سٹینفورڈ یونیورسٹی میں آج سے پچاس سال قبل بچوں پر ایک تجربہ کیا گیا جو سوشل سائنس کا مشہور ترین تجربہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک بچے کو ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا اور سامنے ایک مارش میلو (ایک مٹھائی) رکھ دی۔ تجربہ کرنے والا کمرے سے باہر گیا اور جاتے ہوئے کہہ گیا کہ بچہ یہ کھا سکتا ہے لیکن اگراس کے واپس آنے تک انتظار کر لے گا تو پھر اسے دو مارش میلو ملیں گی۔ پھر باہر نکل کر بچے کو چند منٹ انتظار کروایا گیا۔ کچھ بچوں نے فورا ہی یہ مارش میلو کھا لی، کچھ نے تھوڑا انتظار کر کے اور کچھ نے اس کو ہاتھ نہیں لگایا جب تک تجربہ کرنے والا واپس نہیں آ گیا۔
اس کے بعد ان بچوں کی زندگی کو ٹریک کیا گیا۔ وہ بچے جو انتظار کر سکتے تھے، وہ زندگی میں زیادہ کامیاب نکلے۔ تعلیمی میدان میں آگے رہے، پروفیشنل میدان میں آگے رہے، موٹاپے کا شکار کم ہوئے اور معاشرتی تعلقات میں بہتر رہے۔ اس ٹیسٹ کو کئی طریقے سے دہرایا جا چکا ہے۔ اس کے بارے میں تفصیل نیچے دئے گئے پہلے لنک سے۔
لیکن کیا یہ ضبطِ نفس کا امتحان صرف بچوں تک محدود ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ آپ نے ایک مقابلے میں ایک انعام جیتا ہے۔ دو میں سے ایک انتخاب کرنا ہے۔ یا تو دو ہزار روپے ابھی لے لیں یا پھر دس ہزار روپے ایک سال ٹھہر کر لے لیں۔ ہر اعتبار سے دوسرا انتخاب بہتر ہے لیکن حیرت انگیز طور پر بہت سے لوگ پہلی چیز کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایسا فیصلہ جس کے نتائج بدلتے وقت کے ساتھ بدلیں، انٹرٹمپورل چوائس کہلاتا ہے۔ اس غیرمنطقی انتخاب پر اکنامکس اور سائیکلولوجی میں تحقیق کرنے والے اپنا سر پکڑ کر رہ جاتے ہیں لیکن انسان کی بنیادی فطرت یہ ہے کہ یہ موجودہ لمحے کے مقابلے میں مستقبل کو بہت کم اہمیت دیتا ہے۔
ایک شوہر جو بیوی سے بے وفائی کر کے اپنی وقتی خوشی کے لئے اپنی مستقل ازدواجی زندگی تباہ کر رہا ہے، ایک طالب علم جو کچھ سیکھنے کے بجائے وقت ضائع کر رہا ہے۔ ایک شخص جو اپنے مالی مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے بچت کے بجائے فضول کاموں میں پیسے اڑا رہا ہے۔ یہ سب اسی وجہ سے ہیں کہ انسانی ذہن آج کے لمحے کے مقابلے میں مستقبل کو شعوری طور پر وہ اہمیت دے ہی نہیں پاتا۔
ایک دوسرے سے تعاون، دیانتداری، وفاشعاری، عملِ پیہم، یہ سب انٹرٹمپورل فیصلے ہیں۔ مثال کے طور پرخودغرضی ایک قلیل مدتی فیصلہ ہے۔ خود غرض شخص اپنے رشتے اور تعلقات نہیں بنا سکتا۔
دھوکہ دینے یا پھر دوسروں کی مدد کرنے کے یہ فیصلے اخلاقی اور نفسیاتی شعبے کا معاملہ ہیں لیکن دلچسپ پہلو یہ کہ بالکل یہی رویہ پیسوں کی مینجمنٹ، بچت اور سرمایہ کاری کے رویے کی پیشنگوئی بھی کر دیتا ہے اور یہ صرف افراد تک محدود نہیں۔ موسمیاتی تبدیلی، وسائل کا ضرورت سے زیادہ استعمال، طویل مدتی پراجیکٹس پر سرمایہ کاری نہ کرنا اور اس قسم کے مسائل بھی یہی ہیں۔ آج کچھ تکلیف برداشت کر کے طویل المدت فائدہ اٹھانا اجتماعی اعتبار سے بالکل ویسا ہی ایک فیصلہ ہے۔ ایک اچھا سرمایہ کار بھی صرف وہ بن سکتا ہے جو ضبطِ نفس رکھتا ہو۔
آج پیسے بچا لینا تا کہ مستقبل محفوظ ہو سکے، لذیذ کھانا سامنے ہے مگر ہاتھ کھیچ لینا تا کہ جسم موٹاپے کی طرف مائل نہ ہو جائے، گاڑی دھوتے ہوئے پائپ کے بجائے بالٹی اٹھا کر لے جانا تا کہ اگلی نسلوں کے لئے پانی ختم نہ ہو جائے، یہ سب ضبطِ نفس ہے۔ اس کی سائنس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ یہ ضبطِ نفس نہ صرف اچھا کردار بناتا ہے بلکہ افراد، قوموں اور نسلوں کی خوشحالی بھی اسی میں ہے۔ اس کو بڑھانے کے لئے صرف قوتِ ارادی یا منطق نہیں، اچھی معاشرتی اقدار کا فروغ سب سے اہم ہے۔
وہ جو سائنسدان ہیں اور وہ جو سائنس دان نہیں، ان سب کو یہ کوشش کرنا ہے، ہر ڈسپلن کے ذریعے، کہ وہ خود غرض اور قلیل مدتی فیصلوں سے ذہن کو بچا سکیں اور اس پر قابو پانے کے طریقے ڈھونڈ سکیں۔
مارش میلو کا تجربہ
https://en.wikipedia.org/wi…/Stanford_marshmallow_experiment
انٹرٹمپورل چوائس کیا ہے؟
https://en.wikipedia.org/wiki/Intertemporal_choice
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔