یوٹیوب انفارمیشن کا بڑا ذریعہ ہے۔ ہر موضوع پر مواد دستیاب ہے۔ بہترین انفارمیشن جو گھر بیٹھے دیکھی جا سکتی ہے۔ اور بدترین جھوٹ جو اس وقت دنیا کو انتہاپسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ کیا ایسا سسٹم بنانا ممکن ہے جس سے یوٹیوب ان میں سے سچ اور جھوٹ کو الگ کر سکے؟ اگر بالفرض ایسا سسٹم بن جائے تو کیا سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا یوٹیوب ایسا سسٹم بنانے میں دلچسپی رکھتا بھی ہے یا نہیں؟
ان سب سوالوں کے جواب دلچسپ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوٹیوب میں ہر ایک منٹ میں 300 گھنٹے کی ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ ایک روز میں اتنی ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتیں ہیں کہ ان کو دیکھنے لگیں تو 82 برس لگیں گے۔ اس میں کسی کی بڑی محنت اور چھان بین کر کے بنائی گئی ویڈیوز بھی ہے اور ہر قسم کی خرافات بھی، کیونکہ ویڈیو تو کوئی بھی اپ لوڈ کر سکتا ہے۔ کونسا مواد قابلِ قبول ہے، کونسا کسے دکھایا جائے، کس کو اشتہار ملیں، کس ویڈیو کے ساتھ لنک میں کونسی دوسری ویڈیو دکھائی جائے۔ یہ سب کام انسان نہیں کر سکتے، یہ کام یوٹیوب کے الگورتھم کے سپرد ہے۔ ہر ویڈیو اپ لوڈ ہوتے وقت ان سے گزرتی ہے۔
کسی ویڈیو میں دی جانے والی انفارمیشن درست ہے یا نہیں، یہ تقریق کرنا آسان مسئلہ نہیں۔ کس مواد کو رینک کیسے کیا جائے؟ اس کے لئے سب سے پہلے ان کے بزنس ماڈل کو سمجھنا ہو گا۔ گوگل، فیس بُک، ٹوئٹر وغیرہ ہیں کیا؟ یہ پلیٹ فارم اپنی تقریباً تمام آمدنی اشتہارات کے ذریعے کماتے ہیں۔ یہ لوگوں کو اشتہار پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ پلیٹ فارم کے لئے مفید مواد وہ ہے جو لوگوں کو اس پلیٹ فارم تک لے کر آئے اور پھر اس کو ان میں اس میں محو رکھے۔ گر کوئی ایک لمبی ویڈیو پوری دیکھ لیتا ہے تو اچھی ویڈیو ہوئی۔ وہ کسی کامیڈین کی ہو سکتی ہے، کوئی ڈاکومنٹری ہو سکتی ہے، کوئی ڈرامہ ہو سکتا ہے، کوئی سیاسی نظریات پر کمنٹری ہو سکتی ہے۔ اس سے پلیٹ فارم کو فرق نہیں پڑتا۔ جو بھی ویڈیو، لوگوں کو اس پلیٹ فارم کے ساتھ وقت گزارنے پر مجبور کر دے، وہ اس کے لئے اچھا مواد ہے۔ اس دوران پلیٹ فارم اپنے اشتہار دکھا سکتا ہے۔ اس سے پلیٹ فارم کمائی کرتا ہے اور یہ کمائی اس ویڈیو دکھانے والے کے ساتھ شئیر ہوتی ہے۔ یہ اس پلیٹ فارم اور اس پر مواد تخلیق کرنے والے کی کامیابی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سائنسدان کی ویڈیو جو اپنی کئی برسوں کی تحقیق کے بارے میں بتا رہا ہے، ایک ماہر کاریگر جو اپنا فن دوسروں کے ساتھ شئیر کر رہا ہے، ایک ڈاکومنٹری بنانے والا جو کوئی نئی معلومات فراہم کر رہا ہے اور کوئی سازشی تھیوری بنانے والا جسے کل ہی کوئی اچھوتا خیال سوجھا تھا۔ پلیٹ فارم کی نظر میں سب برابر ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ کون دیکھنے والوں کی توجہ زیادہ حاصل کر سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کسی بھی پلیٹ فارم میں معیار صرف یہی رکھا جائے تو پھر ایک مسئلہ بہت جلد پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم صرف سازشی تھیوریوں اور سنسنی خیز ہیڈلائن والے مواد کا گڑھ بن جائے گا۔ کیونکہ توجہ حاصل کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔ البتہ پلیٹ فارم کو اس کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ اور یہ مسئلہ شہرت کا ہے۔ اگر اس کو چپٹی زمین، اینٹی ویکسین یا پھر شدت پسند سیاسی نظریات کے حوالے سے جانا جائے، تو طویل مدت میں اس کا اعتبار ختم ہو جائے گا۔ لوگ کہیں اور چلے جائیں گے۔ موٗثر رہنے کیلئے اور لوگوں کو دیر تک رکھنے کے لئے انفارمیشن کی اچھی کوالٹی اس کے اپنے لئے اہم ہے۔ اس کے لئے یہ اقدامات لئے جاتے ہیں کہ واقعی اچھی کوالٹی کے مواد کو زیادہ اہمیت دی جائے۔ اب دوسری طرف، پلیٹ فارم کو ایک اور انتخاب کا سامنا ہے۔ اگر صرف سنجیدہ مواد رہ جائے تو پلیٹ فارم اپنے استعمال کرنے والی مارکیٹ کا ایک بڑا حصہ کھو دے گا۔ وہ لوگ جو سنجیدہ مواد میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے، پلیٹ فارم ان کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتا۔ اس لئے ان کو وہ مواد بھی رکھنا ہے جو اس مارکیٹ کی توجہ لیتا ہے۔ جہاں گہری سوچ والا مواد ہے، وہاں پر وائرل ہونے کے لئے بنائی گئی ویڈیوز بھی۔ سپیس سائنس کے ساتھ اڑن طشتریاں بھی۔ تاریخ کے ساتھ قدیم خلائی مخلوق بھی۔ نئے سیاحتی مقامات کے ساتھ آسیب زدہ مکانات بھی۔ یہی چیلنج فیس بُک، ٹوئٹر، ریڈ اِٹ وغیرہ کو بھی ہے۔ توازن کی لکیر کہاں کھینچی جائے؟ اس کا کوئی آسان یا ٹھیک جواب کسی کے پاس نہیں۔
جو چاہیں گے، یہاں پر ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوشل انفارمیشن کے یہ پلیٹ فارم اپنی شہرت بہتر بنانے کے لئے بالکل غلط بیانی پر مشتمل مواد کی ریٹنگ کم کر رہے ہیں تا کہ اس کی پہنچ محدود ہو سکے۔ البتہ یہاں پر ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ فیکٹ کو چیک کرنے والے یہ الگورتھم ابھی تک صرف انگریزی کے مواد پر کام کرتے ہیں۔ دوسری زبانوں میں غیرسنجیدہ، غلط اور گمراہ کُن مواد کا تناسب زیادہ ہے۔ انگریزی کے علاوہ دوسری زبانوں میں سازشی عناصر کا پراپیگنڈہ اس وقت بالکل فلٹر نہیں ہو رہا۔
ایک مثال برازیل سے۔ زیکا وائرس برازیل میں 2016 میں پھیلا۔ اس بارے میں سازشی تھیوریاں بنائی گئیں۔ ان سازشی تھیوریوں کا یوٹیوب کے ذریعے سب سے زیادہ پرچار کرنے والے ہائیر بولسانورو تھے۔ ان کا اس قسم کا مواد بہت پاپولر ہوا۔ انہوں نے اس سے شہرت کمائی۔ مقبولیت کے بعد، وہ اپنی تھیوریوں کا دائرہ وسیع کرتے رہے۔ اچھی گھڑی ہوئی اور سنسنی خیز سازشی تھیوری کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔
یوٹیوب اور وہاٹس ایپ کے ذریعے سنسنی خیز مواد پھیلانے کی حکمتِ عملی کامیاب رہی۔ حقائق اور جذبات کی جنگ یک طرفہ رہی۔ فار رائٹ سے تعلق رکھنے والے غیرمعروف بولسرانو اس سے پہلے صرف ایک بار کونسلر کا انتخاب جیت سکے تھے۔ 2018 کا انتخاب جیت کر اس وقت وہ برازیل کے صدر ہیں۔ زیکا وائرس اور دوسرے مسائل تو ویسا ہی ہیں۔ ان کو بھلا کیا ہونا تھا۔ البتہ ایمزون کے جنگل میں اس سال پھیلنے والی بڑی آگ کے سلسلے اور عالمی ماحول کو ہونے والے پہنچنے والے بھاری نقصان کا ایک اہم ذمہ دار ان کو سمجھا جاتا ہے۔ (تفصیل نیچے لنکس سے)۔
سازشی مواد بے ضرر نہیں۔ برازیل اس معاملے میں اکیلا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں سوچ کا ایک تجربہ۔ اگر بالفرض کوئی ایسا سُپر انٹیلیجنٹ الگورتھم بنا لیا جائے جو ہر قسم کے جھوٹ اور سچ، غلط اور صحیح کی بالکل صاف صاف تفریق کر سکے تو کیا اس سے کوئی فرق پڑے گا؟
اگر کوئی الگورتھم یہ بتا دے کہ کوئی ایسا خیال، کوئی ایسی شے غلط ہے جو میری کور شناخت کا حصہ ہے تو میرا ردِ عمل کیا ہو گا؟ مثلاً، میری بڑی ہی پسندیدہ سیاسی شخصیت کی غلطیاں بتا دے۔ کسی ایسے طریقہ علاج کو غلط کہہ دے جس پر مجھے یقین ہے۔ کسی واقعے پر میری قوم کی ایسی غلطی کی نشاندہی کر دے جس کو ماننا میرے بس میں نہ ہو، تو کیا ہو گا؟ یہ میرا ذہن تو نہیں بدلے گا، شاید میری آواز زیادہ بلند کر دے۔
اس پلیٹ فارم پر اپنی اپنی مرضی کے سچ سب کو مل جاتے ہیں۔ صحیح اور غلط ، سچ اور جھوٹ، اصل اور نقل، یہ تفریق کرنا بالآخر ہم نے ہی سیکھنا ہے۔ اس کیلئے کوئی الگورتھم نہیں۔
برازیل کے صدر پر
ایمیزون کی آگ
اس پر ویڈیو
https://youtu.be/leX541Dr2rU
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...