یوسفی ـــ آبِ حیات و نشاط گم شد
یوسفی سے پہلا تعارف ۸۲-۱۹۸۱ میں "خاکم بدہن" سے ہوا تھا.
{خاکم بدہن کے بارے میں لطیفے کی بات یہ ہے کہ ایک کلومیٹر دور سے دیکھ کر کسی لڑکی کے چال چلن کا اندازہ لگا لینے، مگر لندن میں سیڑھیاں اترتے اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکنے والے وکیل بابو نعیم بخاری نے کسی پروگرام میں جب یوسفی سے جب پوچھا کہ
"یہ خاکم بدہن کیا ہوتا ہے؟"
تو یوسفی نے اپنی مخصوص پُر ذہانت ظرافت کے ساتھ جواب دیا تھا
"چھوڑو جی! مٹی پاؤ، یہ شے آپ کے کام کی نہیں". }
"آبِ گم" میں نے اپریل۱۹۹۰ میں خریدی اور آٹھویں بار اسے ۲۰۰۸ میں پڑھا تھا. گزشتہ دس برس کے دوران بھی جستہ جستہ کئ دفعہ پڑھا ہے. کچھ عرصہ پہلے یہ کتاب ایک صاحب پڑھنے کیلیے عاریتاً لے گئے تھے. آج کوششِ بسیار کے بعد ان کے باورچی خانے کی پرچھتی میں پڑے پرانے اخباروں کے انبار سے بدقت تمام جب یہ بازیاب کرائ تو جگہ جگہ سالن کے دھبے، پنسل کی لکیریں اور سیاہ نشان دیکھے. یہی نہیں بلکہ جلد بھی اکھڑی ہوئ اور پہلے بیس پچیس صفحات بری طرح قطعہ و بریدہ ملے. کمال البتہ انہوں نے یہ کر رکھا تھا کہ سرورق پر کاغذ چڑھا کر "محفوظ" کرنے کا اہتمام کرنا نہ بھولے تھے کہ مبادا بےاحتیاط کہاویں. اب معلوم نہیں کہ یہ اہتمام گم گشتہ اور کہیں دور رفتہ سرورق کی پردہ پوشی کی غرض کیا گیا ہے یا اسے خرابی سے بچانے کیلیے، فی الحال دیکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی. مانگے کی کتاب کی حفاظت ایسے ہی ہوتی ہے اے ہم نفسو!
کتاب واپس آئ تو پہلی نگاہ کی محبت کی طرح اسے دیکھا اور پور پور لمس محسوس کیا. اسکی کٹی پھٹی حالت سے طاری ہونے والی کڑھن سے بچنے کیلیے بلاتوقف اسے پڑھنا شروع کر دیا تاکہ توجہ باہر سے اندر کی طرف ہوجائے اور "اسکول ماسٹر کا خواب" والے باب میں "کوئ دیوار سی گری ہے ابھی" والے جز تک پڑھ ڈالا. ایک مقام پر رکھے کاغذ پر اپنے ہاتھ کا لکھا ایک جملہ نظر آیا.
"خدا کا شکر ہے کہ "آبِ گم" کو پڑھنے کے بعد میں پہلے کی طرح یوسفی کو محض ایک مزاح نگار سمجھنے کے گناہ میں مبتلا نہیں رہا"
کاش یوسفی کے دوسرے پڑھنے والے بھی ذرا رک کر اس پہ غور کریں.
اور ہاں اس کتاب نے یہ بھی سکھایا تھا کہ جب کبھی دل میں اللہ کی عطاکردہ نعمتوں اور سہولتوں(جیسی تیسی بھی وہ ہیں) کی ناقدری و بےوُقعتی کا احساس جڑ پکڑنے لگے اور اس خیال سے کُڑھن پیدا ہونے کہ زندگی نے مجھے دیا ہی کیا ہے، تو چاہیے کہ ایک دو دن کے وقفے سے آب گم میں لیاری میں کھمبا نمبر۲۳ کے عقب میں واقع کیچڑ کے اس پار کی ایک جھگی کے مکین، مولانا کرامت حسین ڈاڑھی والے سے بشارت کی ملاقات کا حال ضرور پڑھ لیا جائے کہ جس سے "مشیت ایزدی اور مرضئ مولا کے جتنے حوالے اُس آدھ گھنٹے میں بشارت نے سنے اتنے پچھلے دس برسوں میں بھی نہیں سنے ہونگے… انہیں(بـشارت کو) اس سرنگ کے دوسری طرف بھی اندھیرا ہی انھیرا نظر آیا. ایسی ناامیدی، ایسی بے بسی، ایسے انھدیرے اور اندھیر کی تصویر کھینچنے کے لیے تو دانتے کا قلم چاہیے."
ان چند صفحوں میں انسان کو اندر تک منقلب کر دینے کا وہ سامان ہے جو صوفیوں سنتوں کی صحبت میں کی جانے والی سالہا سال کی ریاضتوں میں بھی کم ہی ہوگا.
آرٹ اپنے ناظر اور قاری کی قلبِ ماہیت کیسے کرتا ہے، یوسفی کی آبِ گم کے اکثر حصے آرٹ کی ان کرامتوں سے بھرے ہوئے ہیں.
پچھلے دنوں مشتاق احمد یوسفی کے انتقال(۲۰ جون) پر میں نے جب یہ لکھا کہ
"یوسفی بطور نثر نگار یوسفی بطور مزاح نگار سے بڑا آدمی تھا."
تو کچھ دوستوں نے اس پر ذرا تعجب کا اظہار کیا تھا. میں نے ان سے عرض کی کہ "میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یوسفی بطور مزاح نگار کوئ چھوٹا آدمی ہے. میری مراد صرف یہ ہے کہ مزاح میں یوسفی کا پایہ جتنا بھی اونچا ہو، نثر نگاری میں وہ اس سے بھی بلند ہے. ابھی وہ وقت آنا باقی ہے جب یوسفی کو ہم بطور فکشن نگار کے بھی دریافت کریں گے. یوسفی کی بڑائی کی ہر دریافت اسکی نثرنگاری کے کمالات پہ قائم ملے گی، انشااللہ. نثر کے ایسے معجزانہ کمالات آب گم میں یوسفی کی تمام سابقہ و مابعد کی کتب سے زیادہ ہیں.
افسوس کہ انتظار حسین، اسلم فرخی، مختار مسعود اور اب یوسفی کے بعد اس مخصوص ذائقہ والی نثر، جسمیں لفظ زندہ تجربوں کی واردہ کیفیات بن جائیں، لکھنے والے قلم کا آبِ سیاہ گم ہوگیا ہے.
ان کے انتقال کے بعد فیسبک پہ یوسفی کے نام سے منسوب اچھے برے، اصلی جعلی جملے بازیوں کا ایک انبار لگ گیا ہے. ان کے دست نوشتہ خط میں یہ جملہ بھی گردش میں ہے:
"یا اللہ زوالِ نعمت سے پہلے تیری نعمت کا احساس و ادراک، اس کی قدر اس کا صحیح استعمال تیرا شکر اور تحدیثِ نعمت کی توفیق عطا کر، زوالِ نعمت سے پہلے"
دست نوشتہ خط کی گواہی نہ ہو تب بھی یہ سمجھنے میں کوئ استبعاد نہیں کہ آب گم کے راضی بہ رضا مولانا کرامت حسین کی جوکھم بھری مگر سراپا تشکر اور پُرکرامت زندگی لکھنے والے یوسفی بھی یقیناً تسلیم و رضا کی بہت سی منزلیں اسی زندگی میں سر کر چکے تھے.
چند روز پہلے انکے آخری دنوں کا قریبی مشاہدہ کرنے والے ڈاکٹر خورشید عبداللہ نے اپنے ایک تبصرے میں لکھا تھا:
"میں یوسفی صاحب کے طبی مسائل اور پیچیدگیوں کی روشنی میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ موت بھی بعض اوقات شفا ہوتی ہے ۔
میں عید کے تیسرے دن ان کو سلام کرنے گیا تھا. وہ بہت تکلیف میں تھے۔ آدھ گھنٹے کی حاضری کے دوران انہوں نے مجھے نہیں پہچانا۔ جب میں اٹھنے لگا تو سرگوشی میں ایک لفظ دو بار دہرایا ۔ دعا دعا
ان کو اس حال میں دیکھنے کے لیے بڑی ہمت درکار تھی ۔ اگلی ہی صبح وہ ہسپتال میں داخل ہو گئے
انہوں نے ایک قابل رشک زندگی گزاری ۔ کچھ دن پہلے مجھ سے کہا تھا کہ ابھی تو اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا آغاز بھی نہیں ہو سکا ہے".
کاش ہمیں بھی اللہ کی نعمتوں کا بروقت شکر اور انکی قدر کی توفیق ارزانی رہے.
مرا به گور سِپاري مَگو وِداع وِداع
که گور پَردهٔ جَمعيتِ جِنان باشَد
کیا عجب کہ اسی زندہ احساسِ نعمت کی بدولت کہ یوسفی صاحب کی قبر باغ بہشت سے ایک پردے ہی کی دوری پر ہو!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“