31 مئی 1935 تاریخ وفات
عظیم بلوچ رہنما، صحافی ، شاعر اور دانشور نواب یوسف عزیز مگسی کی تعریف کرتے ہوئے مولانا ظفر علی خان نے اپنی ایک نظم میں کہا ہے کہ
تم کو خفی عزیز ہے ہم کو جلی عزیز
عارض کا گل تمھیں، ہمیں دل کی کلی عزیز
لفظ بلوچ مہرو وفا کا کلام ہے
معنی ہیں اس کلام کے یوسف علی عزیز
جبکہ شاعر مشرق اور مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال نے انہی یوسف عزیز مگسی کی شخصیت اور جدوجہد سے متاثر ہو کر "بڈھے بلوچ کی بیٹے کو نصیحت" کے عنوان سے انتہائی خوب صورت نظم لکھی ۔ نواب یوسف عزیز مگسی حیرت انگیز خواہ سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے کہ ان سے جو بھی ملتا تھا وہ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا جس کا واضح ثبوت علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خان جیسی عظیم شخصیات کا ان کی انگریز سرکار اور بلوچ معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کے خلاف جدوجہد اور جذبے سے متاثر ہو کر اس کے اعتراف میں اپنی شاعری میں اس کا اظہار کرنا ہے ۔ یوسف عزیز مگسی کمال کی شخصیت تھے اور ایسی شخصیات بقول علامہ اقبال ہزاروں سال بعد پیدا ہوتی ہیں ۔ یوسف عزیز بہ یک وقت سیاست دان، صحافی، شاعر اور خلق خدا و محروم اور مظلوم طبقات کے خدمت گار تھے ۔ وہ ایک روایت شکن ، ترقی پسند اور انقلابی قبائلی سردار تھے۔
یوسف عزیز مگسی 1908 میں جھل مگسی بلوچستان میں پیدا ہوئے وہ ایک بہت بڑے قبائلی سردار نواب قیصر خان مگسی کے فرزند تھے ۔ نواب قیصر خان مگسی کے 3 بیٹے تھے جن میں باالترتیب گل محمد خان، یوسف علی خان اور محبوب علی خان تھے۔ بلوچ اور سندھی معاشرے میں محاورے کے طور پر اگر کسی کی طاقت اور شخصیت کو چیلنج کرنا ہو تو یہ کہا جاتا ہے کہ " کون سے نواب قیصر خان کے بیٹے ہو یا یہ کہ کون سا تم کانبھو خان کے بیٹے ہو" ۔ تو یہ یہ یوسف عزیز اسی نواب قیصر خان کے بیٹے تھے جبکہ سندھ کے سابق وزیر اعلی جام صادق علی، کانبھو خان کے بیٹے تھے ۔ نواب قیصر خان مگسی، بلوچستان پر برطانوی راج اور اس کے گماشتوں کے سخت مخالف تھے اس وجہ سے وہ بلوچ قوم میں بہت مقبول اور برطانوی سرکار اور ان کے حمایت یافتہ بلوچ حکمرانوں کی نظر میں باغی اور مجرم ٹھہرے جس کی وجہ سے ان کو بلوچستان سے جلاوطن کر کے ملتان بھیج دیا گیا اور وہیں ان کی وفات ہوئی۔ نواب قیصر خان مگسی کی جلاوطنی کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے گل محمد خان کو مگسی قبیلے کا نواب مقرر کیا گیا ۔ نواب گل محمد خان ایک درویش صفت شاعر تھے زیب تخلص استعمال کرتے تھے وہ 10 زبانوں میں شاعری کرتے تھے جن میں فارسی زبان بھی شامل تھی اور ان کا شمار فارسی زبان کے بڑے شعراء میں ہوتا ہے ۔ نواب گل محمد خان زیب مگسی ایک غیر فعال سردار ثابت ہوئے جس کی بناء پر ان کے چھوٹے بھائی یوسف علی خان مگسی کو نواب منتخب کیا گیا ۔ یوسف علی خان مگسی بھی شاعر تھے یہ اردو اور فارسی زبان میں شاعری کرتے تھے اور "عزیز" تخلص استعمال کرتے تھے جس کی وجہ سے وہ " یوسف عزیز مگسی" کے نام سے مشہور ہوئے۔
نواب یوسف عزیز مگسی 22 سال کی عمر میں مگسی قبیلے کے سربراہ یعنی نواب مقرر ہوئے تھے۔ یوسف عزیز بہت باشعور، حساس، بہادر اور رحم دل قسم کی شخصیت کے مالک تھے ۔ انہوں نے بحیثیت بلوچ سردار کے دیکھا اور محسوس کیا کہ ان کی سرزمین پر برطانوی سامراج کا تسلط ہے اور ان کے حمایت یافتہ خان آف قلات میر محمود خان اور ان کے وزیر اعظم شاہ شمس اپنی ہی بلوچ قوم کا نہ صرف بدترین استحصال کر رہے ہیں بلکہ ظلم اور جبر کا ریکارڈ قائم کر دیا ہے ۔ خان آف قلات میر محمود خان ظلم اور جبر کا استعارہ بن گئے تھے ان کے دور میں خان آف قلات کی کٹھ پتلی حکومت اور برطانوی سرکار کے خلاف لکھنا اور بولنا یا احتجاج کرنا سنگین ترین جرم سمجھا جاتا تھا ۔ بلوچستان میں آج بھی اگر کوئی شخص کسی بھی قسم کی جرئت یا طاقت کا استعمال اور اظہار کرے تو یہ محاورہ استعمال کیا جاتاہے کہ " مر گیا محمود خان " یعنی محمود خان نہیں ہے اس لیئے فلاں بندہ خود کو طرم خان یا 30 مار خان سمجھ رہا ہے ۔ ایسے ظلم ، جبر ، گھٹن اور خوف و دہشت کے ماحول میں نواب یوسف عزیز مگسی، برطانوی سرکار اور حکومت قلات کے خلاف شیر کی طرح سینہ سپر ہو کر سامنے آ گئے۔
نواب یوسف عزیز مگسی نے بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین پر بسنے والے عوام میں شعور بیدار کرنے برطانوی راج اور قلات گورنمنٹ کے ظلم اور جبر کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے صحافت اور شاعری کا استعمال شروع کر دیا ۔ انہوں نے اپنی ایک نظم میں بلوچ قوم سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ
کرم بے تیغ بقدر وسعت جسے ہو ذوق تماشا کفن بدوش آئے
اب آگے مرحلہ آتا ہے سخت کوشی کا
ہمارے ساتھ نہ اب کوئی عیش کوش آئے
یوسف عزیز نے کراچی سے البلوچ کے نام سے اخبار جاری کیا جس میں بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین پر برطانوی سرکار اور ان کی حمایت یافتہ حکومت قلات کی زیادتیوں، ناانصافیوں، ظلم اور جبر کے خلاف خبریں اور تبصرے اور اداریہ لکھا جاتا تھا حکومت نے ان کے اخبار کو بند کر دیا اس کے بعد یوسف عزیز نے مختلف ناموں سے اخبارات جاری کیے جن میں ترجمان بلوچستان، بلوچستان جدید اور ینگ بلوچ وغیرہ شامل تھے حکومت نے ان سب اخبارات پر پابندی عائد کر کے بند کر دیا ۔ یوسف عزیز نے بلوچ قوم کے مسائل پر 2 مرتبہ جیکب آباد میں سالانہ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا انعقاد کر کے بلوچ سرداران اور اکابرین کو تحریک آزادی کی جدوجہد میں شامل کرنے پر آمادہ کرنے کی تاریخی کوشش کی ۔ یوسف عزیز نے " بلوچستان کی فریاد " کے عنوان سے لاہور سے ایک کتابچہ شائع کیا جس میں خان آف قلات کے وزیر اعظم شاہ شمس کے ظلم اور جبرو استبداد کو عوام کے سامنے لایا گیا جس کے جرم میں یوسف عزیز کو ایک سال زندان میں ڈالا گیا اور بھاری جرمانہ بھی کیا گیا۔
نواب یوسف عزیز مگسی پہلے بلوچ سردار تھے جنہوں نے خواتین کے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کی اور بلوچ قوم کے بیٹوں سمیت بلوچ بیٹیوں کی تعلیم پر بھی زور دیا ۔ یوسف عزیز نے جھل مگسی میں جامعہ یوسفیہ قائم کیا جس میں طلبہ کو مفت تعلیم دی جاتی اور باہر کے طلبہ کے لیے طعام اور قیام کا بھی بندوبست کیا گیا جبکہ بچیوں کے لیے اسلامی اور جدید علوم کی غرض سے جھل مگسی کے علاقے میں اسکول اور مدرسے قائم کیے۔ انہوں اپنی زرعی آمدن کی 10 فیصد رقم تعلیم کے فروغ کے لیے مختص کر دیا تھا جبک مریضوں کے علاج کے لیے اپنی ذاتی رقم سے شفا خانے قائم کیے اور پانی کی قلت کے پیش نظر انہوں نے اپنےذاتی خرچ پر" کیر تھر نہر" قائم کر کے عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی ملکہ زبیدہ کی جانب سے قائم کردہ "نہر زبیدہ " کی یاد تازہ کر دی ۔ بلوچ قوم کے یہ عظیم محسن، قائد اور دانشور صرف 27 سال کی عمر میں 31 مئی 1935 میں کوئٹہ کے ہولناک زلزلے میں جانبحق ہو گئے ۔ بلوچ قوم کے دلوں میں آج بھی ان کی ناگہانی موت کا سوگ اور غم تازہ ہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ نواب یوسف عزیز مگسی کا نہ تو مقبرہ بنایا گیا ہے اور نہ ہی ان کی شاعری اور مضامین اور افکار کو محفوظ کر کے کتابی شکل دی گئی ہے ۔ چوں کہ نواب یوسف عزیز مگسی دن رات قومی جدوجہد میں مصروف تھے اس لیئے وہ کم سنی میں شادی نہیں کر سکے تو ان کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بھائی محبوب علی خان مگسی کو، مگسی قبیلے کا نواب مقرر کیا گیا ۔ مگسی قبیلے کے موجودہ نواب، بلوچستان کے سابق گورنر اور سابق وزیر اعلی ذوالفقار علی خان مگسی، نواب محبوب علی خان مگسی کے پوتے اور نواب سیف اللہ خان مگسی کے صاحبزادے ہیں۔