ترکی کے شہرہ آفاق شاعر یونس ایمرے کی زندگی اور شاعری کا مقصد خالق اور اس کی مخلوق سے عشق و محبت کرنا یعنی اللہ تبارک و تعالی اور اس کے بندوں سے پیار و محبت کرنا ہے ۔ یونس ایمرے کا خیال ہے کہ خدا سے ملنے یا خدا تک پہنچنے کا ذریعہ بڑے بڑے نامور لوگ نہیں جو کہ مختلف مسلک اور فرقوں کے امام اور بانی ہیں بلکہ خدا تک پہنچنے کا ذریعہ انسان دوستی اور احترام انسانیت ہے ۔ یونس ایمرے کی 2 کتابیں ہیں ایک کتاب " رسالت النصیحہ " ہے ۔ یہ کتاب ان کی نصیحت پر مبنی ہے جبکہ دوسری کتاب " دیوان یونس ایمرے " ہے۔ یہ ان کا شعری مجموعہ ہے جس میں 350 نظمیں اور 1500 سے زائد اشعار ہیں ۔ یونس ایمرے کی شاعری وحدانیت، عشق و محبت پر مبنی ہے ۔ وہ صرف شاعر ہی نہیں بلکہ شیریں زبان و گفتار کے انسان اور حافظ قرآن بھی تھے ۔ وہ اگر دریا پر کھڑے ہو کر قرآن کریم کی تلاوت کرتے تو بہتا ہوا پانی رک جاتا تھا ۔ وہ پہلے نالیجان شہر کے قاضی بنے لیکن بعد میں استعفی دے کر خدا کی تلاش میں نکل پڑے ۔ انہوں نے اپنے دور کے مشہور عالم اور شاعر شیخ تاپدوک کی شاعری اختیار کر لی وہیں سے ان کو درویشی کا درجہ مل گیا ۔ یونس ایمرے ترکی کے علاقے اناطولوی کے ایک گاوں میں 1238 میں پیدا ہوئے اور 1321 میں ان کا انتقال ہوا ۔ وہ مولانا رومی سے 31 سال چھوٹے تھے ۔ ترکی سے تعلق رکھنے والے مولانا رومی اور یونس ایمرے کی شہرت دنیا کے بیشتر ممالک تک پھیلی ہوئی ہے ۔ ترکی کے موجودہ صدر طیب اردگان بھی یونس ایمرے سے بہت متاثر ہیں وہ اپنے خطاب اور گفتگو میں اکثر یونس ایمرے کی شاعری اور اقوال کے حوالے دیتے رہتے ہیں ۔
یونس ایمرے کو ترکی کا قومی و عوامی اور صوفی عاشق شاعر مانا جاتا ہے ۔ ان کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ترکی کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ان کے نام سے یادگاریں قائم ہیں ۔ یونیورسٹی، اوپیرا، فائونڈیشن اور کلچرل سینٹرز بھی ان کے نام سے منسوب ہیں ۔ ترکی کے ڈاک ٹکٹ، کرنسیوں اور سکوں پر بھی ان کی تصاویر نقش ہیں ۔ 1994 میں ان کی زندگی پر ایک فلم بھی بنائی گئی یونس ایمرے کی شاعری عوام اور خواص کے سینے میں محفوظ تھی جسے عبدالباقی گل پنارلی نامی شخص نے بیسویں صدی میں کتاب کی صورت میں چھپوا کر محفوظ کر لیا ہے ۔ یونس ایمرے کے حالات زندگی پر ترکی میں 2015 اور 2016 میں ترکی کے سرکاری ٹیلی وژن ٹی آر ٹی پر ڈرامہ سیریل نشر کیا گیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے یونیسکو کے زیر اہتمام 1991 میں یونس ایمرے کی 750 ویں سالگرہ کے موقع پر 1991 کو دنیا بھر میں یونس ایمرے کے سال کے طور منایا گیا ۔ یونس ایمرے کی شاعری کے دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمے کیے گئے ہیں ۔ اردو میں ڈاکٹر نثار احمد نے ان کی شاعری کا ترجمہ کیا ہے جس کو اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کی جانب سے 1991 میں شائع کیا گیا ۔ ڈاکٹر نثار احمد ترکی شہر انقرہ میں 26 سال تک افسر اطلاعات کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے چکے ہیں ۔ یونس ایمرے کی شاعری کے اردو زبان میں کیے گئے ترجمے سے چند منتخب اشعار پیش خدمت ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حق تعالی سارے جہاں پر محیط ہے
پھر بھی اس کی حقیقت سے کوئی واقف نہیں
بہتر ہوگا کہ اپنے آپ میں اسے تلاش کرو
کیوں کہ وہ تم سے دور نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے بغیر دونوں جہاں مجھے زندان نظر آتے ہیں
ترے عشق سے واقف جو ہو وہ خاص الخاص ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درویشی جسے کہتے ہیں وہ اک عجب شے ہے
درویش کے لئے اول خود آگہی ضروری ہے
گر عزم ہو آدمی میں تو وصل حق آسان ہے
بس خدمت اولیاء اور خود فراموشی ضروری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے عشق میں خود سے بیگانہ ہوں میں
شب و روز جلتا ہوں پروانہ ہوں میں
مجھے بس تیری جستجو ہے تیری آرزو ہے