۱۹ اکتوبر ۲۰۱۴ء کی صبح گوادر روانہ ہوتے وقت پہلی دفعہ کراچی شہر میں یوسف گوٹھ کا بس اڈہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس سے قبل بلوچستان اور اس کے اضلاع کا نام سنا اور پڑھا تو تھا مگر کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا اور نہ یہ علم تھا کہ گوادر، تربت اور کوئٹہ جانے والی بسوں کا اڈہ یوسف گوٹھ پر ہے۔ میری رہائش کیونکہ گلستان جوہر بلاک ون میں تھی اس لیے وہاں سے یوسف گوٹھ کا سفر بے حد طویل تھا۔ ہم اپنے ساتھ گھریلو استعمال کا زیادہ تر سامان اور اپنی تمام کتابیں لے کر جارہے تھے۔ سنا تھا کہ گوادر تک اس سامان کا تھوڑا کرایہ لگتا ہے۔ یہاں سے یوسف گوٹھ تک اس سامان کا کرایہ زیادہ لگا۔مگر یوسف گوٹھ پر اس کا کرایہ گوادر جانے والی بس نے کم طے کیا۔
مختلف اوقات میں یوسف گوٹھ تک جانے میں مختلف تجربات کا سامنا کرنا پڑا ۔ یوسف گوٹھ تک جانا جان جو کھم میں ڈالنے کے مترادف ہے ، او ل تو رکشہ ٹیکسی والے وہاں جانے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اگر راضی ہو بھی جائیں تو کرایہ سات ، آٹھ سو سے کم نہیں لیتے اور اگر کوئی عزیز رشتے دار اپنی کار پر وہاں تک چھوڑنے جائے تو اس شخص کو راستے کی طوالت اور ٹریفک کے اژدہام کی وجہ سے سخت ذہنی اور جسمانی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یوسف گوٹھ کے دروازے بڑے بڑے آہنی تھے ۔وہاں تین چیزی عام نظر آئیں ،پیسہ ،گٹکا اور مزدور، وہاں گیٹ سے باہر جگہ جگہ چھابڑی والے بھی کھڑے نظر آتے ہیں۔اس کے علاوہ وہاں قدم رکھتے ہیں کمیشن ایجنٹ سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو سامان والی بسوں میں کم کرایوں میں مسافروں کو سیٹ فراہم کردیتے ہیں یہ الگ بات کہ ایسی بسوں کی سروس اس اعتبار سے خراب ہے کہ وقت پر گوادر نہیں پہنچا پاتیں۔
یوسف گوٹھ پر پورا دن مسافروں اور بسوں کا رش لگا رہتا تھا۔ وہاں کے مزدور بے حد مشاق تھے۔ جب ایک مزدور اپنی کمر پر یا کاندھوں پر فریج یا موٹر سائیکل رکھ کر سیڑھیوں پر چڑھتا اور انتہائی مہارت سے اور بغیر کسی نقصان یا اسکریچ کے وہ موٹر سائیکل، فریج، واشنگ ڈائیوو بس کے اوپر چڑھا دیتا۔ اور چھت کے اوپر موجود مزدور اس سامان کو اس طرح سیٹ کرکے رسی سے باندھ دیتا کہ تیز رفتاری سے بس کے چلنے اور چڑھائی اور اترائی پر سفر کرنے کے باوجود وہ سامان محفوظ رہتا۔ اگر یہ معاملات کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوتے تو وہاں ایسے مزدوروں کا نام کم از کم گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ضرور آجاتا۔ آج بڑے بڑے سپر اسٹورڈ میں اونچے اونچے ریکس پر بھاری سامان چڑھانے کے لیے جو لفٹ گاڑی استعمال ہوتی ہے۔ اگر اس کا استعمال یوسف گوٹھ کے بس اڈے پر کیا جانے لگے تو شاید مزدور دہری مشقت سے بچ جائیں۔ (ایک سامان اوپر چڑھانے کی مشقت اور دوسری اس سامان کو نقصان نہ پہنچنے کی ٹینشن)۔ مگر شاید بس کے مالکان وہ لفٹ کار پیسوں کی وجہ سے نہ خریدیں۔
ویٹ لفٹ کاریں کراچی کے میٹرو سپر اسٹور میں کثرت سے نظر آتی ہیں۔ پہلی دفعہ جب ہم گوادر گئے تو ان مزدوروں نے پچاس روپے فی مزدور مزدوری لی۔ بعد میں جب بھی گوادر جانا یا آنا ہوا تو بس مالکان نے کہا کہ مزدوروں کو سامان رکھنے اور اتارنے کی مزدوری مسافر خود دیں گے۔ ان مزدوروں کے علاوہ بس ڈرائیور اور بس کنڈیکٹر کا سفر میں کردار بہت اہم ہے۔ بلوچستان میں چونکہ گٹکے کھانے کا عام رواج ہے۔ اس لیے بس ڈرائیور گٹکے کھا کر آرام سے آٹھ گھنٹے بس ڈرائیو کرلیتے ہیں۔ اس حوالے سے کراچی سے صرف دو بسوں کی سروس اچھی تھی جو عام طور پر آٹھ گھنٹے میں گوادر پہنچادیتی تھی۔ اس کے علاوہ ہم نے ایک دو دفعہ کچھ اور بسوں سے سفر کرنے کی کوشش کی تو ان بسوں نے آٹھ کے بجائے چودہ گھنٹے میں گوادر پہنچایا۔
ان مزدوروں، بس ڈرائیوروں، کنڈیکٹروں کے علاوہ اس سفر میں سب سے زیادہ واسطہ ایف سی، پولیس، فوج کی چوکیوں سے پڑا۔ یہ چوکیاں اونچے پہاڑوں پر خوبصورت پتھروں سے بنی ہوئی ہیں۔ انتہائی سخت سردی اور سخت گرمی میں بھی ان چوکیوں پر متعین سپاہی اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گوادر سے کراچی آنے والے سامان، اور کراچی سے گوادر جانے والا سامان اور مسافر ان سپاہیوں کی چیکنگ کے مراحل سے گزر کر آگے بڑھتے ہیں۔ یہ سپاہی ٹارچ لے کر بسوں میں چڑھتے ہیں اور ایک ایک کا شناختی کارڈ دیکھتے ہیں اور یہ سوال کرتے ہیں کہ کہاں سے آرہے ہو؟ کہاں جانا ہے؟ کس ادارے میں کام کرتے ہو؟ کس جگہ جارہے ہو؟ عام طور پر چیکنگ کے دوران اجنبی مسافر بھی ایکٹو ہوجاتے ہیں اور اپنے دیگر ساتھیوں سے بات کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بلوچستان کے سفر میں موجود، پولیس چوکیاں، کوسٹ گارڈ، ایف سی، رینجرز، فوج کی چوکیاں اور دیگر سیکیورٹی کے محکمے انتہائی تندہی سے کام کررہے ہیں جب کہ اسمگلنگ کرنے والے ان محکموں سے زیادہ ذہین اور باصلاحیت ہیں کہ انتہائی مہارت سے اپنا کام انجام دے جاتے ہیں۔
یوسف گوٹھ پر موجود دکانوں، مزدوروں، فقیروں، رکشہ اور ٹیکسی ڈرائیوروں کی اپنی ایک الگ دنیا ہے۔ عام طور پر یوسف گوٹھ کے بس اڈے کے اندر ان لوگوں کو داخل نہیں ہونے دیا جاتا جو باہر سے آئے ہوں۔ یا پھر ان رکشہ اور ٹیکسی ڈرائیوروں سے پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ یوسف گوٹھ پر کام کرنے والے ڈرائیور، مزدور، کنڈیکٹر، دکاندار، رکشہ اور ٹیکسی ڈرائیور، زیادہ تر بلوچستان کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر ان مزدوروں، ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں میں پٹھان، سندھی، بلوچ، اور کچھی عام نظر آتے ہیں۔ یوسف گوٹھ پر بھی ایرانی کیک، بسکٹ، پاپڑ، چاکلیٹ عام دستیاب ہیں۔ عام طور پر بس کی روانگی سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ قبل بس اڈہ پر پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔ تاکہ سہولت کے اعتبار سے سامان سیٹ کیا جاسکے نیز مسافر اپنی سیٹوں پر وقت پر موجود ہوں تاکہ بس روانہ ہوسکے۔
اگر رات کو گوادر سے روانہ ہونے والی بس صبح چار بجے یوسف گوٹھ پہنچ جاتی تو بس اڈے کے دروازے عام طور پر بند ملتے۔ یا وہاں کوئی رکشہ اور ٹیکسی بمشکل دستیاب ہوتی۔ البتہ چھ بچے کے قریب جب بسوں کی آمد تیزی سے شروع ہوتی ہے تو یوسف گوٹھ بس اڈے پر کاروبار زندگی جاگ اٹھتا ہے۔ گوادر سے آنے والی اکثر نائٹ بس میں بڑے بڑے ڈرم میں ڈیزل گوادر سے کراچی آتا تھا۔ یہ ڈیزل ایران سے گوادر اور گوادر سے کراچی لایا جاتا ہے۔ اکثر نائٹ کوچز میں اس ڈیزل کی بدبو سے مسافروں کو الٹیاں، متلی اور سر میں درد شروع ہوجاتا ہے۔ جو کئی دن دوائی لینے کے باوجود رفع نہیں ہوتا۔
کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے اس بس اڈے پر صفائی کا فقدان ہے۔ بس اڈے کے بیت الخلا انتہائی غلیظ اور بدبو دار ہے۔ وہاں صفائی کا عملہ ہونے کے باوجود ان بیت ا لخلا کی صفائی نہیں ہوتی۔ یوسف گوٹھ کی یومیہ کمائی لاکھوں روپے ہونے کے باوجود وہاں غلاظت اور گندگی کے ڈھیر ملتے ہیں۔ من حیث القوم اور بحیثیت مسلمان ہمیں صفائی پر توجہ دینی چاہیے۔ مگر یوسف گوٹھ کی حالت زار دیکھ کر صفائی اور پاکیزگی کا تصور بھک سے اڑ جاتا ہے۔ یہ ہی صورتحال چار گھنٹے کی مسافت کے بعد اوماڑہ پر موجود الممتاز ڈائیوو اور ال جاوید ڈائیوو کے ہوٹلوں پر بھی نظر آتی ہے۔ ان ہوٹلوں پر موجود بیت الخلا استعمال کرنے والے مسافر انتہائی مجبوری اور کراہیت کے عالم میں ان بیت الخلا کو استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ ان ہوٹلوں کی آمدنی بھی ٹھیک ٹھاک ہے مگر ان ہوٹلوں کو دیکھ کر سڑک کے کنارے بنے ہوئے جھونپڑی ہوٹلوں کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ یہ ہوٹل والے بس ڈرائیور، کنڈکٹر اور مزدوروں کو کھانا مفت فراہم کرتے ہیں کیونکہ ایک بس جب ان ہوٹلوں پر رکتی ہے تو اس کے تمام مسافر ہی ان ہوٹلوں سے کچھ نہ کچھ خریدتے ہیں۔ اگر کوئی مسافر کسی کی فوت گی میں جارہا ہو اور ڈرائیور اور کنڈیکٹر کو علم ہوجائے تو وہ بھی اس مسافر کوبھی فری میں کھانے کی پیشکش کرتے ہیں۔
گوادر میں بس اڈہ شہر میں موجود ہے جب کہ نئے گوادر میں بس اڈے کی زمین مختص کی گئی ہے مگر گوادر میں زیادہ تر ایسے منصوبے التوا میں پڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گوادر میں داخل ہونے سے قبل بس سُربندر میں داخل ہوتی ہے جو ایک چھوٹی آبادی ہے جہاں کراچی سے لائے گئے سبزی فروٹ اور دیگر چیزیں اتارنے کے بعد بس آگے بڑھتی ہے۔
بسوں میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بسوں کے اوپر بندھا ہوا سامان گر بھی جاتا ہے۔ ایک دفعہ ایک کلینر نے چھوٹی بس کے اوپر سے گرجانے والا ایرانی چاکلیٹ کا کارٹن اٹھایا۔ جس میں چھوٹے چھوٹے چاکلیٹ کے کٹی ڈبے تھے۔ ان چاکلیٹ کو کلینر نے کم قیمت میں مسافروں کو فروخت کردیا۔ کیونکہ اسے علم نہ تھا کہ چاکلیٹ کا یہ ڈبہ کس بس سے گرا ہے۔
بلوچستان میں چوری یا کسی کا مال اٹھانے کا تصور موجود نہیں،مکران ڈویژن کے سفر میں اس بات کا احساس ہوا کہ بس میں رہ جانے والا سامان آپ بعد میں بس کے آفس سے وصول کرسکتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ گوادر سے کراچی بھیجا جانے والا سامان باحفاظت وصول ہوجاتا ہے اور یہ ہی صورتحال کراچی سے گوادر بھیجے جانے والے سامان کی ہے۔ غرض یوسف گوٹھ سے گوادر کے بس اڈے تک کی دنیا، کراچی شہر کی مجموعی زندگی سے بالکل مختلف ہے۔ گوادر میں رہائش پذیر کراچی سے تعلق رکھنے اساتذہ کا کہنا ہے کہ کراچی والوں کے لیے گوادر کا ایک دن کراچی کے دو دنوں کے برابر ہے جو انتہائی مشکل سے کٹتا ہے۔ غرض گوادر کی زندگی کراچی سے بالکل مختلف اور سست ہے۔
http://haalhawal.com/tehmina-abbas/travel-from-yousuf-goath-to-gwadar/