دیکھا نا کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر
انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود کو کہا گیا ہے۔ماں کی گود سے نکل کر بچہ استاد کی سرپرستی میں چلا جاتا ہے۔ استاد اس بچے کو جو کہ پتھر کے مانند ہوتاہے،اسے ترا ش کر ہیرا بنا دیتا ہے۔ ماںباپ بچے کو قدم در قدم چلنا سکھاتے ہیں تو استاد اسے دنیا میں آگے بڑھنے کا ہنر عطا کرتے ہیں۔
ہر سال ۵ ؍ستمبر کی صبح ہندوستان میں سورج ایک نئے وقار کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔کیونکہ اس دن ملک بھر میں ہمارے اساتذہ کی خدمات کا اعتراف اور اکرام کیا جاتا ہے۔ اسی دن ۱۸۸۸ ء کو ہمارے دوسرے صدرِجمہوریہ اور مشہور ِماہرتعلیم ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کی پیدائش ہوئی تھی۔وہ صدر جمہوریہ بننے سے قبل کنگ جارج پنجم چیئر آف مینٹل اینڈ مورل سائنس، کلکتہ یونیورسٹی(۱۹۳۲۔۱۹۲۱ ء) اور بعدازاں آکسفورڈ یونیورسٹی کے مشرقی ادیان اور شعبۂ اخلاقیات (۱۹۵۲۔۱۹۳۶ ء)سے وابستہ رہ کر یکسوئی کے ساتھ درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کی اس پیشے سے ایسی والہانہ وابستگی تھی کہ وہ خود کو ایک استاد کی حیثیت سے یاد کیے جانے کی تمنا کرتے تھے۔ اسی لیے ۱۹۶۲ ء سے لگاتار یہ دن سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا رہا ہے۔ پورے ملک میں اس سلسلے میں تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔طلبہ اس دن اساتذہ کو پھول اور تحائف پیش کر کے ان کا استقبال کرتے ہیں جبکہ ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی جانب سے عمدہ کارکردگی انجام دینے والے اساتذہ کا خصوصی اکرام کیا جاتا ہے۔
شاگرد اور استاد کا رشتہ دنیا کے تمام رشتوں میں قدیم ترین ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جب رب کائنات نے آدم ؑ کوپیدا کیا توانہیں علم ِاشیاء کی تعلیم دی، جسے علم الاسماء کہا گیا۔گویا کہ یہ عظیم کام اور بلند مقام فریضہ پہلے خود خالقِ کائنات نے انجام دیا۔ دنیا نے چاہے استاد کی حقیقی قدرومنزلت کا اعتراف کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن اسلام نے بہت پہلے ہی ان کی عظمت کا کھل کر بیان کر دیا تھا اور ان کے مقامِ بلند سے انسان کو آگاہ کردیا تھا۔خود رسولِ رحمت ؐ نے طبقۂ اساتذہ کو یہ کہہ کر اعزاز بخشا ہے کہ’ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘ (انما بعثت معلما: سننِ دارمی،۳۵۳)۔
تعلیم وتعلّم کو اسلام نے ایک عظیم ذمہ داری کے طور پر پیش کیا ہے ،جو افراد اس پیشے سے متعلق ہیں اورقوم کے نونہالوں کو زیورِعلم سے آراستہ کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں انہیں بہت ہی معظم اور مکرم قرار دیا ہے۔ فرمایاگیا ’تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن سیکھے اور سکھائے‘(بخاری: ۲۵۲۷)۔ اتنا ہی نہیں بلکہ حضرت علی نے یہاں تک ارشاد فرمایا تھاکہ ’میں اس شخص کا غلام ہوں جو مجھے ایک حرف بھی سکھادے، چاہے تو مجھے بیچ دے یا آزا د کر دے‘(بحوالہ تعلیم المتعلم :۲۰)۔ اس سے زیادہ اکرامِ اساتذہ کی مثال کسی اور قوم میں ملنا محال ہے۔
انسانی معاشرے کا کوئی ایسا شعبہ ، پیشہ یافن نہیں ہے جہاں استاد کی ضرورت نہ ہو ۔ بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین اس کے پہلے معلم ہوتے ہیں اور ماں کی گود اس کا پہلا مدرسہ۔جو اسے چلنا،بولنا،کھانا، پینا، اٹھنا،بیٹھنا وغیرہ سکھاتی ہیں۔ مولوی، عالم ،مفتی ،قاضی، ڈاکٹر، انجینئر، آفیسر، پروفیسر،مینیجر اور دوسرے پیشے سے وابستہ لوگ یا فنکار ایک استاد کی محنتِ شاقّہ کے نتیجے ہی میں ان مقاماتِ بلند تک پہنچ پاتے ہیں۔استاد کی اسی عظمت کی طرف نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’جس سے تم سیکھو ، علم حاصل کرو اس کے ساتھ خاکسارانہ برتاؤ کیا کرو۔ حضرت مغیرہ ؓفرماتے ہیں کہ ہم لوگ اساتذہ سے اتنا ڈرتے اور ان کا ادب کرتے تھے جتنا لوگ بادشاہ سے ڈرتے ہیں(بحوالہ تعلیم المتعلم : ۲۱)
ایک طالب علم کی زندگی میں اساتذہ اور کتابیں بہت گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔یہی وہ ذرائع ہیں جس کے ذریعے طالب علم اپنے مطلوبہ علوم وفنون اور تہذیب وثقافت سے آگاہ ہوتا ہے اور خود کو اس سے لیس کرتا ہے۔اس کے بغیر اس کی شخصیت کا ارتقاء ناممکن ہے۔ واقعی اساتذہ کا اپنے طلبہ و طالبات کی نشونما میں اہم کردار ہوتا ہے۔ اس لئے ہر مہذب شخص اپنے اساتذہ کا تا عمر احسان مند رہتا ہے اور ترقی کے منازل طے کرتا رہتا ہے۔شاید ان ہی جذبات و احساسات کے ساتھ ہندوستان بھرکے تعلیمی اداروں میں یومِ اساتذہ بڑے ہی تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔اساتذہ بھی اس موقع سے اپنے ہونہار اور فرمانبردار شاگردوں کے حق میں دل کی گہرائیوں سے دعا گو ہوتے ہیں اور ان کے بہتر مستقبل کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔اسی طرح طلبہ بھی اپنے اساتذہ کے لئے خلوص و محبت کا اظہار کرتے ہیں اور مختلف پروگرام منعقد کرکے ان کی عزت افزائی کا سامان کرتے ہیں۔اس طرح ملک بھر کے اسکول، کالجز اور یونیورسٹیوںمیں یومِ اساتذہ کے موقعے سے ایک جشن کا سماں ہوتا ہے۔علم کسی بھی طرح کا ہو، چاہے دینی علم ہو یا دنیاوی، لیکن علم اور صاحبِ علم کی اہمیت یکساں ہوتی ہے۔اس لیے اگر اساتذہ کے اکرام کے لیے ایک دن کو مخصوص کیا گیا ہے تو اسے استحسان کے نظر سے ہی دیکھا جانا چاہئے۔ کیونکہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ اساتذہ کا اکرام کامیابی کی دلیل مانی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ترقی یافتہ قوموں اور مہذب معاشروں میں استاد کو ایک خاص مقام حاصل ہوتا ہے اور وہی قومیں ترقی کے منازل طے کرتی ہیں جنہیں اساتذہ کے احترام کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔
ہندوستان میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں اور ان کی فکر بھی مذہبی اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔لیکن یہ صفت سبھی میں یکساں ہے کہ وہ اساتذہ کو والدین ہی کی طرح اہمیت دیتے ہیںاور اساتذہ کو روحانی باپ کا درجہ دیتے ہیں۔نبی کریم ؐ نے بھی فرمایا ہے کہ’ابوک ثلاثہ یعنی تمہارے تین باپ ہیں ، ایک وہ جس نے تمہیں دنیا میں لایا،دوسرے وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی اور تیسرے وہ جس نے تمہیں علم دیا اور فرمایا کہ ان میں سے سب سے افضل تمہارے لئے وہ ہے جس نے تمہیں علم دیا‘۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ استاد کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے جتنا کہ والدین کا اپنی اولاد پر۔اس سے زیادہ استاد کی فضیلت بیان نہیں کی جا سکتی۔
یوں تو ایک انسان کی کامیابی میں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں لیکن ان میں سب سے اہم کردار ایک مخلص استاد کا ہوتا ہے ۔اس لئے ایسے طلبہ خوش قسمت ہوتے ہیں جنہیں اچھے اور مخلص اساتذہ ملتے ہیں۔کیونکہ استاد وہ عظیم رہنما ہوتے ہیں جو اپنے شاگردوں کی تعلیمی، اخلاقی اور روحانی تربیت کرتے ہیں اور حق یہ ہے کہ ان مجموعی تربیت کے بعد ہی کوئی شخص مکمل انسان بنتا ہے۔ اسی لیے بجا طور پر ہماری سرکار نے اساتذہ کی خدمات کے اعتراف میں اس دن کو مخصوص کیا ہے۔اللہ کرے ہمارے اساتذہ کی خدمات مقبول ہوں اور دیش باکمالوں کا گہوارہ بن جائے، آمین۔