قحط اور بھوک سے اچھے سال میں ہزاروں اور برے سالوں میں لاکھوں لوگ مرتے ہیں۔ پر غور کریں تو مرنے والوں کی اکثریت افریقہ اور ایشیا کے پسماندہ ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ پتھر میں کیڑے کو بھی رزق ملتا ہے وہ ہر سال انسانی لاشوں پر گدھوں کو ضیافت کرتے دیکھتے ہیں پر اپنے مفروضے پر سوال اٹھانے کی زحمت نہیں کرتے۔ مجھے آج بھی نیشنل جیوگرافک میں چھپی وہ تصویر نہیں بھولتی جس میں صومالیہ کا ایک قحط زدہ بچہ نیم جان حالت میں بیٹھا ہے اور پاس ہی ایک گدھ منتظر ہے کہ یہ گرے تو وہ اسے نوچنا شروع کرے۔
پر یہ قیامت کبھی ایسے ممالک پر نہیں گزرتی جو ہمارے نزدیک کافر ہیں پر انہوں نے مادی ترقی کی وہ بلندی پا لی ہے کہ نہ وہاں خوراک مسئلہ ہے نہ صاف پانی۔ اور یہ سب انہوں نے سائنسی طریقوں، بہتر معاشی اور معاشرتی منصوبہ بندی اور آبادی پر قابو پا کر حاصل کیا ہے۔ پر ہم ان بیکار کی باتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ ہر گھر میں بچوں کی قطار لگی ہے کہ ان کے رزق کے آسمانی وعدے پر ہمیں کوئی شک نہیں ہے۔
پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان بچوں کی موت کا وقت لکھا ہوا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بچوں کو اور ان کی ماؤں کو اچھی طبی سہولیات تک رسائی نہیں ہے۔ اس سے بھی اہم یہ کہ ہماری آبادی کی اکثریت فیملی پلاننگ سے آگاہی نہیں رکھتی۔ تاج محل دیکھیے تو یاد رکھیے کہ ممتاز محل کو انیس برس میں چودہ بچے پیدا کرنے پڑے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سات بچے بھی مرے اور آخر میں ملکہ عالیہ بھی چودہویں بچے کو جنم دیتے دیتے چل بسیں۔ ایسی محبت سے تو عورت کے لیے دائمی ہجر ہی اچھا۔