برہمن کے وجود میں آنے سے وہ آریہ جو اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق کھلے میدانوں میں سورج اور روشنی کی عبادت یا پوجا کرتے تھے، وہ مندروں کی تعمیر میں مصروف ہو گئے ۔ ہندوستان بھر میں برہمنوں کے حکم پر ہزاروں دیوی اور دیوتاؤں کے لیئے ہزاروں اقسام کے مندر تعمیر کیئے گئے ۔ برہمن ان مندروں پر مسلط ہو گئے ۔ اس اونچے مقام پر پہنچنے کے بعد اونچی اور نیچی ذاتیں مختص کی گئیں ۔ یہ تخصیص برہمنوں کی ایما پر کی گئی ۔ نیچ ذات والوں کا کام صرف اونچی ذات والوں کی خدمت اور سیوا کرنا تھا ۔ نیچ ذات والوں کو شودر کا نام دے کر اچھوت قرار دیا گیا جبکہ اونچی ذات والے برہمن، مہاراج اور ناگ دیو کہلانے لگے ۔
انسانی تاریخ میں جس طرح برہمنوں نے شودر ذات کی تذلیل اور استحصال کیا اس کی مثال بہت کم ملتی ہے ۔ اونچ نیچ کا تصور کسی انتظامی بنیاد پر قائم نہیں تھا بلکہ برہمنوں نے اس کی دوامی بنیادیں وضع کرنے کےلئے ایک فلسفے کی تخلیق کی تھی جو آواگون یا تناسخ کہلاتا ہے ۔ ذات پات کی اس تقسیم کے بعد قدیم ہندوستان میں نیچی ذات والوں کا جینا دو بھر ہو گیا ۔شودر ذات کو صرف اونچی ذات والوں کی خدمت کےلئے پابند کیا گیا ان سے صفائی ستھرائی کا کام لیا جانے لگا ۔ ان کو اچھی ملازمت یا کسی بھی قسم کا عہدہ اور منصب حاصل کرنے کا حق نہیں تھا ۔تعلیم کے دروازے ان کےلیے مکمل طور پر بند کر دیئے گئے ۔ ان کو اچھی غذا اور خوراک کھانے اور اچھا لباس پہننے کی بھی اجازت نہیں تھی ان کو اونچی ذات والوں کے سامنے آنکھ اٹھا کر دیکھنے اور اور سر اٹھا کر چلنے کی بھی اجازت نہیں تھی ۔ ہندو مت کی مشہور کتابوں بھگوت گیتا اور رامائن میں اس بارے میں مکمل خاموشی اختیار کی گئی ۔
اونچ نیچ کی ذاتوں کے علاوہ آقا اور غلامی کا دور بھی بڑے عرصے تک چلتا رہا جس نے کاروبار اور تجارت کی صورت اختیار کر لی تھی ۔ مرد و خواتین کو اٹھا کر طاقتور لوگ غلام اور کنیز بنالیتے تھے وہ اپنے آقا کے حکم کے پابند ہوتے تھے غلام اور کنیزوں کی منڈیاں لگتی تھیں جن کو بھیڑ بکریوں کی طرح خرید اور فرخت کیا جاتا تھا ۔ غلامی کے خاتمے کا آغاز پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہوا جنہوں نے خود اپنے غلاموں کو آزاد فرما کر اس کار عظیم کی ابتدا فرمائی ۔ جب تک آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غلام ہوتے تھے وہ ان کو غلام نہیں بلکہ ایک بہترین انسان کی حیثیت دیتے جو لباس خود پہنتے وہی اپنے غلاموں کو عطا کرتے اور جو کچھ خود خورد و نوش فرماتے وہی کھانا اپنے غلاموں کو عطا کرتے ۔
حضرت رابعہ بصری رحمت اللہ علیہ کو بھی بچپن میں کنیز بنایا گیا تھا ان سے بھی اس کا آقا وہی عام غلاموں اور کنیزوں والی خدمات لیتا تھا تا آنکہ ایک رات اس کے آقا پر ان کی پرہیزگاری کا انکشاف ہوا ان کو آزادی دی گئی ۔ امریکہ میں ریڈ انڈینز کو غلام بنایا گیا گوروں نے سیاہ فام نسل پر حکمرانی کی اور ان کا نہ صرف بھرپور استحصال کیا بلکہ ان کی ہر ممکن تذلیل کی جاتی رہی ۔ آخر وقت نے کروٹ بدلی اور امریکہ میں طویل جدوجہد کے بعد سیاہ فام نسل کو بھی گوروں کی برابری کا حقدار تسلیم کیا گیا ۔ اب ایک بار پھر امریکہ میں نسلی امتیاز کے نظام کو دوبارہ مسلط کرنے کی سازش کی جا رہی ہے جس طرح بھارت میں مسلمانوں سمیت سکھ اور عیسائی و دیگر اقلیتوں کی برابری کی حیثیت ختم کرنے کی مہم چلائی جارہی ہے ۔ ایسی صورت میں ایک حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ بھارت میں ہندو ادیبہ اور صحافی ارون دھتی رائے و دیگر ادیب، شاعر و دانش اور مقبوضہ کشمیر و فلسطین میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اس دور کے سب سے بڑے امریکی دانش ور نوم چومسکی بھی آواز بلند کرتے رہے ہیں حالانکہ وہ خود یہودی النسل ہیں لیکن انسانیت دوست ، امن اور انصاف کے خواہاں ہیں ۔
اونچ نیچ یا ذاتوں کی تقسیم کسی نہ کسی شکل میں پاکستان میں بھی موجود ہے ۔ یہاں نواب، سردار، ملک اور خان وغیرہ عام طور پر عام انسانوں کو وہ عزت اور مقام نہیں دیتے جو ایک انسان کا حق ہے ۔ ذات پات کی تقسیم یا ذاتوں کی اونچ نیچ کے متعلق سب سے بہترین فلسفہ اسلام کی مقدس کتاب قرآن مجید میں ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ تم میں ذاتیں اور قبیلے محض اس لیے بنائے گئے ہیں تاکہ تمہاری پہچان ہو سکے ۔ جبکہ اللہ تبارک و تعالی کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں واضح کر دیا تھا کہ تم میں ذات پات یا نسل کی بنیاد پر کسی کو کسی پر کوئی فوقیت اور برتری حاصل نہیں ہے بلکہ تم میں بہتر وہی ہے کہ جو متقی اور پرہیزگار ہے ۔ پاکستان میں بلوچستان کے سابق گورنر و سابق وزیراعلی اور ایک بڑے بلوچ نواب اکبر خان بگٹی نے ذات پات کی تقسیم اور اونچ نیچ کی ذات کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے اپنے قبیلے کی نیچ ذات والوں جن کو مریٹہ کہا جاتا ہے ان کو اپنے بگٹی قبیلے کے ساتھ برابری کا درجہ دینے کا اعلان کیا تھا اور اس پر عملی مظاہرہ بھی کیا تھا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک مساوی اور بہتر معاشرے کی تشکیل کے لئے مذہبی، رہنما علماء اور ادیب و شاعر،دانش ور اور صحافی اپنا فعال کردار ادا کریں ۔