میر یوسف عزیز مگسی کا دور کرہ ارض کے ایک تہائی رقبے پر محیط سوویت انقلاب کا دور تھا۔ جس کے اثرات استحصال ،ظلم و جبر کے خلاف دنیا بھر کے قومی و طبقاتی تحریکوں پر مرتب ہوئے۔ جس نے معاشی و سیاسی آزادی اور سماجی تبدیلی کے لیے قومی و طبقاتی تحریکوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔ سامراج دشمن و جاگیردار دشمن اہداف قومی و طبقاتی تحریکوں کا نصب العین ترقی پذیر اور پسماندہ خطوں میں نیشنلزم کی فکر اپنے دور کے سچائیوں کو ساتھ لیکر جدید شکل میں نمودار ہوا۔ جس کے اثرات افریقہ ، ایشیاء اور لاطینی امریکہ میں سیاسی ، معاشی اور سماجی بندھنوں میں جکڑے ہوئے نظاموں پر ایک آسیب کی طرح منڈلانے لگے۔ ہمارے قرب و جوار میں ترکی ، افغانستان ، مصراور ہندوستان کی قومی آزادی کی تحریکات دنیا بھر میں چلائی جانے والی قومی و طبقاتی تحریکات کے ساتھ جدلیاتی طور پر مربوط ہوئے۔ ان تحریکات کے اثرات سے کوئی بھی ذی شعور شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
1930ء میں پہلی بار جدید فکر ونظر سے سرشار بلوچ نوجوانوں کی ایک کھیپ میر عبدالعزیز کرد کی قیادت میں انجمن نوجوانان بلوچ کے نام سے سیاسی و جمہوری تحریک کی داغ بیل ڈالی، اور خفیہ طور پر سامراج دشمن ، جاگیردار دشمن اور جمہوری حقوق کے لیے سرگرم عمل ہوئے۔ 1929ء میں نوجوانوں کی اس تنظیم کو 21 سالہ نوخیز نوجوان کی قیادت نصیب ہوئی۔ جسے ہماری سیاسی تاریخ میر یوسف عزیز کے حوالے سے جانتی ہے۔ یوسف عزیز کی عملی زندگی پانچ سالوں میں محیط ہے۔ ان پانچ سالوں میں ایک سال نذرِ زندان ہوا اور تقریباً دس ماہ انگلینڈ میں گزرے، بقیہ تین سالوں میں اس نوجوان قائد کی سماجی ، سیاسی اور ادبی میدان میں کارگزاری ہم سب کی ایک صدی پر مبنی اجتماعی کارگزاری پر بھاری ہے۔
میریوسف عزیز نے اپنی زندگی کے متحرک انہی تین سالوں میں معاشی ، سیاسی اور علمی بنیادوں پر اپنی تحریک کا بالائی ڈھانچہ استوار کیا۔ اپنے دور کی ضروریات اور لوازمات کو سمجھا۔ اپنے ہی سماج کا طبقاتی جائزہ لیا۔ اور اپنے سماج میں بنیادی وکیفیتی تبدیلی کے لئے آگے بڑھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے انقلاب کے خالق طبقہ صنعتی مزدور کو وجود میں لانے کے لیے بلوچستان بھر میں صنعتکاری کی ضرورت پر زور دیا۔ چرواہوں کی چراہگاؤں کی حفاظت کے لئے آگے بڑھے۔ قومی ترقی کے لیے تعلیم کو ضروری گردانا، خاص کر لڑکیوں کی تعلیم ، وسیع علاقے میں اپنے ہی خرچ پر سکولوں اور ڈسپنسریوں کا قیام عمل میں لایا۔ اپنے ہی آپ پر زرعی اصلاحات لاگو کیا۔ ذاتی ملکیت کو طوق لعنت گردانا۔ اپنے ہی خرچ پر کیرتھر نہری کھدائی کی اور پہلے غریب مزارعوں کی زمینوں کو سیراب کیا۔ نوکریوں میں غیر ملکیوں کی جگہ مقامی لوگوں کو ملازمت دینے پر زور دیا۔ غرض کہ ہر شعبہ زندگی پر اپنی توجہ مرکوز کی۔
عوامی بہبود کے لئے جو پلاننگ کرتا اسے اپنے ہی خرچ سے امپلمنٹ کرتا اس کے منیجمنٹ کے لئے دیکھ بھال کرتا، اور اس سے ظاہر ہونے والے دورس نتائج حاصل کرتا۔ اس نے اپنی آدھی جائیداد انسانی بھلائی کے لئے وقف کرنے کی وصیت بھی کی۔ کیونکہ اسے یقین تھا کہ وہ زیادہ دیر تک جی نہیں سکتا۔ وہ جلد ہی سرکار یا کسی سردار کی سیسہ والی گولی کا نشانہ بنے گا، یا سماجی برائیوں سے لڑتے ہوئے ناگہانی موت کا شکار ہوگا۔
میر یوسف عزیز روشن خیال ، وطن دوست و قوم دوست انسان تھے۔ وہ عظمت انسان کے داعی تھے۔ محبت و امن کے پیغامبر تھے۔ وہ اشرافیہ کی قوم پرستی سے پرے قوموں کی یکجہتی و برابری کے قائل تھے۔ قومی جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد سے منسلک سمجھتے تھے۔ وہ قومی اشرافیہ کے خواہشات پر حامل مہاقوم پرستی کوانقلاب دشمن رجحان تصور کرتے تھے۔ وہ قومی تعصب ، قومی نفرت اور قومی استحصال سے نفرت کرتے تھے۔ وہ قومی رشتوں کے تعین کو طبقاتی فلاسفی کے فارمولے سے ممکن سمجھتے تھے۔ وہ قومی شاؤ نزم و قومی بالادستی کی بجائے اپنی جدوجہد کو محنت کش طبقات کی جدوجہد سے مربوط رکھنے کے خواہاں تھے۔ اور محنت کش طبقات کے جدوجہد کے اہداف کو اپنا نصب العین قراردیتے تھے۔ وہ قومی و طبقاتی استحصال کو ریاستی مشینری پر ایک گروہ کی اجارہ داری سمجھتا تھا۔ وہ نسل ، رنگ ، زبان ، برادری کے رشتوں سے زیادہ انسانی اقدار کو اولیت دیتے تھے۔
وہ سامراجی بالادستی کو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ گردانتے تھے۔وہ برٹش سامراج کی اجارے میں لی گئی بلوچ سرزمین کی برٹش مفادات کے تحت مختلف ملکوں میں بندر بانٹ سے مطمئن نہیں تھا۔ وہ تاریخی ، جغرافیائی ، معاشی اور سیاسی بنیادوں پر قوموں کے تشکیل کے خواہاں تھے۔ وہ منفی اقدار کی جگہ مثبت اقدار کو، آمرانہ رویوں کی جگہ جمہوری رویوں کو ، ڈرائنگ روم کی سیاست کی جگہ عوامی سیاست کو رواج دینا چاہتا تھا، وہ درپیش سماجی سیاسی و معاشی مسائل پر سنجیدگی سے غوروخوص ، سماجی پسماندگی ، معاشی تباہی و بربادی و عدم استحکام کا ادراک سچائی کی کسوٹی پر کرکے عملی طور پر اپنے ذاتی وسائل کو اجتماعی وسائل بروئے کار لانے پر صرف کیا۔ وہ عوام کے بنیادی ، پیدائشی سیاسی ، معاشی اور قانونی حقوق کے خواہاں تھے۔ سماجی و اقتصادی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے علمبردار تھے۔ نئے سماجی اقتصادی تشکیل کے لئے محرک سماجی قوتوں سے جدلی طور پر مربوط تھے۔ وہ سماجی زندگی میں مرحلہ وار نشوونما کے فلاسفی سے بھی واقف تھے، وہ غیر محسوس انداز میں رونما ہونے والی چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کو ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ سمجھتے تھے۔ وہ ایک ایسے انصاف پر مبنی نظام کے لیے برسر پیکار تھے جس میں تمام انسانوں کو بلا رنگ ، نسل ، ذات ، مذہب و پیشہ باعزت زندگی گزارنے کے مواقع میسر ہوں۔ معاشی ، سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں ہر ایک کی باہمی شراکت داری ممکن ہو۔ ریاست انسانی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہو، کسی طاقتور کویہ حق حاصل نہ ہو کہ وہ بزور جبر کسی دوسرے انسان کا حق سلب کرے، یہ تھے یوسفی فلاسفی کے نقاط ۔
آج یوسف عزیز ہم سے بچھڑنے کو ایک صدی ہونے کو ہیں۔ آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ کس صورتحال سے دوچار ہیں۔ ہمارے مسائل کیا ہیں۔ ان مسائل کا اداراک کیا کسی نے کیا ہے۔ ان کے سد باب کے پروگرام کو کسی نے عملی جامہ پہنایا ہے۔ حالانکہ آج ہمارے ہاں ایک درجن کے لگ بھگ سیاسی پارٹیاں ہیں۔ سب کے سب یوسف عزیز کے سیاسی وراثت کے نام لیوا ہیں۔ لگ بھگ تیس سالوں سے یوسف عزیز کے سیاسی وراثت کے نام لیوا پارٹیاں مسند حکمرانی پر بیٹھے ہیں۔ کیا ان تیس سالوں میں کسی نے اپنے ہی علاقے میں اپنا خرچ چھوڑئیے حکومتی فنڈ سے ایک کارخانہ تعمیر کیا۔ کیا کسی نے کوئی اچھے تعلیم ادارے کی بنیاد ڈالی ؟ کیا کسی پارٹی نے 80 ہزار سے زائد کے کوئلہ کی صنعتوں میں کام کرنے والے مزدور کے دکھوں سے آشنائی حاصل کی ؟ کیا کسی نے 750 کلومیٹر ساحل پر واقع ماہیگیروں جن کا ذریعہ معاش سمندر ہے کے استحصال کے حربوں کی بیخ کنی کی کوشش کی ؟ کیا کسی حکمران قوم پرست پارٹی نے زمینوں کے سیراب کے لئے کوئی بندباندھا؟ (حالانکہ وندر ڈیم ایوب خان کے وقت سے ورک آرڈر کا منتظر ہے۔ کیا ہم نے روایتی و قبائلی سیاست کو قومی و اجتماعی سیاست پر ترجیح نہیں دی ؟ کیا ہم نے سماجی اقدار پر اقتدار کو ترجیح نہیں دی؟ کیا ہم سرداروں و سرکار کی ڈگڈگی پربندر کی طرح ناچ نہیں رہے؟ کیا ہم عوامی گلی کوچوں میں اجتماع منعقد کرنے کی جگہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں سمینار و جلسے منعقد نہیں کررہے؟ کیا ہم عوام کو پسینے والے استحصالی مشینری کے آلہ کار نہیں؟ کیا ہم نے کیڈر پالیٹکس کی جگہ کمرشل پالیٹکس کو رواج نہیں دیا!
ہم تو V I P عالی شان بنگلوں ، نئے ماڈل کی کروڑوں روپے لاگت کی گاڑیوں میں زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ بینک بیلنس بنا رہے ہیں۔ نجی ملکیت بنانے کی ہوس کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔ سرکار کی استحصالی مشینری کے چھتری تلے زندگی جی رہے ہیں۔اور عوامی استحصال میں شریک سرداروں کی بیساکھیوں پر چل رہے ہیں روز بروز معاشی پسماندگی کے دلدل میں ڈوب رہے ہیں۔ سیاسی و معاشی طور عدم استحکام کے شکار ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک انا پرستی ، خود پسندی کے مرض میں مبتلا ہے۔ ذاتی غرض و غائت پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم درک لگائیں اس نقطے کا کہ ہم کہاں سے بھٹک گئے؟ ہم یوسفی فلاسفی کے اجتماعی سوچ سے کہاں منحرف ہوئے؟ ہماری پسماندگی کی وجوہات کا حل کس فلاسفی میں پنہاں ہے۔ کیا ہم میں سے کوئی یوسفی فلاسفی کے مندرجہ بالا نقاط سے کسی ایک پر گامزن ہے۔ ہمیں اپنی خباثت پر نظر ڈالنی چاہیے۔ اپنی ناکامیوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اپنے سماج میں بنیادی و کیفیتی تبدیلی لانے کے لیے سیاسی ، معاشی و نظریاتی طور یوسفی فلاسفی کو انجیکٹ کرنا چاہیے۔
“