔۔الفاظ تھے جو زیر و زبر کے بغیر تھے
اس شعر کے دوسرے مصرع میں پہلا ’تھے‘ اضافی ہے۔
تم اُس کو چھوڑ ہی سکتے نہیں اگر تو ظفر۔۔کچھ اُس سے ملنا ملانا ہی کم کیا جائے
اس شعر کے پہلے مصرع میں’ ہی‘ اور’ تو‘ اضافی ہے۔
ہے جس طرح کا بھی رنگِ جہاں سمجھتے ہیں۔۔سمجھ رہے بھی ہیں لیکن کہاں سمجھتے ہیں
نجومی تو نہیں میں بھی ،قیافہ ہی تھا میرا بھی۔۔کرو کچھ یاد میں کہتا نہ تھا کچھ ہونے والا ہے
اوپر کے دونوں اشعار میں’ بھی‘ اضافی ہے۔
کتاب میں پروف کی غلطیاں بہت کم ہیں جو خوش آئند بات ہے
زمیں پہ میں خود ہوں اور اپنے لیے ہوں کافی۔۔۔اور آسماں پر میرا خدا ہے یہی بہت ہے
اس شعر میں میرا کی جگہ مرا آئے گا۔
دل یہ چاہتا ہے کیا کچھ پتا نہیں چلتا۔۔۔اور میری تمنا کا کچھ پتا نہیں چلتا
اسی طرح کوئی گھر میں سمٹ کے بیٹھ رہے۔۔۔میری طرح کوئی حد سے گزرنے والا ہو
ان دونوں اشعار میں میری کی جگہ مری آ ئے گا۔
تاخیر میں شامل تین اشعار دیکھیے۔
کبھی کبھار ہی بھول کر تیرا یاد کرنا۔۔۔یہ ابتدا ہے کہ انتہا ہے یہی بہت ہے
شریفانہ سے کچھ پیغامات بھی بھیجے ہیں اس کو۔۔۔مگر وہ یہ سمجھتی ہے شرارت کررہا ہوں
عرصے کے بعد واپسی ہورہی تھی کہیں۔۔پیڑوں کے پار شہر ہمارا قریب تھا
ان تینوں اشعار کے اُولیٰ مصرعے وزن سے خارج ہیں۔کتاب میں پروف کی غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کمپوزر کی غلطی ہے۔دل یہ بھی نہیں مانتا کہ ظفر اقبال جیسے معتبر شاعر بے وزن شعرکہیں گے اب یہ چُوک کیسے ہوئی یہ تو مرشد ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔
کتاب میں شامل تین مزید اشعار کچھ یوں ہیں۔
میرے باہر ہی نہیں شور شرابا ان کا۔۔کچھ پرندے مرے اندر بھی پھڑکتے ہیں ابھی۔
سماعتوں میں کوئی ابر سا کڑکتا ہے۔۔۔ لہو میں پھر کوئی شیشہ کہیں تڑکتا ہے۔
میں ہی اب رہ گیا تینوں میں نہ تیروںمیں ظفر۔۔مسئلہ ورنہ وہاں زیرِ نظر میرا تھا۔
اوپر کے پہلے شعر میں پھڑکتے کا استعمال درست نہیں کہ پرندے پھڑکتے نہیں پھڑپھڑاتے ہیں۔دوسرے شعر میں تڑکتا ٹھیک نہیں کہ شیشہ چٹختا ہے تڑکتا نہیں البتہ پنجابی زبان کے حساب سے ٹھیک ہے۔تیسرے شعر میں محاورے کو تو ڑ پھوڑ کر بھونڈی شکل میں استعمال کیا گیا حالانکہ شاعری میں محاوروں کو من و عن باندھنے کے عمل کو احسن جانا گیا ہے۔داغ دہلوی کا شعر دیکھیں
غیر کی محفل میں مجھ کو مثلِ شمع۔۔آٹھ آٹھ آنسو رلایا آپ نے۔
کتاب میں ایک شعر ہے کہ
شاخ دل کو ہلا گئی تو ہے۔۔اک ہوا سی کہیں چلی تو ہے۔
اس مضمون کو ناصر کاظمی نے زیادہ خوبصورتی سے باندھا ہے جو کچھ یوں ہے۔
دل میں اک لہر سی اُٹھی ہے ابھی۔۔۔کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی۔
کتاب میں شامل ایک غزل کے تین اشعار کچھ یوں ہیں ۔
کسی کو یاد رکھنا بھی کسی کو بھول جانا بھی۔۔۔بہانے زندہ رہنے کے یہی دوچار ہیں میرے
یہ فردِ جرم لگتی رہتی ہے مجھ پر محبت کی۔۔کبھی انکار ہیں میرے،کبھی اقرار ہیں میرے
بظاہر تو ظفر یہ گھاس میری کچھ سی لگتی ہے۔۔مگر یہ اور سارے پیڑ رشتے دار ہیں میرے۔
ان تینوں شعروں کو مرشد نبھا نہ سکے۔پہلے شعر کے دوسرے مصرع پر غور کریں تو پہلے مصرع میں بھی، بھی کا استعمال عجیب لگتا ہے۔اسی طرح دوسرے شعر کے پہلے مصرع کو دیکھیں تو دوسرے مصرع میں ہیں، ہیں الگ سے لگتے ہیں ۔اگر ہیں،ہیں کی جگہ پر ،پر لگائیں تو بات بنتی دکھائی دیتی ہے مگر ہائے رے ردیف و قوافی کی مجبوری۔تیسرے شعر کے پہلے مصرع میں’ کچھ سی لگتی ہے‘ عجیب ہے اگر پہلا مصرع یوں ہوتا کہ۔۔ بظاہر تو ظفر یہ گھاس میری کچھ نہیں لگتی۔۔۔۔۔تو بات بن جاتی۔
اسی طرح کتاب میں ایک اور غزل ہے
تم بات کرو ہو نہ ملاقات کرو ہو۔۔۔۔۔۔۔ کلیم عاجز کی زمین میں اس پوری غزل کو مرشد نبھا نہیں سکے۔اگر ردیف ’کرو ہو ‘ہے تو پھر مصرعوں کی بُنت بھی اسی زبان میں ہونی چاہیے تھی جو کہ نہیں ہے۔
کتاب میں ایک اور غزل ہے جس کا مطلع ہے۔
کہاں کیسی روانی کررہا ہوں۔۔۔کہ میں پتھر کو پانی کررہا ہوں
اس غزل میں ایک اور مطلع ہے جسے مطلع ِ ثانی بنانے کے بجائے مقطع سے پہلے لکھا گیا ہے ۔ایسا کیوں کیا گیا میری سمجھ میں نہیں آیا۔
کتاب میں سب سے زیادہ 26 غزلیں بحر ِ مجتث کی مزاحف شکل( مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن ) میں، 21 غزلیں بحرِ مضارع کی مزاحف شکل(مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن)میں،14 غزلیں بحرِ رمل کی مزاحف شکل(فاعلاتن،فعلاتن،فعلاتن،فعلن) میں اور 10 غزلیں بحرِ ہزج کی مزاحف شکل(مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن) میں کہی گئی ہیں۔یہ اور اس سے ملتی جلتی چند رواں دواں بحروں میں شاعروں کی اکثریت کا کلام پایا جاتا ہے۔زیادہ تر شعرا کا بیشتر کلام 10 ،12 بحروں میں ہی پایا جاتا ہے۔ظفر اقبال استاد شاعر ہیں، اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہیں،نوجوان شعرا ان کی تقلید کرتے ہیں ، اس لیے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیگر سالم ،مفرد اور مرکب بحروں میں بھی کلام کہیں وگرنہ جس طرح غزل اور نظم کے سوا دیگر اصناف ِ ادب دم توڑ چکی ہیں ،توڑ رہی ہیں اسی طرح 10 ،12بحروں کے سوا باقی تمام بحریں بھی دم توڑ دیں گی اور توڑ بھی رہی ہیں۔
جگر مراد آبادی نے کہا تھا کہ
” اللہ کسی شاعرکو سزا دینا چاہتا ہے تو اس پر بُرے شعر نازل کرتا ہے اور اگر کسی اچھے شعر کو سزا دینا چاہتا ہے تو اس کو کسی معمولی شاعر پر نازل کرتا ہے“۔
مرشد کی کتاب تاخیر میں 15 شعر ذم کے پہلو، عام بول چال میں استعمال ہونے والے کھردرے الفاظ، عامیانہ پن، سپاٹ بیانیہ کے باعث مجھے بُرے اور فضول لگے۔
اندھیرے میں سمندر کو ستارہ کررہے تھے ہم۔۔کیا تھا ایک بار اور اب دوبارہ کررہے تھے ہم
پکڑائی ہمیں دی ہی نہیں تم نے ابھی تک۔۔ہم بھی رہے پیچھے ہی لگا تار تمھارے
مجھے بھی ساتھ لیے پھر رہی ہے موج بہ موج۔۔سو کچھ دنوں سے محبت ہوائی کرلی ہے
گائے جانے کا نہیں میں شوقین ظفر۔۔گیت نہیں،میں گالی ہونا چاہتا ہوں
اب کہیں جا نہیں سکوگے کبھی۔۔میرے شیشے میں بال آئے ہو
پابندیاں ایسی ہیں لگائی ہوئی تونے۔۔کہنے کی اجازت ہے نہ کرنے کا زمانہ
نیچے سے نکالوں کبھی اوپر سے نکالوں۔۔۔باہر جو چھپا ہے اُسے اندر سے نکالوں
اُلٹا تو کردیا گیا سیدھاجو تھا اُسے۔۔۔اُلٹا کسی سے بھی کبھی سیدھا نہیں ہوا
پھٹ گیا کیا دھماکے سے کل۔۔۔یہ جو دل تھا وہ بم ہوئی گوا
جو رکھا تھا حفاظت کی خاطر۔۔۔جیب میری کترنے لگا ہے
پہلے بھی توڑ پھوڑ سے فارغ نہیں تھے ہم۔۔۔تم نے بھی کام پر ہمیں اچھا لگایا ہے
صبح و شام مرے آگے۔۔۔بھینسیں بین بجاتی ہیں
چڑھتے ہوئے دیکھا نہ اُترتے ہوئے دیکھا۔۔اندر ہی کسی موج کو مرتے ہوئے دیکھا
اُسے کوئی ہم پر نہ تھا اعتبار۔۔سو تکیہ ہی رکھنا پڑا درمیاں
روز کرتا ہوں بڑے کو چھوٹا۔۔اور چھوٹے کو بڑا کرتا ہوں
فکری بالیدگی، ندرت ِ خیال ،زبان و بیان ،جدید طرز احساس اور ا وصاف ِ سخن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جو اشعار مجھے پسند آئے ان کی تعداد 48 نکلی ۔جگہ کی کمی کے باعث کچھ اشعار ہی درج کررہا ہوں۔
ہماری اپنی ہی آنکھیں مگر ہماری نہیں۔۔۔۔ کہ دیکھنا ہے وہی جو دکھایا جائے گا
کوئی اس کا جواب ہے ہی نہیں۔۔۔ یہ جو لے کر سوال آئے ہو
رکاوٹ سے روانی ہورہا ہے۔۔۔کوئی پتھر سے پانی ہورہا ہے
پسند آیا تھا کوئی درمیانی ر ا ستا ہم کو۔۔۔نہیں کی دین کی خواہش،نہ دنیا چاہتے تھے ہم
اس ایک فکر میں ہی مبتلا ہیں شام و سحر۔۔کہ جو ملا ہی نہیں وہ جدا نہ ہوجائے
میں گھر سے کم ہی نکلتا ہوں دن کے وقت ظفر۔۔کہ میرا سایہ ہی مجھ سے بڑا نہ ہوجائے
کچھ بھی اچھا نہیں ہے لیکن۔۔۔ پھر بھی سب اچھا لگتا ہے
کبھی دماغ میں ہوتی ہے اور کبھی دل میں۔۔۔محبت اس طرح اپنی جگہ بدلتی ہے
سوچ رہے ہیں کیا آوازہ تھا جس پر۔۔۔ اُٹھ کر اپنے اور بیگانے چلے تھے
جس کا یہاں جواب سہولت سے مل سکے۔۔۔ ایسا کوئی سوال ابھی پیدا نہیں ہوا
آنکھیں ہم نے ہی بند رکھیں۔۔۔اُس نے تو پردہ نہیں کیا
دھوپ کے بے کنار صحرا میں۔۔۔ یہ اکیلا شجر غنیمت ہے
تمھارے کارنامے سامنے آجائیں گے سارے۔۔ اندھیرے چھٹنے والے ہیں،اُجالا ہونے والا ہے
دوچار عیب ہوں تو نکلتا ہے پھر بھی کام۔۔لازم نہیں کہ آپ کو کوئی ہنر بھی آئے
تیز بارش بھی خوب ہے لیکن۔۔۔اتنا پانی کہاں سے آتا ہے
ہم آپ ہی غلط ہیں،یہ دیوار ہے درست۔۔۔تصویر ہے صحیح،اسے اُلٹا لگایا ہے
سوچتا رہتا ہوں دیدار سے آگے کیا ہے۔۔۔ہے یہ دیوار تو دیوار سے آگے کیا ہے
سرخرو ہوگئے ناکام بھی رہ کر اس میں۔۔۔عشق اک فرض تھا جو ہم نے ادا کرلیا ہے
نظر کو تازہ کرنا چاہتا ہوں۔۔۔اُسے دیکھے زمانہ ہوگیا ہے
اندھے کو تو نظر نہیں آتا ہے کچھ مگر۔۔۔جو دیکھتے ہیں اُن کو یہ اندھا نظر تو آئے
مرشد کی دوسری کتاب توفیق کا تنقیدی جائزہ آئندہ۔
“