غالباً وہ اسلامی جمیعتِ طلبہ کا پوسٹر تھا۔ ہمارے لڑکپن کے دنوں کی یاد کچھ کچھ ذہن میں دھندلا گئی ہے۔ مگر پوسٹر کے مندرجات ابھی تک یاد میں تازہ ہیں۔ ہندوستانی ترنگے کے رنگوں میں رنگی ایک کلائی جس کے ایک سرے پر ظلم و استبداد کا ہاتھ اشوک چکر سے مشابہ چکی کے دو پاٹوں کو پیس رہا ہے جن کے بیچ سے مظلوم کشمیریوں کا گاڑھا سرخ خون بہہ رہا ہے۔ غالباً نہم یا پھر جماعت دہم کے طالب علم کو یہ پوسٹر اس لیے بھی یاد ہے کہ ایک اہتمام سے اسی طرز پر ایک ڈرائنگ بنا کر بذریعہ ڈاک بھیجی گئی تھی جو آنکھ مچولی کے صفحوں کی زینت بنی تھی اور ہم بھی کئی دنوں تک جہادِ کشمیر میں اپنا ’حصہ‘ ڈالنے پر اترائے اترائے پھرے تھے۔ بچوں کے ماہنامے آنکھ مچولی کے کشمیر نمبر کے صفحوں پر شائع ہوئی یہ وہی تصویر ہے جو ہماری پڑھنے والے اس لڑی کی پہلی ٹوئیٹ میں دیکھ آئے ہیں۔ اسّی کے آخر ی اور نوے کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں پروان چڑھتے اس لڑکپن نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بہت سفاکیت دیکھ رکھی تھی۔ طلبہ تنظیموں کے ہنگامے اور ایک دوسرے کے اغوا کیے اور بعد از تشدد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے کارکنان کی لاشوں کے پوسٹر۔ چھاتی اور پیٹ پر ڈرل مشین سے کیے گئے سوراخ جن سے رستا خون جثے سے نچڑ جانے کے بعد پیلی پڑ جانے والی جلد اور ان کہی اذیت سمیٹے کہیں خلا میں دیکھتی بے نور خالی آنکھیں۔ ان دنوں اخبارات اور ٹی وی نشریات ہر دو میں ڈیڈ باڈیز دکھائے جانے کے بارے میں کوئی ضابطہ اخلاق رائج نہیں تھا۔ کراچی میں لکی سٹارکے پاس منسفیلڈ سٹریٹ اور بوہری بازار میں ہوئےدوہرےبم دھماکے ہوں، یا پھرمنصور چاچا کا بمعہ فیملی قتل، یا پھر کوئی بڑا بس یا ٹرین حادثہ، اخبار اور ٹی وی لاشوں، کٹے پھٹے جسموں اور خون میں ڈوبے اذیت کا تاثر سمیٹے مردہ چہروں کو ایک تفصیل کے ساتھ نشر کیا کرتے تھے۔ یہ سب کچھ دیکھتے اور سہتے رفتہ رفتہ بے حس ہوتے اس پروان چڑھتے دل پر نہ جانے ایک رات خبرنامے کے بعد چلتے کشمیر بلیٹن نے کیا اثر کیا کہ وہ رات آنسوٗوں میں کٹی۔ غالباً وہ تشدد سہہ کر دم توڑتے کسی کشمیری کی لاش تھی جس کے آنکھوں سے محروم ڈیلے دو سرخی مائل گڑھوں کی مانند نظر پڑتے تھے اور پیچھے کورس میں چلتا کشمیر بلیٹن کا ٹریڈ مارک نغمہ اے دنیا کے منصفو! سلامتی کے ضامنو کشمیر کی جلتی وادی میں بہتے ہوئے خون کا شور سنو اس ایک منظر کی دہشت سے چڑیا کے مانند کانپ اُٹھا یہ دل اسی رات مصلے پر منصفوں کے منصف کے آگے ہاتھ اٹھائے دعا کرتے ہوئے رو پڑا تھا۔ اے دنیا کے منصفو! کشمیر بلیٹن میں حریت پسندوں کے شہداء قبرستان کھنگالتے اور روٗف خالد کا انگار وادی دیکھتے جوان ہوتے اس جسم نے بھی جب اپنے اوپر خاکی وردی سجا لی تھی تو اگوکی کے آپریشن روم میں میجر نقوی نے نقشے پر شکر گڑھ بلج کے متوازی چلتے ’لیٹرلز (laterals)‘ کی کہانی پہلے پہل سنائی تھی۔ وہ پٹھانکوٹ کو جموں سے ملاتی سرینگر کنیاکماری ہائی وے ہو یا پھر سری نگر کو سونامرگ سے ملاتی زوجی لا کے تنگ درے سے گزرتی لداخ روڈ کسی بہانے اس کی کھینچ للچائی نظروں سے اسے دیکھتے سیدھا ہمارے جرنیلوں کے دلوں پر پڑتی ہے، یوں جیسے ہاتھ بڑھاوٗ اور چھُو لو۔ <a href="https://x.com/i/status/1888655230759215131">ویڈیو لنک</a> اڑتالیس میں لڑی کشمیر کی جنگ کےبعد پینسٹھ میں ہم نےیہاں جبرالٹر فورس اتاری اور ننانوےمیں کارگل دراس کی گھاٹیوں پر چڑھ دوڑے۔صاحبو شہید زندہ ہوتےہیں مگرہمیں اس کاشعور نہیں۔ سو ایک معرکے میں کام آنے کے بعد وہ دوبارہ مورچے آباد کرنے نہیں آتے۔ ہر محاذ شہیدوں کی ایک نئی کھیپ مانگتا ہے۔ <a href="https://x.com/i/status/1888655232579547457">ویڈیو لنک</a> چلیں وہ بھی ٹھیک مگر اس کا کیا کریں کہ ظلم و ستم کی چکی میں پھنسی جس مقبوضہ قوم کی مدد پر ہمارے سپاہی جان پر کھیل گئے ان کے نفوذ کے اولین مخبر وہی کشمیری اور لداخی چرواہے تھے جو اپنے مال ڈنگر کو چراتے وادی میں اترے ’اجنبی لوگوں ‘سے جا ٹکرائے تھے۔ <img class="" src="https://pbs.twimg.com/media/GjXYeEUW0AAhAT8?format=jpg&name=small" alt="Image" width="466" height="466" /> <img class="" src="https://pbs.twimg.com/media/GjXYfN0WYAAerdu?format=jpg&name=900x900" alt="Image" width="488" height="275" /> کشمیر کی آزادی کے نشے میں مست ہماری فوج نے کم و بیش تین بڑی جنگیں لڑی ہیں۔ اڑتالیس میں واگزار کروائی کشمیر کی وادی کی باریک پٹی سے پرے ہم محض آزادی کا چورن ہی بیچتے آئے ہیں۔ جواباً ہمارے ہمسائے نے ایک ہی کاری وار کرکے ہمارا دایاں بازو ہم سے بڑی عددی اکثریت سمیت کاٹ کے الگ کردیا۔ اس سے تو(برا نہ منایئے گا)دو ہی نتیجے اخذ کیےجاسکتے ہیں۔ یاتو ہندوستانی سپاہ کی پیشہ وارنہ صلاحیت ہم سےکہیں زیادہ ہے یاپھر آزادی چھین کرلےلینے میں بنگالی، کشمیریوں سےزیادہ غیرت مند ہیں۔ صاحبومنظر بدلتاہےاور ان دنوں کی خبرلاتاہےجب ایک محبت کی کہانی ’باگھ‘ پہلے پہل ہاتھ لگی تھی۔ <img class="" src="https://pbs.twimg.com/media/GjXY-XAXMAAjL83?format=jpg&name=900x900" alt="Image" width="359" height="479" /> اداس نسلیں اور نادار لوگ سے واقف قاری کو عبداللہ حسین کے طریقہٗ واردات کا علم تھا مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ کشمیر کے اِس پار کے قصبے گمشد میں پروان چڑھتی اسدی اور یاس کی ’ایک محبت کی کہانی ‘کہتے وہ اپنے قاری کی انگلی پکڑ اُس پار کے کشمیر کے آتنک میں لے جائیں گے۔ ’بانڑ چد‘ اسد نے کشمیریوں کے انداز میں گالی دی۔ اندھیرے میں اُس کا پاوٗں کنکریوں کی ڈھلان پر سے پھسل گیا تھا۔ اپنے گائیڈ امیر خان کے ساتھ نمک کا ڈلا کندھے پر لادے اسد اُس پار نفوذ کرتا تھا کہ نمک مقبوضہ کشمیر میں سونا تھا سونا۔ ’اونہوں‘ امیر خان نے نفی میں سر ہلایا ’کوئی کشمیری سر پر بوجھ نہیں اُٹھاتا۔ جو سر پہ گٹھا اٹھائے دکھائی دے سمجھ لو جموں یا پونچھ کا ڈوگری ہے۔ یا توی کا ہے۔ اصل کشمیری پیٹھ پر بوجھ اُٹھاتا ہے اور کمر کے زور پر چڑھائی چڑھتا ہے۔ صاحبو باگھ ایک پیچیدہ کہانی ہے۔ ایک مقبوضہ وادی کے مکینوں کے بے پرواہی کے لبادے میں چھپے چوکنے پن اور بے اعتباری کے رنگوں میں رنگی حریت پسندوں کی کارروائیوں کا خمیازہ بھگتتے عام کشمیریوں کی کہانی۔ ہندوستانی فوج اور ان کے کانوائے پر حملوں میں انسانی جبلت اور خطرے کی بومیں نمو پاتے کھڑے ہوتے رونگٹوں میں انسانی جان لے لینے پر اکساتی حیوانیت کی داستان ۔ گمشد میں یاسمین کے جسم کی باس اور جنگل میں کہیں سے در آئے باگھ پر شست باندھنے کی چاہت میں ایک دونالی بندوق کی آرزو کرتے، سانس کے عارضے کی جڑی بوٹی کی تلاش میں سرحد پار جاتے، اپنے رفیق ریاض کے بے جان جسم کو ایک تحیر میں دیکھتے آنکھوں اترا خون لیے اسد کے ہاتھوں لائٹ مشین گن کی پوری میگزین ایک زخمی ہندوستانی فوجی کے جسم میں خالی کردینے کی کتھا۔ حصولِ آزادی یا کسی اور عظیم مقصد سے پرے ہتھیار ہاتھ میں اٹھا لینے کی سنسنی میں لپٹی جان لے لینے کی لذت پر منتج شعور اور لاشعور کی ازلی جنگ۔ اس پتھریلی پہاڑی گزرگاہ پر چلتے چلتے لاشعور یکدم پھسل کر گر پڑتا ہے اور آپ چوتڑوں میں گھسی نوکدار کنکریاں ہٹاتے ہوئے بے اختیار کشمیریوں کے انداز میں گالی دے اٹھتے ہیں ’بانڑ چُد‘ ۔۔۔۔ اروندھتی رائے لکھتی ہیں کہ مقبوضہ وادی میں شہادت کی چاہ لائن آف کنٹرول کے اُس پار سے آئی تھی، چاندنی میں بھیگے پہاڑوں کے تنگ دروں پر پہرہ دیتے ہندوستانی فوجیوں کو جُل دیتی ہوئی ، اس کی چھاپ بہت آہستگی سے ایک ٹھہراوٗ کے ساتھ پتھریلے راستوں، برفانی گلیشیروں اور کمر تک برف میں دھنسی چراگاہوں تک پہنچی، جسطرح ایک خاموشی کے عالم میں رات ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ جس طرح صبح کی غلافی دھند چنار وادی کے اخروٹوں کے جھنڈ، زعفرانی کھیتوں اور سیب، بادام اور چیری کے باغوں کو ڈھک لیتی ہے۔ اے گاڈ آف سمال تھنگز تخلیق کرنے والی ہماری پسندید ہ کہانی کار اروندھتی رائے نے ایک طویل انتظار کے بعد دوسرا ناول لکھا تو ہم بھی اس کے مشتاق خریداروں میں سے تھے The Ministry of Utmost Happines کشمیر کے زخم زخم وجود پر لکھی رپورتاژ کا رنگ لیے ایک منفرد کہانی ہے جو پڑھنے والے کو چُور چُور کردیتی ہے۔ “How to tell a shattered story? By slowly becoming everybody. No. By slowly becoming everything.” <img class="" src="https://pbs.twimg.com/media/GjXaAdbW0AAadLA?format=jpg&name=900x900" alt="Image" width="431" height="575" /> سرینگر کے مزارِ شہدا میں اپنی ماں عارفہ یسوی کے پہلو میں دفن ایک کمسن بے وقت موت کی قبر مس جبیں دا فرسٹ کی ہے۔ مرنے سے پہلے، گھر کے باہر ایک مظاہرے میں جسکا عارفہ اور مس جبیں دا فرسٹ حصہ بھی نہیں تھیں کہ اپنے گھر کے چوبارے پر تھیں، پولیس کی چلائی گولیوں میں ایک ہی گولی کےدو شکار ہونے سے بہت پہلے، جبکہ مس جبیں دا فرسٹ کی رگوں میں زندگی سانس لیتی تھی تو وہ اپنے باپ موسیٰ یسوی سے ہر رات کہانی کی فرمائش کرتی آکھ دلیلہ وَن یہت منز نے کہن بلائی آسی! نہ ایس سوہ کنی جنگلس منز روزان! کہانی سناوٗ بابا۔ سچی کہانی، جس میں کوئی چڑیل نہ ہو، اور نہ وہ کسی جنگل میں رہتی ہو۔ صاحبو رام لیلا اور نیلمت پران کے اشلوکوں کی لوک دھرتی بھارت ماتا کے زیرِ انتظام کشمیر کی سچی کہانیوں میں کسی جنگل اور اس میں بسیرا کرتی چڑیل سے کہیں زیادہ سفاکیت ہے۔ مس جبیں دا فرسٹ کی کہانی کی فرمائش کرتی تین سطریں اب سرینگر کے مزارِ شہدا میں ایک کمسن گور کا کتبہ ہے جسے سردیوں میں برف کی تہہ اور گرما کی رُت میں اگی جنگلی گھاس ڈھکے رکھتی ہے۔ اکھ دلیلہ وَن ۔۔۔ ہمارا منظر ایک اور کروٹ بدلتا ہے۔ چند برس اُدھر ایک یومِ یکجہتیِ کشمیر کا قصہ ہے کہ چند کشمیری دھنیں کھنگالتے کچھ بہت محبوب کچھ شناسا بول کان پڑے۔ عبدالرشید فراش کی کچھ کچھ پختہ اور کچھ لرزتی آواز میں۔وہی جن میں محبوب کاڈیر ہ دل کی پوشیدہ پرتوں میں احتیاط سے سموئے جانے کا ذکر ہے کہ ایک دم بھی یاد سے دھیان ٹلنے نہیں پاتا ۔۔۔ کریو منزء جگرس جائے چھیم نو مہ مشائی نی انیسویں صدی کےصوفی اور مجازی دونوں رنگوں میں رنگےکشمیری شاعر محمود گامی کی اس لاجواب غزل کی پہلے پہل دُھن کشمیر کے پرائیڈ آف پرفارمنس محمد سبحان راتھر نے بنائی تھی۔ سبحان اپنی اس خواہش کو کہ وہ زندگی میں ایک دفعہ ڈل جھیل کے پانیوں کی قربت میں اپنے رباب کا جادو جگائیں، <a href="https://x.com/i/status/1888657421440008486">ویڈیو لنک</a> جہاں سے وہ ہجرت کرکے آزاد کشمیر میں آگئے تھے، دل میں لیے اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ مگر گامی کے شبدوں،سبحان کے سُروں اور فراش کے بولوں کو دوام ہے۔ اسی غزل میں آگے چل کر چینی کی پیالی میں کشمیری چائے لاتی ایک نازک براندام نازنین کا ذِکر ہے۔ چئیتمو چینی پیالن چائے ہتو کال مہ رُن چُھن پیئیمو رپ بدنس ہائے چھیم نو مہ مشائ نی وہ نازنین چینی کی پیالی میں چائے لائی ہے کہ چینی سے بھی نازک اس بدن میں ایک دل ہے جو دُکھی ہے <a href="https://x.com/i/status/1888657424615444638">ویڈیو لنک</a> یادش بخیر ہمارے کشمیری پوسٹر والے دنوں میں ہی اس دھن کو جمعیت نے ’مسلمان‘ کر ڈالا تھا۔ گامی کی چینی کی پیالی میں چائے پلاتی محبوبہ کو سنسر کرتے ہم نے جو وطن کی محبت کا تڑکا لگایا تو لگے ہاتھوں گانے کے مکھڑے میں ’بھلاؤں کیسے مناظر تیری بہاروں کے‘ کی اضافت کر ڈالی اور پھر اگلے ہی انترے میں باطل کو اپنے ارادوں سے خبردار کرتے ہوئے کشمیر کے ٹھنڈے میٹھے پانی میں ڈوبی ایک شیریں دُھن کو (فوجی باجے والوں کی زبان میں) تین سو ساٹھ کا ڈگا لگا دیا میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن جنگی ترانےنےدُھن کےساتھ توجو کھلواڑ کیا سو کیاگستاخی معاف رخسانہ مرتضیٰ نےکشمیری لہجےاور اسلوب کےساتھ جوسلوک کیاوہ کس منہ سےکہیں۔ ہم میں سے جو کشمیری نہیں کتنوں کو یہ دُھن اپنے اصل رنگ میں یاد ہے؟ جہاد کے نعروں سے اِس طرف ہم کشمیر، کشمیریوں کےکلچر اوراس کےلوک رس کوکتنا جانتے ہیں؟ مقبوضہ زمینیں ابھاگن ہوا کرتی ہیں۔ آپ ہتھیار در ہتھیار انہیں عسکریت کا ترکہ دان کرکے دیواروں پر لاکھ سر پھوڑیں، ان کے لوگوں، دھرتی کی نبض، وادی کے چناروں،اس کے لوک رس، کہانیوں اور نغموں سے منہ موڑلیں تو پھر یکجہتی کے اظہار کے لیے, بُرا نہ منائیے گا, چوک کے اشاروں پر گاڑیوں کے ہارن بجانا اور پھر اپنے گھروں کو چلے جانا قوموں کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ کشمیر آج بھی محبوس ہے، دونوں اطراف کی فوجیں اپنے والے علاقے کو آزاد اور مخالف کے زیرِ نگیں رقبے کو مقبوضہ گردانتی ہیں۔ ہندوستان کے زیرِ انتظام کشمیر آج بھی دنیا میں کسی اور خطے کے مقابلے میں سب سے زیادہ فوجی تعدد اور تعداد کے زیرِ استبداد ہے۔ سیکیورٹی اداروں اور ان کے عقوبت خانوں کی بھول بھلیوں میں بغیر کسی نشان اور شناخت کے گمشد لاپتہ افراد کی مائیں اور بیٹیاں پولیس سٹیشنوں اور عدالتوں کے باہر اپنے چاہنے والوں کی تصویروں اور ان محبوب ناموں کے پلے کارڈ اٹھائے سراپا سوال ہیں۔ کسی کا شوہر لاپتہ ہے تو کسی کا بیٹا اور کسی کا بھائی۔سرحد کے اُس پار آزادی کی نوید دیتے یومِ یکجہتیِ کشمیر منانے والے اپنے گریبان میں جھانک تو لیں، کہیں سرحد کے اِس پار ایسے ہی مناظر نوشتہٗ دیوار تو نہیں! صید اور صیاد کے اس کھیل میں نئے پنجرے بناتے، آزادی کے نعرے لگاتے دمدمے بجاتے لوگوں کو شاید خبر ہی نہ ہو کہ فصلِ گُل کی خوگر بلبل تو کب کی دم توڑ چکی ۔ نئی دلی کے جنتر منتر پر ان دنوں کہ جب کسی قسم کے اجتماع کی پابندی نہیں تھی، ڈاکٹر آزاد بھارتیہ بقول ہماری اروندھتی رائے ایک چار سطری مرثیہ دوہرایا کرتے تھے تو صاحبو نقلِ مرثیہ، مرثیہ باشد مر گئی بلبل قفس میں کہہ گئی صیاد سے اپنی سنہری گانڈ میں تو ٹھونس لے فصلِ بہار ۔۔۔۔ اہلِ وطن کو کشمیر ڈے مبارک