اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ مقبول ویب سائٹ گوگل ہے، دوسرے نمبر پر یوٹیوب اور تیسرے نمبر پر فیس بُک۔ ان میں سے جس سائٹ پر سب سے زیادہ وقت گزارا جاتا ہے، وہ یوٹیوب ہے۔ اس کی کامیابی کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وہ ٹیکنالوجی جو ہمیں نظر نہیں آتی۔
اس کو تین بانیوں نے ۲۰۰۵ میں شروع کیا۔ ان میں امریکی چیڈ ہرلے، تائیوان سے تعلق رکھنے والے سٹیو چن اور بنگالی نژاد جرمن جاوید کریم تھے۔ چیڈ ہرلے کے بعد اس کے چیف ایگزیکٹو ایرانی سے تعلق رکھنے ولے سالار کمانگر بنے۔ آجکل اس کی چیف ایگزیکٹو روسی نژاد سوزن ووسیکی ہیں۔ ویڈیو شئیر کرنے والی اس کمپنی کو گوگل نے اس کمپنی کے بننے کے دو سال بعد ہی ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر میں خرید لیا تھا۔ یہ کپنی بھی دوسری ٹیکنالوجی کمپنیوں کی طرح دنیا بھر کے دماغوں کے ایک جگہ اکٹھا ہو کر مل کر کام کر کے ہونے والی جدت کی مثال ہے۔
ایک ویڈیو دیکھتے ہوئے آپ کو ساتھ دوسری ویڈیوز دیکھنے کے مشورے دینے والی ٹیکنالوجی کے پیچھے مصنوعی ذہانت کے الگورتھمز ہیں جو ایک طرح سے آپ کا دماغ پڑھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اس میں خیال اس بات کا رکھا جاتا ہے کہ آپ کیا دیکھ رہے ہیں، کیا دیکھ چکے ہیں، آپ جیسی پروفائل والے دوسرے کیا دیکھتے رہے ہیں، آپ کو پہلے کیا تجویز کیا جا چکا ہے اور آپ نے کس کو نظر انداز کیا اور کس طرف دھیان دیا۔ اس سب کے ساتھ کچھ وہ مکس بھی کیا جاتا ہے جو تھوڑا مختلف ہو تا کہ ایک ہی طرح کی چیز دیکھ کر بور ہو رہے ہیں تو کسی اور طرف بھی نکل سکیں۔ یہ ہمارے دماغ کے کام کرنے کے طریقے کو فالو کرتا ہے۔ یکسانیت کے ساتھ تھوڑا سا کچھ مختلف بھی۔ اس کو استعمال کرنے والے نہ صرف اپنے پسند کے ٹاپک پر ویڈیوز دیکھتے رہتے ہیں بلکہ یکسانیت سے اُکتا کر بھی اس ویب سائٹ سے نکلتے نہیں۔
اس کی ٹیکنالوجی کا ایک اور بہت اہم حصہ ویڈیو دکھانے کا طریقہ ہے۔ اگر ویڈیو دیکھتے ہوئے درمیان میں وقفے آئیں تو لوگ اسے دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اچھی کوالٹی کی ہائی ڈیفینیشن ویڈیوز آنے کے بعد یہ مسئلہ زیادہ سنگین ہو گیا۔ کیونکہ یہ بڑے سائز کی ویڈیو ہوتی ہے۔ بینڈ وتھ کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے اور یوٹیوب کا اس پر کنٹرول نہیں۔ اچھی کوالٹی کی ویڈیو کے انتخاب پر یہ مسئلہ بڑھ جانے سے یوٹیوب کے انجینئیرز نے اس کا دلچسپ حل ڈھونڈا۔ ایک ویڈیو مسلسل ایک فائل کی شکل میں سٹور نہیں کی جاتی۔ اس کو تین الگ طریقے سے سٹور کیا جاتا ہے۔ ہائی ڈیفینیشن، سٹینڈر اور لو کوالٹی۔ ان تینوں کو بھی چھوٹے چھوٹے ہزاروں حصوں میں کاٹ کر رکھا جاتا ہے۔ ایک سافٹ وئیر آپ کے کمپیوٹر کی بینڈ وتھ کی نگرانی کرتا ہے اور اس کی دستیابی کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے کہ کس وقت درمیان میں کونسا حصہ بھیجا جائے۔ ایک نیکلس کے موتیوں کی صورت میں پروئے یہ ہزاروں ویڈیو کلپ آپ کی سکرین تک پہنچتے ہیں۔ دماغ ان میں فرق محسوس نہیں کر سکتا اور ہم اسے ایک ہی ویڈیو کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ ہائی ڈیفینیشن دیکھتے وقت بھی درمیان میں کم کوالٹی کے چند ٹکڑے لگے ہوں تو دماغ اس کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ آپ کو سروس بہتر مل جاتی ہے۔ یوٹیوب کے انجئنیرز نے یہاں جو بنیادی نکتہ چیلنج کیا، وہ یہ کہ بہترین ویڈیو دکھانے کے لئے سو فیصد ویڈیو اچھی کوالٹی ضروری نہیں۔ دماغ اس سے کم پر بھی گزارا کر لیتا ہے۔
بہترین ٹیکنالوجی وہ سمجھی جاتی ہے جو نظر سے چھپی ہو مگر اپنا کام کر دے، خواہ وہ ویڈیو کو ٹھیک لانا ہو، ٹریفک کا ٹھیک راستہ بتانا، کسی گھڑی کا آپکے قدم ناپنا۔ یہ ٹیکنالوجی کے انتہائی مشکل مسائل ہیں جن کے حل ہونے کا پتہ ہی نہیں لگتا۔ (بلڈنگز کی دیواروں میں چھپی برقی تاریں ہوں، پائپ، سپورٹ بیم یا ائرکنڈیشننگ ڈکٹ، یہ بھی اپنے اہم کام بغیر نظر میں آئے خاموشی سے کر دیتے ہیں)۔
اپنی اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے ویڈیو شئیر کرنے کی صلاحیت نے دنیا پر بہت اثر ڈالا۔ کھانا پکانے کی ترکیبیں سیکھنا ہوں، فزکس کے لیکچر، ڈرامے، موسیقی یا دنیا بھر کی خبریں اور معلومات۔ یوٹیوب کے اثرات ہر جگہ ہیں۔ اس کے اثرات عالمی سیاست پر ہوئے۔ ان کی وجہ سے یوٹیوب کو مختلف وجوہات کی وجہ سے دنیا بھر میں سنسر کیا جاتا رہا ہے۔ سربراہِ حکومت پر تنقیدی مواد کی وجہ سے شمالی کوریا میں، حکومت پر تنقیدی مواد کی وجہ سے چین میں یہ کئی برسوں سے بند ہے۔ ایران، تھائی لینڈ، پاکستان، مراکش، ترکی، لیبیا، ترکمنانستان، افغانستان، بنگلہ دیش، تاجکستان، ایریٹریا، تیونس روس، سوڈان، مصر میں اس پر مختلف وقتوں میں اس پر مکمل پابندی رہی ہے، جبکہ کئی ممالک اس کے چیدہ چیدہ مواد کو سنسر کرتے رہے ہیں۔
پوری دنیا پر اثرانداز ہونے والی اور دنیا میں کوئی بڑی اور خاموش تبدیلیاں لانے والی یوٹیوب میں اس وقت صرف ڈیڑھ ہزار ملازمین ہیں۔
ساتھ لگی تصویر اس کے تینوں فاونڈرز کی ہے۔