برصغیر کے عظیم فلمی اداکار یوسف خان کو اگر کسی شخصیت نے دلیپ کمار بنایا ہے تو وہ شخصیت ہندوستانی اداکار اور بمبئی ٹاکیز کے مالک ہمنشو رائے کی بیوی دویکا رانی ہیں۔ اگر وہ دلیپ کمار کو اداکاری پر آمادہ نہ کرتیں اور فلمی دنیا میں متعارف نہ کرواتیں تو یوسف خان دلیپ کمار کی صورت میں دنیا میں کبھی سامنے نہ آتے بلکہ ایک گمنام یوسف خان ہی رہتے۔ یوسف خان پونا میں ایک آرمی کینٹین میں اسسٹنٹ مینیجر کی حیثیت سے ملازم تھے ۔ ایک دن نینی تال میں ان کی ملاقات دویکا رانی سے ہو گئی انہوں نے یوسف خان کو اپنے پاس بلا کر پوچھا کیا تم فلمی ہیرو بننا پسند کروگے۔ یوسف خان کو فلمی اداکار بننے کا بہت شوق تھا مگر اپنے والد صاحب کی ناراضی کے ڈر سے کہا کہ میرے والد صاحب ناراض ہوں گے۔ دیویکا رانی نے یوسف خان کو اپنا وزٹ کارڈ دیتے ہوئے کہا کہ تم کبھی بمبئی آ کر مجھ سے ملو میں تمھارے مسئلے کا حل نکال لوں گی یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ بمبئی ٹاکیز کی مالکن دیویکا رانی ایک گریس فل خاتون تھیں۔ یوسف خان ایک روز بمبئی ٹاکیز کے دفتر پہنچ گئے جہاں دیویکا رانی نے ان سے کہا کہ نوجوان تم میری فلم میں ہیرو کا کردار ادا کرو، لیکن یوسف خان کو ایک دم اپنے چھوٹے بھائی ناصر خان کی یاد آ گئی جس نے گھر میں بتائے بغیر فلمستان کی فلم "مزدور" میں ہیرو کا کردار ادا کیا تھا اور فلم کامیاب ہوگئی جس کا معاوضہ اپنے والد صاحب کے ہاتھ میں رکھا تو والد صاحب سخت ناراض ہوئے " نالائق تم نے میری عزت خاک میں ملا دی " کہہ کر غصے میں وہ نوٹ پھاڑ کر کھڑکی سے باہر پھینک دیے تھے۔ یہ باتیں یاد آ گئیں تو یوسف خان لرز کر رہ گئے۔ دیویکا رانی نے کہا لڑکے تم چائے پیو تب تک میں کچھ سوچتی ہوں۔ چائے پینے کے بعد دیویکا رانی نے یوسف خان سے مسکرا کر کہا کہ ہم تمہارا کوئی اور فلمی نام رکھتے ہیں تاکہ تمھارے والد صاحب کو خبر نہ ہو سکے۔ اس بات پر یوسف خان مطمئن ہو گئے۔ یہ 1944 کا سال تھا۔ دیویکا رانی نے اپنے فلم یونٹ کے ہندو لکھاری بھگوتی چرن ورما کو بلا کر کہا کہ اس لڑکے کا کوئی فلمی نام تجویز کرو ۔ بھگوتی چرن ورما نے جہانگیر، دلیپ کمار اور واسو دیو سمیت 3 نام تجویز کیے ۔ دیویکا رانی نے یوسف خان سے کہا کہ ان میں سے اپنے لیے کوئی ایک نام پسند کرو۔ یوسف خان نے کچھ لمحے سوچ کر کہا کہ"دلیپ کمار " دیویکا رانی بولیں ہمیں بھی یہ نام اچھا لگا ۔ یوسف خان نے دیویکا رانی کی فلم " جوار بھاٹا " میں بطور ہیرو کام شروع کر دیا۔ یوسف خان کی اس پہلی فلم میں ان کے مقابل اداکارہ" مردولا" ہیروئن تھی جبکہ دیگر اہم ادکاروں میں آغا جان، شمیم اور کے این سنگھ شامل تھے۔ اس فلم کے ہدایت کار امیا چکرورتی اور موسیقار انیل بسواس تھے۔ دلیپ کمار کی یہ فلم 1944میں ریلیز ہوئی مگر ناکام ہو گئی۔ ان کی دوسری فلم " پرتما " تھی وہ بھی فلاپ ہو گئی یہ 1945 میں ریلیز ہوئی تھی۔ بمبئی ٹاکیز کے بینر تلے دلیپ کمار کی تیسری فلم "ملن" تھی یہ 1946میں ریلیز ہوئی اور بدقسمتی سے یہ فلم بھی فلاپ ہو گئی جس کی وجہ سے دلیپ کمار سخت مایوس ہو کر گھر بیٹھ گیا تاہم آفرین ہے دیویکا رانی کو جنہوں نے دلیپ کمار سے کوئی گلہ اور شکوہ نہیں کیا بلکہ وہ انہیں اپنی دیگر فلموں میں بھی ہیرو بنانے پر تیار تھیں لیکن دلیپ کمار نے خود ان کی مزید فلموں میں کام کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔
دلیپ کمار 11 دسمبر 1922میں پشاور میں پیدا ہوئے ان کے والد صاحب کا نام سرور خان اور والدہ محترمہ کا نام عائشہ بیگم تھا۔ دلیپ کمار کا اپنے 11 بہن بھائیوں میں پانچواں نمبر تھا ۔ پشاور میں ان کی رہائش محلہ قصہ خوانی میں تھا جبکہ بمبئی میں ان کی رہائش پالی ہل میں ہے ۔ یہ 11 سال کی عمر میں اپنے خاندان کے ہمراہ 1934میں پشاور سے بمبئی منتقل ہوئے تھے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اور میٹرک بمبئی کے انجمن اسلام ہائی اسکول سے کی اور بعد ازاں کچھ عرصہ ولسن کالج میں پڑھنے کے بعد پونا میں ایک آرمی کینٹین میں اسسٹنٹ مینیجر کی حیثیت سے پرائیویٹ ملازمت اختیار کی ۔ 1947 میں سید شوکت حسین رضوی نے ان کو اپنی فلم " جگنو " میں بطور ہیرو لیا ۔ اس فلم میں اداکارہ اور گلوکارہ نور جہاں ان کے مقابل ہیروئن تھیں ۔ یہ فلم بہت کامیاب ہوئی جس سے دلیپ کمار کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا ۔ بعد میں ان کی فلمیں سپرہٹ ثابت ہوتی گئیں اور دلیپ کمار نہ صرف اپنے عہد کے بلکہ مستقبل کے بھی ہندوستان کے عظیم فلمی اداکار ثابت ہوئے ۔ دلیپ کمار کے اداکارہ سائرہ بانو کے ساتھ شادی سے پہلے 3 فلمی اداکاراؤں کے ساتھ معاشقے چلے تھے جن میں کامنی کوشل، نرگس اور مدھو بالا شامل ہیں۔ کامنی کوشل دلیپ کمار کی پہلی محبت تھی تاہم ان تینوں کے ساتھ ان کی شادی کی بات چلی مگر کسی کے ساتھ بھی شادی نہیں ہو سکی۔ 1962 میں خلاف توقع ان کی شادی اداکارہ سائرہ بانو کے ساتھ ہو گئی۔ محبت کے بارے میں دلیپ کمار نے کہا تھا کہ
"محبت تو صرف پہلی بار ہوتی ہے بعد کے سلسلے تو محض نقل ہوتے ہیں"۔
دلیپ کمار نے جب اپنی فلمی آمدن کی رقم سے پہلی بار کار خریدی تو اس میں اپنے والد صاحب کو بیٹھنے کا کہا تو انہوں نے اس میں بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا اور وہ اپنے دونوں فلمی اداکار بیٹوں دلیپ کمار اور ناصر خان سے زندگی بھر ناراض رہے۔ دلیپ کمار کی مشہور فلموں میں مغل اعظم، دیدار، دیوداس، جانور، جگنو، میلہ، آن، اڑن کھٹولہ، داغ اور ترانہ وغیرہ شامل ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے دلیپ کمار صاحب کو 1997میں نشان امتیاز کا ایوارڈ دیا گیا جس کو وصول کرنے کے لیے وہ 23 مارچ 1998 کو اسلام آباد پاکستان آئے جہاں ان کو " اسٹیٹ گیسٹ " کا پروٹوکول دیا گیا۔ دلیپ کمار 2 بار پاکستان آئے تھے اور دونوں بار ان کو " اسٹیٹ گیسٹ " کا پروٹوکول دیا گیا۔ حکومت ہندوستان کی جانب سے دلیپ کمار کو لوک سبھا کا رکن، بمبئی کا اعزای شیرف سمیت متعدد بڑے بڑے اعزازت سے نوازا گیا تھا۔ دلیپ کمار کی مادری زبان ہندکو تھی تاہم ان کے گھر میں پشتو اور فارسی بھی بولی جاتی تھی ۔ دلیپ کمار کی والدہ محترمہ عائشہ بیگم کا 27 اگست 1948 میں اور والد صاحب سرور خان کا انتقال 5 مارچ 1950 میں ہوا جبکہ خود دلیپ کمار صاحب کا انتقال 7 جولائی 2021 میں بمبئی کے ایک نجی ہسپتال میں ہوا جہاں وہ ایک ماہ سے زیر علاج تھے۔ دلیپ کمار نے کل 57 فلموں میں کام کیا جن میں ایک ان کی اپنی ذاتی فلم " گنگا جمنا " بھی شامل ہے۔ دلیپ کمار کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ ان کی اہلیہ سائرہ بانو کو 1966 میں ایک بیٹا ہیدا ہوا تھا مگر وہ پیدا ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی فوت ہو گیا تھا جس کے بعد ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ دلیپ کمار کے بعد ان کی اہلیہ محترمہ سائرہ بانو صاحبہ کی زندگی تنہا اور بہت اداس گزرے گی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...