یکم مئی کا دن دنیا بھر کے مزدوروں کے اتحا د کے عہد کا دن ہے تسلیم کیا جا تا ہے جس کی ابتداءاوقات کار میں کمی کےخلا ف جد وجہد سے ہو ئی تھی پھر یہ تحر یک بہت تیزی سے کے سا تھ پو ری دنیا کے مزدوروں کی جدوجہد عظیم سنگ میل کی حیثیت اختیار کر گئی یو ں محنت کشو ں نے قو می اور سر حدی حد دو سے بالا تر ہو کر آج کے دن اپنے مشترکہ مطا لبا ت کےلئے آجر اور اجیر کے ما بین حقو ق اور ذمہ داریو ں کی حد بندی کی تحر یک کو اپنا لہو دیکر جنم دیا تھا
آج ہمارے ملک میں مزدورپیشہ طبقہ کا کوئی پرسان حال نہیں‘ ٹھیکداری نظام نے خون اورپسینہ چوسنے کے علاوہ کچھ نہیں دیا، مزدورں کی اکثریت ٹھیکیداری نظام کے باعث 6ہزارروپے سے کم اجرت پر کام کرنے پرمجبورہیں‘ آواز بلند کرنے پر نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، حکومت نے یونین پرسے پابند ی تو اٹھالی مگر لیبر قوانین پر عملدرآمد نہیں ہورہا،ٹھیکیداری نظام ختم نہ کرنے باعث مزدوروں کا استحصال معمول ہے، گھروں پر فاقے معمول بن گئے ہیں ، جبکہ ملک میں خودکشیوں کا سب سے زیادہ رجحان مزدورپیشہ طبقہ میں پایا جاتا ہے ، حکمران طبقہ ہریکم مئی پر بیان کی حدتک محدود رہتا ہے جبکہ سیاسی ومذہبی جماعتیں بھی صرف دعوؤں اورنعروں کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتیں ، مزدور کی تنخواہ 7ہزارروپے محض اورپنشن کم ازکم3ہزار روپے کرنے کا چرچا اوراسے بڑی کامیابی قراردینے والے وزراء اوراراکین اسمبلی کو پتا ہی نہیں کہ 7ہزار روپے میں سے 3ہزارسے زائد صرف کرایوں کی ہی نذر ہوجاتے ہیں غریب مزدور4ہزارروپے میں کس طرح پورے مہینے کا گزارہ کیسے کرے گا۔دوسری جانب بڑی بڑی سیاسی جماعتوں سے وابستہ سرمایہ کاروں اورفیکٹری مالکان اپنی سیاسی دکان تو چمکاتے ہیں پر اپنی ہی فیکٹری میں لیبر قوانین کے نفاذ سے گریز کرتے ہیں۔ کراچی ملک کا صنعتی حب مانا جاتا ہے ، شہر میں قائم 90فیصد سے زائد فیکٹریوں میں ٹھیکیداری نظام قائم ہے جہاں مزدوروں کو محض150 روپے تا 350 روپے یومیہ اجرت دی جاتی ہے ،اگر کراچی کے حالات خراب ہوں یو کوئی چھٹی ہوجائے تو مزدور کو اس دن کی اجرت نہیں ملتی، شہرمیں روز روز کے ہنگامے اورسوگ نے مزدورپیشہ طبقہ کو سب سے زیادہ متاثرکیا ہے۔ ملک میں خودکشیاں کرنے کا تناسب سے زیادہ مزدورپیشہ طبقہ میں ہے ،جبکہ مہنگائی اورگزارہ نہ ہونے کے باعث بیوی اوربچوں کو قتل کرنے کا رجحان بھی فروغ پارہا ہے ۔وزیرمحنت اوردیگر حکومتی ادارے محض یکم مئی پر بیان داغ دیتے ہیں اوراپنی سیاسی دکان چمکا کرچلے جاتے ہیں۔قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث کراچی میں چند ہی فیکٹریز میں لیبر یونین موجود ہیں اوروہاں بھی لیبر قوانین پر خاطرخواہ عمل نہیں ہورہا۔کراچی میں قائم اکثرفیکٹریوں میں مزدوروں کو یومیہ اجرت 200 روپے دی جاتی ہے جو بمشکل ہی 6000 ہزار بنتی ہے ، جس میں کرایہ نکا ل کرگھر کا خرچ چلانا انتہائی مشکل ہے ، مزدوروں کی اکثریت کے پاس مہینہ کے درمیان ہی میں پیسے ختم ہوجاتے ہیں جس کے باعث ان کے پاس اپنی فیکٹریوں تک پہنچنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے ۔مجھے خانیوال میں ایک فیکٹری آج بہت یاد آرہی ہے جہاں 280 مزدروں کو جبری نکال دیا ہے نہ جانے اپنے ملک میں ایسے لاکھوں مزدور ہوں گے جو آج یوم مئی کو ماتم کر رہے ہوں گے
اسلام نے جہاں ہر طبقہ حقوق و فرائض مقرر کیے ہیں وہی مزدور کے بھی حقوق و فرائض مقرر کیے ہیں
حقوق العباد ایک بندے پر اللہ تعالیٰکی طرف سے عائد کردہ دوسرے بندوں کے جو حقوق ہیں ان کی ادائیگی کا نام ہے۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں یہ رویہ عام روش اختیار کر گیا ہے کہ کچھ لوگ حقوقِ اللہ کا تو بڑا احترام کرتے ہیں۔ لیکن وہ روزی اور مزدوری کے معاملے میں کھوٹے ہیں۔ اخلاق و کردار کی پستی میں مبتلا ہیں۔ امانت و دیانت سے عاری ہیں۔ مزدور کو اس کی مزدوری پوری طرح ادا نہیں کرتے۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جسے یہ پسند ہو کہ اس کی روزی میں کشادگی اور عمر میں اضافہ ہو تو اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی (رشتہ داروں کے حقوق) ادا کرے‘‘۔ ہمارے معاشرے میں دیگر افراد کی طرح ملازم، خادم اور مزدور کے بھی اُس شخص پر حقوق ہیں جس کے تحت وہ کام کر رہا ہے۔ اِن کے حقوق کا خیال بھی بہت ضروری ہے۔خادم، مزدور یا ملازم کو اُس کے اصل نام سے پکارا جائےیعنی خوش گفتاری کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ خوش اخلاقی کا تقاضا یہ ہے کہ مالک کو چاہئے کہ وہ اپنے خادم اور اولاد کو ایک ہی سطح پر رکھے کیونکہ دونوں اس کے زیر سایہ رہتے ہیں۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جب تم میں سے کسی کا خادم اس کا کھانا لائے تو اگر وہ اسے اپنے ساتھ نہیں بٹھا سکتا تو کم ازکم ایک یا دو لقمے اس کھانے سے کھلا دے کیونکہ اس نے کھانا پکاتے وقت اس کی گرمی اور تیاری کی مشقت برداشت کی۔ ایک اور موقع پر آپ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ تمہارے کچھ بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰنے تمہارے ہاتھوں میں دے رکھا ہے۔ اگر کسی ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے اس کے بھائی کو دیا تو اس کو چاہئے جو کچھ خود کھائے وہی اپنے مزدور یا ملازم کو کھلائے جو خود پہنے وہی اسے پہنائے۔ اور ان کو اتنے کام کی تکلیف نہ دو کہ ان کے لئے مشکل ہو جائے اور اگر کوئی سخت کام ان پر ڈالو تو تم خود بھی ان کی مدد کرو۔ خادم اور نوکر کا بھی یہ حق ہے کہ اسے تحفظ ملازمت ہو‘‘۔نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے خادموں کے کاموں میں ان کی مدد فرمایا کرتے تھے۔ اور اپنے خادموں کی کوتاہیوںکو نظر انداز فرما دیتے تھے۔مزدور اور آجر کے حقوق:۔مزدور کی جائز ضروریات سے آجر کو غافل نہیںرہنا چاہئے۔ یہ نہیںکہ خود تو وسیع و عریض محلات میں رہے اور مزدور کو سر چھپانے کی جگہ بھی نہ دے۔ یہی نہیں بلکہ آجر کو اس کے بچوں کی مناسب دیکھ بھال اور تعلیم کا انتظام بھی کرنا چاہئے۔ اجرت اتنی دی جائے کہ وہ آسانی سے اپنی زندگی بسر کر سکے۔نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے کہ ’’مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو‘‘۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰکا فرمان ہے ’’قیامت کے دن تین آدمیوں سے جھگڑا کروںگا۔ایک اس شخص سے جس نے میرے نام پر عہد کیا اور پھر اس کو توڑ ڈالا۔دوسرا اُس شخصسے جس نے آزاد انسان کو فروخت کیا۔تیسرا ۔۔۔ جس نے کسی مزدور کو مزدوری پر لگا کر پورا پورا کام لیا اور اُسے پوری اجرت نہ دی۔حلال روزی کی فضیلت:۔نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہاتھ سے کام کرنے کی نہ صرف ترغیب دی ہے بلکہ اسے بہترین کسب بھی قرار دیا ہے۔ صحیح بخاری میں آپ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’ کسی انسان نے اس شخصسے بہتر روزی نہیںکھائی جو خود اپنے ہاتھوںسے کما کر کھاتا ہے‘‘۔ہاتھ سے کمانا، تجارت کرنا، خون پسینہ ایک کر کے حلال روزی کمانا ایک باعزت پیشہ ہےنبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم خود اپنے ہاتھوں سے کام کرتے رہے۔قبل نبوت بارہ سال تک تجارت کی۔اسی طرح دیگر جلیل القدر صحابہ کرام کا بھی یہی سلسلہ رہا۔اللہ تعالیٰ پاکیزہ اور حلال روزی ہی قبول کرتا ہے۔ پاکیزہ اور حلال مال سے جو صدقہ و خیرات دیا جائے اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتا ہے۔ اس لئے اپنی روزی محنت اور حلال طریقہ سے حاصل کرنی چاہئے۔ کیونکہ یہ زندگی کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے، خوش گوار احساس عطا کرتی ہے، کردار سازی کرتی ہے، باعزت بناتی ہے، عزتِ نفس بڑھاتی ہے، بہترین نتائج کا باعثبنتی ہے، صحت عطا کرتی ہے۔مغربی مفکرین کی رائے میں دنیا میںسب سے زیادہ نا خوش لوگ وہ ہیں جو کچھ کرنا نہیں جانتے۔ خوشی انہیں ملتی ہے جو اپنا کام بھرپور انداز میں انجام دیتے ہیں کیونکہ اس کے بعد آرام اور تازگی کا ایک نہایت خوبصورت وقت آتا ہے۔ سچی خوشی حلال روزی سے حاصل ہوتی ہے اور وہ دن بڑا اہم ہوتا ہےجب انسان محنت و مشقت کے بعد اپنا اجر پاتا ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ حلال آمدنی ہماری صلاحیتوں کو جانچنے میں مدد دیتی ہے۔ حلال آمدنی اچھا انسان بنانے، صحت و آسودگی میںبراہ راست اہم کردار ادا کرتی ہے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ بے شمار لوگ اس سچائی سے نا واقف ہیں۔ ہم میںسے اکثر اپنا قیمتی وقت ہنسی مزاق اور گپ شپ میں گزار دیتے ہیں۔ یاد رکھیں وقت زندگی ہے۔ یہ جا کر واپس نہیں آتا۔ وقت ضائع کرنا زندگی کو ضائع کرنا ہے۔ زندگی میں کامیابی ہمیشہ ان لوگوں کے قدم چومتی ہےجو وقت کی قدر کرتے ہوئے جائز اور حلال روزی کماتے ہیں۔
آج یوم مزدور ہے اور ھمارے ملک کا مزدور آج بھی پریشان ہے یکم مئی کی کہانی بھی ھمارے ملک کے مزدور سے مختلف نھیں ہے یکم مئی 111سا ل قبل 1886میں اگر شکا گو امر یکہ کے مزدور اپنی جد وجہد میں ثا بت قد می کا مظا ہر ہ نہ کر تے جبر و استبد اد سے خا ئف ہو کر سر ما یہ داروں کے آگے سر ڈال دیتے تو دنیا بھر کے محنت کش 8گھنٹے کا حق کبھی حا صل نہ کر سکتے تھے اسی لئے آج دنیا بھر کے محنت کش شکا گو کے ان عظیم فر زند کو سلا م پیش کر تے ہیں شکا گو کے محنت کشوں نے ایک عظیم مقصد کے حصو ل کےلئے اپنی جا نو ں کی قربا نی دے کر مزدوروںکی عالمی تحر یک کو بقا ئے دوام بخشی تھی ۔ اکتوبر 1884ءمیں فیڈریشن آف ٹریڈ اینڈ لیبر یونین نے اپنے چھٹے سالانہ کنونشن میں ایک قرار داد کے ذریعے حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ یکم مئی تک آٹھ گھنٹے کام کو باقاعدہ قانونی شکل دی جائے تا کہ سارے محنت کش اس سے مستفید ہوں اور اگر حکومت نے ان کا یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا تو مزدور باقاعدہ اس کےلئے عملی جدوجہد کریں گے اور پھر مزدوروں نے جدوجہد بھی کی جس میں بہت سی ہلاکتیں ہوئیں۔اس سلسلے کی آخری کڑی شکاگو کے جلسہ پر پولیس اور فوج کاحملہ تھا جس کی وجہ سے شکاگو کے گلی کوچے مزدوروں کے خون سے سرخ ہوگئے جس کے بعد دنیا بھر میں محنت کشوں کے پرچم کا رنگ سرخ قرار دیدیا گیا، 1889ءمیں ان دونوں پولیس اہلکاروں کوملازمت سے برطرف کردیا گیا جنہوں نے شکاگو کے شہیدوں پر گولیاں چلائی تھیں اور 1889ءکی بیرس کانگرس کے فیصلے کے مطابق یکم مئی 1890ءکو مزدورں کے عالمی دن کو بین الاقوامی طور پر منایا گیا ،بالا ٓخر عالمی ادارہ محنت نے قیام کے پہلے سال ہی 1919ءمیں آٹھ گھنٹے روزانہ اوقات کار متعین کیا گیا اس عظیم کارنامے پر دنیا بھر کے مزدور محنت کی عظمت کا پرچم لہراتے ہیں یوم مئی دراصل مزدوروں فرائض میں توازن رکھنے کا دن ہے یوں مختلف ممالک میں یوم مئی منانے کا آغاز ہوا۔
http://appkiawaz.blogspot.com/…/6-7-3-7-3-4-90-150-350-200-…
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...