مشتاق احمد یوسفی 4 ستمبر 1921ء کو ٹونک (بھارت) میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم اے کیا اور پھر بنکاری کے شعبے کو ذریعہ معاش بنایا۔ وہ کئی بنکوں کے سربراہ رہے اور پاکستان بینکنگ کونسل کے چیئرمین کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
مشتاق احمد یوسفی کا شمار اردو کے صف اوّل کے مزاح نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی تصانیف میں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت،آب گم اور شام شعر یاراں شامل ہیں۔ ظہیر فتح پوری نے کہا تھا "ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں"
مشتاق احمد یوسفی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات سے سرفراز کیا گیا تھا. اکادمی ادبیات پاکستان نے انھیں پاکستان کا سب سے بڑا ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ عطا کیا تھا۔ جناب مشتاق احمد یوسفی نے 20 جون 2018 کو وفات پائی۔ وہ کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
ان کے کچھ شہ پارے ۔۔۔
مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے
آدمی ایک بار پروفیسر ہوجائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں سمجھ داری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے
لہجہ لفظ کا ڈی این اے ہے، جس سے نظر کا فتور، نیت کا کھوٹ اور دل کا چور پکڑا جاتا ہے۔
لفظوں کی جنگ میں فتح کسی بھی فریق کی ہو، شہید ہمیشہ سچائی ہوتی ہے
جو ملک جتنا غربت زدہ ہوگا، اتنا ہی آلو اور مذہب کا چلن زیادہ ہوگا
دشمنوں کے حسب عداوت تین درجے ہیں: دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار
مسلمان کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کرکے کھا نہ سکیں
محبت اندھی ہوتی ہے، چنانچہ عورت کے لیے خوبصورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہوتا ہے
بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں، سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے
مصائب تو مرد بھی جیسے تیسے برداشت کرلیتے ہیں مگر عورتیں اس لحاظ سے قابل ستائش ہیں کہ انھیں مصائب کے علاوہ مردوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے
حجام کی ضرورت ساری دنیا کو رہے گی تاوقتیکہ ساری دنیا سکھ مذہب اختیار نہ کرلے اور یہ سکھ کبھی ہونے نہیں دیں گے
سردی زیادہ اور لحاف پتلا ہو تو غریب غربا منٹو کے افسانے پڑھ کر سو رہتے ہیں
امریکا کی ترقی کا سبب یہی ہے کہ اس کا کوئی ماضی نہیں
مرض کا نام معلوم ہوجائے تو تکلیف تو دور نہیں ہوتی، الجھن دور ہوجاتی ہے
پاکستان کی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں
فقیر کے لیے آنکھیں نہ ہونا بڑی نعمت ہے
بدصورت انگریز عورت نایاب ہے، بڑی مشکل سے نظر آتی ہے، یعنی ہزار میں ایک۔ پاکستانی اور ہندوستانی اسی سے شادی کرتا ہے
ہم نے تو سوچا تھا کراچی چھوٹا سا جہنم ہے، جہنم تو بڑا سا کراچی نکلا
آپ راشی، زانی اور شرابی کو ہمیشہ خوش اخلاق، ملنسار اور میٹھا پائیں گے کیونکہ وہ نخوت، سخت گیری اور بدمزاجی افورڈ ہی نہیں کرسکتا
گالی، گنتی، سرگوشی اور گندہ لطیفہ اپنی مادری زبان ہی میں مزہ دیتا ہے
ہارا ہوا مرغا کھانے سے آدمی اتنا بودا ہوجاتا ہے کہ حکومت کی ہر بات درست لگنے لگتی ہے
جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزوں کے بجائے پیسے برآمد ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب اسے بے فکری کی نیند کبھی نہیں نصیب ہوگی
انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے
یہ بات ہم نے شیشم کی لکڑی، کانسی کی لٹیا، بالی عمریا اور چگی داڑھی میں ہی دیکھی کہ جتنا ہاتھ پھیرو، اتنا ہی چمکتی ہے
مرد عشق و عاشقی صرف ایک ہی مرتبہ کرتا ہے، دوسری مرتبہ عیاشی اور اس کے بعد نری بدمعاشی
آسمان کی چیل، چوکھٹ کی کیل اور کورٹ کے وکیل سے خدا بچائے، ننگا کرکے چھوڑتے ہیں
قبر کھودنے والا ہر میت پر آنسو بہانے بیٹھ جائے تو روتے روتے اندھا ہوجائے
خون، مشک، عشق اور ناجائز دولت کی طرح عمر بھی چھپائے نہیں چھپتی
تماشے میں جان تماشائی کی تالی سے پڑتی ہے، مداری کی ڈگڈگی سے نہیں
لذیذ غذا سے مرض کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور طاقت پیدا ہوتی ہے
نام میں کیا رکھا ہے؟ دوست کو کسی بھی نام سے پکاریں، گلوں ہی کی خوشبو آئے گی
فرضی بیماریوں کے لیے یونانی دوائیں تیر بہدف ہوتی ہیں
جس بات کو کہنے والے اور سننے والے دونوں ہی جھوٹ سمجھیں اس کا گناہ نہیں ہوتا
مطلق العنانیت کی جڑیں دراصل مطلق الانانیت سے پیوست ہوتی ہیں
یورپین فرنیچر صرف بیٹھنے کے لیے ہوتا ہے جبکہ ہم کسی ایسی چیز پر بیٹھتے ہی نہیں جس پر لیٹا نہ جاسکے
مرزا خدا کے ان حاضرو ناظر بندوں میں سے ہیں جو محلّے کی ہرچھوٹی بڑی تقریب میں،شادی ہو یا غمی، موجود ہوتے ہیں۔ بالخصوص دعوتوں میں سب سے پہلے پہنچتےاورسب کے بعد اٹھتے ہیں۔ اِس اندازِ نشست وبرخاست نے ایک کُھلا فائدہ یہ دیا کہ وہ باری باری سب کی غیبت کرڈالتے ہیں۔ان کی کوئی نہیں کرپاتا۔
میں تو جب اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کہتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے رجیم سے یہی regime مراد ہے ۔( جنرل ضیاء کا دور )
بچپن ہی سے میری صحت خراب اور صحبت اچھی رہی ہے۔
ہم تو اسپتال میں مرنے کے خلاف نہیں۔ ویسے تو مرنے کیلئے کوئی بھی جگہ ناموزوں نہیں ، لیکن پرائیویٹ اسپتال اور کلینک میں مرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مرحوم کی جائیداد ، جمع جتھا اور بنک بیلنس کے بٹوارے پر پسماندگان کے درمیان خون خرابہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ سب ڈاکٹروں کے حصے میں آتا ہے۔
آپ نے بعض میاں بیوی کو ہواخوری کرتے دیکھا ہوگا۔ عورتوں کا انجام ہمیں نہیں معلوم لیکن یہ ضرور دیکھا ہے کہ بہت سے’’ہواخور‘‘ رفتہ رفتہ ’’حواخور‘‘ ہو جاتے ہیں۔
معتبر بزرگوں سے سنا ہے کہ حقہ پینے سے تفکرات پاس نہیں پھٹکتے۔ بلکہ میں تو عرض کروں گا کہ اگر تمباکو خراب ہو تو تفکرات ہی پر کیا موقوف ہے، کوئی بھی پاس نہیں پھٹکتا۔
اختصار ظرافت اور زنانہ لباس کی جان ہے۔
ان کی بعض غلطیاں فاش اور فاحش ہی نہیں، فحش بھی تھیں۔
جب نورجہاں کے ہاتھ سے کبوتر اڑ گیا تو جہانگیر نے اسے پہلی بار خصم گیں نگاہوں سے دیکھا۔
صاحب، میں ماکولات میں معقولات کا دخل جائز نہیں سمجھتا۔
کچھہ لوگ اتنے مذہبی ہوتے ہیں کہ جوتا پسند کرنے کیلئے بھی مسجد کا رخ کرتے ہیں۔
صرف ننانوے فیصد پولیس والوں کی وجہ سے باقی بھی بدنام ہیں۔
میرا تعلق اس بھولی بھالی نسل سے رہا ہے جو خلوصِ دل سے سمجھتے ہیں کہ بچے بزرگوں کی دعاؤں سے پیدا ہوتے ہیں۔
اب تم جن نظروں سے مرغی کو دیکھنے لگے ہو ویسی نظروں کیلئے تمہاری بیوی برسوں سے ترس رہی ہے۔
عالمِ اسلام میں ہم نے کسی بکرے کو طبعی موت مرتے نہیں دیکھا۔
اندرون لاہور کی بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ ایک طرف سے عورت آرہی ہو اور دوسری جانب سے مرد، تو درمیان میں صرف نکاح کی گنجائش بچتی ہے۔
جتنا وقت اور پیسہ بچوں کو ’’مسلمانوں کےسائنس پر احسانات رٹانے میں صرف کیا جاتا ہے، اس کا دسوں حصہ بھی بچوں کو سائینس پڑھانے میں صرف کیا جائے تو مسلمانوں پر بڑا احسان ہوتا۔
سمجھہ دار آدمی نظر ہمیشہ نیچی اور نیت خراب رکھتا ہے۔
مونگ پھلی اور آوارگی میں یہ خرابی ہے کہ آدمی ایک دفعہ شروع کردے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ختم کیسے کرے۔
وہ زہر دے کے مارتی تو دنیا کی نظر میں آجاتی، اندازِ قتل تو دیکھو، ہم سے شادی کرلی۔
شیر دلیر ڈکٹیٹر جب ’’ ایلس ان ونڈر لینڈ ‘‘ کی بلی کی لمبی دم کی مانند فیڈ آؤٹ ہوجاتے ہیں اور فق چہروں سے افق تک کھسیانی سی مسکراہٹ باقی رہ جاتی ہے تو وہ بالکل کاغذی اور کیسے بے ضرر معلوم ہوتے ہیں !
بیسویں صدی میں جیت انہی کی ہےجن کے ایک ہاتھ میں دین ہے اور دوسرے میں دنیا، اور دائیں ہاتھ کو خبر نہیں کہ بائیں میں کیا ہے۔
بیوی سے عشقیہ گفتگو کرنا ایسے ہی ہے جیسے انسان خارش وہاں کرے جہاں نہ ہو رہی ہو۔
ایجاد اور اولاد کے لچھن پہلے سے معلوم ہوجایا کرتے تو دنیا میں نہ کوئی بچہ پیدا ہونے دیتا اور نہ ایجاد۔
کتے کی تندرستی اور نسل اگر مالک سے بہتر ہوتو وہ آنکھ ملاکر ڈانٹ بھی نہیں سکتا۔
یوں میرا دادا بڑا جلالی تھا۔ اس نے چھ خون کئے اور چھ ہی حج کئے۔ پھر قتل سے توبہ کرلی۔ کہتا تھا اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں، اب مجھ سے بار بار حج نہیں ہوتا۔
اگر کوئی شخص یہ ثابت کردے کہ اس کے پاس اتنی جائیداد اور سرمایہ ہے کہ قرض کی قطعا" کوئی ضرورت نہیں تو بینک اسے قرض دینے پر رضا مند ہو جاتا ہے.
“