بولنا فطری صلاحیت ہے۔ اس کو ایجاد نہیں کرنا پڑا۔ لکھائی کو ایجاد کرنا پڑا۔ بہت سے قبائل ایسے ہیں جنہوں نے ایسا کبھی بھی نہیں کیا۔ ہم کئی بار اس ایجاد کو اتنی اہمیت نہیں دیتے لیکن بلامبالغہ یہ انسانی تاریخ کی بڑی ایجادوں میں سے تھی اور شاید انسان کی کی گئی ایجادات میں سے سب سے مشکل یہی ایجاد تھی۔ یہ اتنا مشکل کام ہے کہ اگرچہ دنیا میں اس وقت بولی جانے والی زبانوں کی تعداد تین ہزار کے قریب ہے لیکن ان میں سے صرف سو کے قریب ایسی زبانیں ہیں جو تحریری شکل میں بھی ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ انسانی تاریخ میں آزادنہ طور پر رسم الخط کی ایجاد گنتی کی چند بار ہوئی ہے۔ باقی جگہ پر یہ کلچرل ترسیل سے پہنچا ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ سب سے پہلے لکھائی کی ایجاد جنوبی میسوپوٹیمیا میں سمیر میں پانچ ہزار سال قبل ہوئی۔ ہم صرف ایک اور جگہ کے بارے میں یقین سے کہہ سکتے ہیں جہاں پر یہ آزادانہ طور پر ڈویلپ ہوئی اور یہ میکسیکو میں 900 قبلِ مسیح میں ہوا۔ اس کے علاوہ تحریر کے سسٹم کی ایجاد پانچ ہزار سال پہلے مصر اور چین میں ساڑھے تین ہزار سال میں ہوئی جو ممکنہ طور پر آزادانہ تھی۔ ان کے علاوہ تحریر کے تمام سسٹم انہی سے نکلے ہیں۔
تحریر کی ایجاد کے ساتھ کئی طرح کے مسائل ہیں۔ آگ، پہیہ، اوزار اور دوسری بہت سی چیزوں کی ایجاد نیا تصور نہیں تھا۔ لیکن اگر آپ نے تحریر کبھی نہ دیکھی ہو تو یہ تصور کرنا کہ بولی جانے والی آوازوں کو بنائے جانے والے نقش و نگار میں تبدیل کیا جا سکتا ہے (لکھائی) اور ان نقش و نگار کو دیکھ کر کوئی ان میں سے مطلب نکال سکتا ہے (پڑھائی) بہت مشکل تصورات ہیں۔ اور آواز میں سے حرف کا تصور کرنا بھی بہت دشوار کام ہے۔
آج، ہم یہ سیکھتے ہیں کہ صوتی آوازوں کو بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور ان بنیادی حصوں کو حروف سے لکھا جا سکتا ہے۔ ہم “ٹ” اور “ٹھ” میں تمیز بھی کر سکتے ہیں اور ان کے تعلق کا بھی پتا ہے۔ ہم “پ” اور “ب” کی آواز میں تمیز کر لیتے ہیں جو کہ ایسی صورت میں مشکل ہوتا اگر لکھائی نہ ہوتی۔
اور یہ کہ صوتی زبان کو بنیادی حصوں میں تقسیم کرنا کس قدر دشوار ہے؟ کبھی غیرمانوس آواز سننے کی کوشش کریں تو اس کا اندازہ خود ہی ہو جائے گا۔ اور زبان جتنی غیرمانوس ہو، یہ اتنا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ انڈویورپی زبان بولنے والے کے لئے چینی زبان میں سے حروف الگ کرنا ایسا ایک چیلنج ہو گا۔ سیمریوں نے یہ سب چیلنج عبور کر کے لکھی گئی زبان تخلیق کی۔
اور نہیں، یہ ایجاد بولے جانے والے الفاظ کو محفوظ کرنے کے لئے نہیں کی گئی تھی۔
نئی ٹیکنالوجی جب ایجاد ہوتی ہے تو عام طور پر اس کا ابتدائی استعمال کسی اور کام کے لئے ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو ایجادات اور دریافت کے شعبوں میں کام کرتے ہیں، ان کے لئے بھی یہ سمجھنا اہم ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کے موجد ہوں یا سائنسی تھیوریوں کے ۔۔۔ اکثر انہیں خود بھی ٹھیک معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی ایجاد یا دریافت کا معنی کیا ہے۔
جب تھامس ایڈیسن نے ساونڈ ٹیکنالوجی ایجاد کی تو انہیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس کا استعمال موسیقی کے لئے ہو گا۔ ان کا خیال تھا کہ اس کی زیادہ کمرشل ویلیو نہیں اور اسے وصیت ریکارڈ کرنے یا آفس میں املا لکھوانے والی مشین کے طور پر بیچنے کی کوشش کی تھی۔ بالکل اسی طرح، لکھائی کی ٹیکنالوجی کا بھی ابتدائی استعمال وہ نہیں تھا جس سے ہم آج واقف ہیں۔ یہ الفاظ کو تحریری شکل میں ریکارڈ کرنے کے لئے نہیں تھی۔ اس کا کام کھاتے رکھنا اور فہرست بنانا تھا۔ لکھائی قدیم دور کی Excel سپریڈ شیٹ تھی۔
جس پہلی محفوظ لکھائی سے ہم واقف ہیں، یہ اوروک میں گارے کی تختیوں میں ہے۔ ان فہرستوں میں غلے کے تھیلے اور مویشیوں کے سر بنے ہیں۔ دوسری تختیوں میں لیبر کی تقسیم کی تفصیل ہے۔ ہمیں پتا لگتا ہے کہ اس عبادتگاہ میں اٹھارہ نانبائی تھے، اکتیس کشیدکار، سات غلام اور ایک لوہار۔ جزوی ترجموں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کام کرنے والوں کو طے شدہ راشن دیا جاتا تھا جس میں جو، تیل اور کپڑے جیسی اشیا تھیں۔ ایک پیشے کو شہر کا لیڈر کہا گیا تھا۔ ایک کو عظیم گلہ بان۔ پچاسی فیصد تختیاں اکاونٹنگ کے بارے میں ہیں۔ اور باقی کی اکثریت دوسروں کو اکاونٹنگ سکھانے کے لئے۔ سیکھنے کو بہت کچھ تھا، کیونکہ کھاتے رکھنا پیچیدہ تھا۔ انسان، جانور اور خشک مچھلی کے لئے نمبرنگ کا ایک سسٹم تھا۔ غلے، پنیر اور تازہ مچھلی کے لئے ایک اور۔
اپنی ابتدا میں لکھائی عملی استعمال کے لئے تھی۔ ہمیں کوئی ناول یا کائنات کے بارے میں تھیوریاں نہیں ملتیں۔ اشیا کی فہرستیں، دستخط، انوائس، جیسی ریکارڈ کیپنگ ہے۔ یہ بڑا غیردلچسپ سا لگے لیکن اس کا بہت بڑا اثر تھا۔ اس لکھائی کے بغیر شہری تہذیب نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ حساب کتاب کے بغیر پیچیدہ باہمی تعاون بنایا یا برقرار نہیں رکھا جا سکتا جو شہری زندگی کا خاصا ہے۔
شہر میں ہم ہر وقت لین دین کر رہے ہیں۔ خرید رہے ہیں، بیچ رہے ہیں۔ بل ادا کر رہے ہیں۔ اشیا وصول کر رہے ہیں۔ ادھار لے اور دے رہے ہیں۔ تنخواہ لے رہے ہیں۔ اجرت ادا کر رہے ہیں۔ وعدے اور معاہدے کر رہے ہیں۔ ان پر عمل کروا رہے ہیں۔ بغیر تحریر کے، یہ سب بے ہنگم اور تنازعہ رہتا۔ ذرا تصور کریں اگر زندگی کا صرف ایک ہفتہ کوئی ٹرانزیکشن نہ کر سکیں۔ محنت کے گھنٹوں کا حساب نہ رکھا جا سکے تو کیا ہو گا؟
اور بغیر لکھائی کے تو کرکٹ بھی نہ ہوتی۔ سکور ریکارڈ نہ ہو سکتا تو دونوں حریف فتح ڈیکلئیر کر دیتے۔
ابتدائی لکھائی کے نظام سادہ تھے، ویسے ہی جیسے ان کا مقصد سادہ تھا۔ سیدھی لکیروں کو گنتی کے مقصد کے لئے۔ اعداد کے ساتھ تصاویر۔ سکالر ان ابتدائی پکٹوگرام میں سے ایک ہزار سے زائد کو پہچان لیتے ہیں۔ مثلاً، گائے کا سر ہو تو اس کا مطلب گائے۔ مثلث کی شکل میں تین نیم دائرے ہوں تو اس کا مطلب پہاڑ۔ مثلث کے درمیان میں نشان ہو تو اس کا مطلب عورت۔ اور پھر انہیں ملا کر مرکب الفاظ۔ اس کے بعد والے پکٹوگرام میں اسم فعل کا اضافہ اور جملے بنائے جانے لگے۔ منہ، ہاتھ اور روٹی اکٹھے کا مطلب کھانا کھانے کا ہے۔
ان تختیوں کے لکھنے والے نوکیلے اوزار استعمال کرتے تھے۔ اس کے بعد نرسل کے سٹائلس استعمال ہونے لگے۔ اس طریقے سے لکھے پکٹوگرام کو کونیفورم کہا جاتا ہے۔ اوروک کے آثارِ قدیمہ سے ہزاروں ایسی تختیاں دریافت ہوئی ہیں۔ اشیا اور اعداد کے ساتھ، لیکن ان میں گرائمر نہیں۔
پکٹوگرام کے اس تحریری سسٹم کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لکھنا اور پڑھنا دونوں بے حد پیچیدہ ہو جاتے ہیں اور چھوٹے سے پڑھنے لکھنے والے طبقے تک ہی یہ فن محدود رہتا ہے۔ اور یہ پڑھے لکھے لوگ اپنے زمانے کی مفکرین کا طبقہ تھا جو پیشہ ور سکالر تھے۔ ان کو معاشرے میں اعلیٰ مقام دیا جاتا تھا۔ مصر میں ان پر ٹیکس معاف تھا۔
اس فن کی اہمیت اور اس کو سیکھنے کے لئے درکار محنت کی وجہ سے ایسے لوگوں کی معاشرے میں عزت تھی۔ اس کو دوسروں تک پہنچانے اور سکھانے کی ضرورت تھی اور اس نے ایک نئی انوکھی معاشرتی جدت کو وجود دیا۔ وہ ۔۔ جسے آج سکول کہا جاتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...