لفظ اُردوترکی زبان کاایک لفظ ہے۔اس کا لغوی معنی ہے لشکر گاہ یا بادشاہ کا لشکر ……یہ زبان دُنیا کی جدید ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ اِس زبان کی بنیاد ہندی زبان سے ڈالی گئی۔ ہندو اور مسلمان دونوں قوموں کی آپسی میل جول کی وجہ سے اس زبان کی پیدائش ہوئی۔ اس لئے اُردو زبان کو مشترکہ تہذیب کی زبان قرار دیا گیا۔ فارسی، عربی اور دوسری زبانوں کے الفاظ شامل ہونے کی وجہ سے اس کا حسن دوبالا ہو گیا ہے۔
اُردو زبان اُس زمانے کی یادگار ہے جب مسلمان ہندوستان آئے اور ہندوستان کے لوگوں سے اس کا تعلق بڑھتا گیا۔ اور پھر یہ زبان ایک نئی صورت اختیار کرکے لوگوں کے سامنے آئی۔ اِس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اُردو زبان کی ابتدا ئی پرورش صوفیائے کرام کی سرپرستی میں ہوئی۔ سادھو سنتوں نے بھی اس زبان میں انسانیت اور اخلاق کا درس دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُردو زبان کو قومی یکجہتی کی علامت کہا جاتا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اُردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ غلط کہتے ہیں لوگ…… اُردو کسی علاقے یافرقے کی زبان نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی زبان ہے۔ اُردو کو مسلمانوں کی زبان اور ہندی کو ہندوؤں کی زبان سمجھنا یا کہنا بے وقوفی ہے۔ لسا نی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اُردو ہندی دونوں خالص ہندو ستا نی زبانیں ہیں۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ زبان کو کوئی ایجاد نہیں کر سکتا، کیونکہ زبان ایک آدمی کی بول چال سے نہیں بن سکتی۔ایک دوسرے کے باہمی تعلقات سے زبان بنتی ہے۔ پھر ہم اُردو کو مسلمانوں کی زبان اور ہندی کو ہندوؤں کی زبان کیسے کہہ سکتے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ اُردو اور ہندی دونوں سگی بہنیں ہیں۔ادبی دُنیا میں پریم چند، کرشن چندر، راجندرسنگھ بیدی، پنڈت دیا شنکر نسیم، برج نارائن چکسبت، جگن ناتھ آزاد، تلو ک چند محروم، نہال چند لاہوری، سریندر پرکاش، جوگیندر پال، رینو بہل، لتا حنا، کرشن کمار طور کو کون نہیں جانتا…… اب بڑی ہستیوں نے اُردو زبان کو پڑھا، پرکھا اور اپنے نہاں خانے میں جگہ دی۔لال بہادر شاستری کو اُردو زبان سے کتنی محبت تھی اس کا ثبوت اُنہوں نے شعر و شاعری کے ذریعہ دیا ہے۔ ان کو اُردو کے سیکڑوں اشعار یاد تھے۔
جہاں تک زبان کی ترقی کا سوال ہے تو کوئی بھی زبان اپنے ملک کی بقا و ترقی پر منحصر ہوتی ہے۔ زبان کی ترقی کی ذمہ داری عوام کے ساتھ ساتھ سرکار کی بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا سرکار کا فرض بنتا ہے کہ حکومت اپنی اِس ذمہ داری کو پورا کرنے کا بہتر راستہ اختیار کرے۔ زبان کا مستقبل روزگار سے بھی سنہرا ہوتا ہے۔ نیز زبان کو جب تک روزگار سے نہیں جوڑا جائے گا، اس کا فروغ ممکن ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اس کی جڑ یں عوام میں ہوتی ہیں۔ لہٰذا عوام کوچاہئے کہ روزمرہ کی باتوں میں، اپنے ذاتی اور سماجی کاموں میں اُردو زبان کازیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آج کے اِس موجودہ دَور میں لوگ انگریزی الفاظ کا استعمال کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ گھر گھر میں بچے جب بولنا سیکھتے ہیں توانہیں ”پاپا، ممی، انکل، آنٹی“بولنے کے لئے سکھایا جاتا ہے۔ ”امی، ابو، پھوپھی،چاچی، چچا، خالہ، خالو“وغیرہ بولنے یا گھر کے بچوں کی زبان پر ایسے الفاظ لانے میں لوگ شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ ”سوری، تھینکس“کے الفاظ لوگوں کی زبان پر ہوتے ہیں۔ ”شکریہ یا معذرت چاہتا ہوں“ کوئی نہیں بولتا۔ جناب کی جگہ سر نے لے لی ہے اور باجی کی جگہ میڈم اور مس زبان پر چڑھ گئے ہیں۔ اُردو زبان ہمارے سماج کی رونق ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ اُردو کو اپنی مادری زبان کہتے ہیں، وہ بھی اُردو زبان سے دُور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ جبکہ ان لوگوں کو چاہئے کہ بچوں کو اُردو زبان کی تعلیم دیں۔ انہیں چاہئے کہ روزمرہ کے الفاظ میں زیادہ سے زیادہ اُردو زبان کا استعمال کریں۔ اِس ضمن میں وکیل احمد رضوی کہتے ہیں:
”اگر ہمیں اُردو سے ہمدردی ہے تومیرؔ امّن کی ترجمہ نگاری، غالبؔ کی مکتوب نگاری اور پریم چند کی افسانہ نگاری کی روایت کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔“
ایک جگہ اور اُنہوں نے کہا:
”ہم مادری زبان کی اہمیت و افادیت یا تو جانتے ہی نہیں یا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔ آزادی کے بعد اُردو والے حصے میں جو محرومیاں آئی ہیں، ان کا ایک بڑا سبب خود ہماری بے عملی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی مادری زبان کو سمجھیں۔ اُردو کی تعلیم حاصل کریں اور دوسروں کو بھی اُردو کی تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کریں۔ عصر حاضر کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے اس کا استعمال کریں۔ اس کی ترقی کے لئے جد ید ترین سہولتیں مِل رہی ہیں، لیکن ہم ان کی اہمیت کو سمجھ نہیں پارہے ہیں۔ اُردو زبان کی ترقی کا مسئلہ ہمارے لئے ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے۔اُردو سے محبت کرنے والوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ گاؤں گاؤں اور شہر شہر کے اسکولوں سے اُردو کی پڑھائی شروع کرو ا نے کی کوشش کریں۔ لوگوں کو ہندی اور انگریزی اخبار کے ساتھ ساتھ اُردو اخبار بھی خریدنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ جس طرح انگریزی یا ہندی میڈیم اسکولوں میں انگریزی اور ہندی کی پختہ تعلیم دی جاتی ہے اسی طر اُردو اسکولوں میں بھی اُردو کی تعلیم کو پختہ اوریقینی بنایاجانا چاہئے۔ اُردو اسکولوں میں صرف اُردو کی تعلیم ہی کو اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہندی اور انگریزی زبان کی بھی تعلیم پختہ ہونی چاہئے تاکہ تعلیم کے بعد روزگار کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹکنے کی نوبت نہیں آئے۔ اس کے ساتھ ساتھ انگریزی اسکول میں بھی اُردو کی تعلیم کو مقرر کرنے کے لئے ٹھوس قدم اُٹھایاجانا چا ہئے۔ ہمارے بہار میں گنے چُنے انگریزی اسکول ایسے بھی ہیں جہاں اُردو کی تعلیم دی جاتی ہے مگر پختہ تعلیم نہیں دی جاتی۔ پہلے درجہ سے پانچویں درجے تک ہی اُردو کی تعلیم دی جاتی ہے۔ چند انگریزی اسکول تو ایسے بھی ہیں جہاں پانچویں درجے تک کے بچوں کے ہاتھ میں اُردو کی قیمتی کتابیں تھما دی جاتی ہیں۔Progress Reportمیں نمبر بھی دے دیئے جاتے ہیں، لیکن اس کو اُردوکی کوئی جانکاری نہیں رہتی۔چند ہندی میڈیم اسکول ایسے بھی ہیں جہاں اُردو کی تعلیم چھٹی جماعت سے دی جاتی ہے۔ ان اسکولوں میں اُردو کی تعلیم پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک کر دینی چاہئے۔ مگر کیسے؟ اس کے لئے خود آگے قدم بڑھانا ہوگا۔ سرکار کو عرضی دینی ہوگی۔ اسکول کے پرنسپل سے بات کرنی ہوگی۔ بچوں میں ایسا جذبہ پیدا کرنا ہوگا جس سے وہ اُردو کی کتابوں میں بھی دلچسپی لیں۔ آج کل انٹرنیٹ کے ذریعہ کھیل کھیل میں بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ چھوٹے بچوں کو تعلیم کی طرف کھینچنے کے لئے ڈھیر ساری تصویریں د کھا ئی جاتی ہیں۔ فلمی نغمیں گائے جاتے ہیں یا پھر یونہی گا نے گائے جاتے ہیں۔اُردو زبان کی طرف بچوں کو کھینچنے کے لئے ان سب باتوں پر دھیان دینا چاہئے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اُردو کی مکمل تعلیم دلانے کی پیروی کرنی چاہئے۔ اس کے لئے اساتذہ اور طالب علم دونوں کو دلچسپی دکھانی ہوگی۔ اُردو پڑھنے والے طلبا و طا لبا ت کے لئے انتظامات لازمی طور پر کیا جانا چاہئے کہ وہ اُردو میڈیم اسکول کی تعلیم کے بعد کالجوں میں بھی دوسرے اسکول سے آنے والے طالب علموں کے مقابلے کسی بھی صورت میں کمتر نظر نہیں آئیں۔ نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج اُردو کے ذریعہ سیکولر تعلیم حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کی تعداد تیزی کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے۔ موجودہ دَور میں ایسے لوگ ہی اپنے بچوں کو اُردو کی تعلیم دلا رہے ہیں جن کی آمدنی کم ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جو بچے اُردو کے ذریعہ تعلیم حا صل کرتے ہیں وہ انگریزی اسکولوں کے طالب علموں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔بالعموم بچے تو مجبورا ً داخلہ لے لیتے ہیں لیکن نہ تو استاد ایک ساتھ اتنے سارے بچوں کو سنبھال پاتے ہیں اور نہ ہی بچے تشفی بخش تعلیم حاصل کرپاتے ہیں۔چند اساتذہ ایسے بھی ہیں جو اُردو زبان کے نام کی ہیں تو کلاس میں ساری گھنٹی یونہی بیٹھے رہ جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ متوسط گھرانے کے لوگ بھی اپنے بچو ں کا داخلہ انگریزی اسکول میں کرالیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی میڈیم اسکولوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور ہندی میڈیم اسکولوں کی حالت خستہ ہوتی جارہی ہے۔ اُردو میڈیم اسکولوں کے بارے میں تو کچھ کہا ہی نہیں جاسکتا۔ سچ کہوں توآج اُردو کامستقبل مدرسہ بورڈ والوں کے ہاتھ میں سونپ دیا گیا ہے چنانچہ بچوں کا تعلیمی معیار دن بہ دن گرتا جارہا ہے۔ اور طلبا کی تعداد میں بھی مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے اور اگر یہی حال رہا تو وہ دن دُور نہیں جب ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنی زبان کو دفنا دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ہماری پہچان بھی ختم ہوجائے گی۔ سمجھ میں نہیں آتا لوگوں کو کیسے سمجھائیں۔ آج بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو اُردو زبان اور اس کے فروغ کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، لوگوں کو ہدایت دیتے ہیں لیکن ان کے بچوں کی زبان پر انگریزی کے الفاظ ہوتے ہیں۔ ان کے بچوں کے سامنے اگر اُردو کے الفاظ استعمال کئے جائیں یا پھر اُردو یا ہندی میڈیم والے بچے کھڑے ہو جاتے تو حقارت سے دیکھتے ہیں۔ ایسے بچے احساسِ کمتری کے شکار ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کو اِس طرح کی باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔ کسی کے بھروسے کو توڑنا یا پھر کسی کو کمتر سمجھنا کہاں کی عقل مندی ہے؟ضرورت اِس بات کی بھی ہے کہ اُردو اسکولوں کے طالب علموں کو اسکول ٹائم میں ہی کوئی ایسی تعلیم دینی چاہئے جس سے وہ اسکول چھوڑ نے کے بعد اپنے آپ کو کسی روزگار کے مستحق سمجھیں۔بچوں کی ہمت اور حوصلہ افزائی کے لئے ڈبیٹ، بیعت بازی اور اسٹیج پر ڈراما نگاری کا پروگرام بھی خاصا اہمیت رکھتا ہے۔ اُردو زبان سے محبت کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ سرکار سے اِس بات کی التجا کریں کہ وہ اپنے ملازم کو پرائمری اور ہائی اسکول میں بغیر کسی اطلاع کے انسپیکشن کرائے تاکہ اساتذہ اسکول کی ذمہ داریوں کو اپنا فرض سمجھ کر پورا کریں۔ عوام کا ایک اہم فریضہ یہ بھی ہے کہ وہ اہلِ حکومت سے اُردو کی ترقی و ترویج کے لئے عملی اقدام اُٹھانے کی اِلتجا کرے۔ اس کے لئے تمام محکموں اور دفتروں سے اُردو کو جوڑنا ہوگا۔
ایک اور مسئلہ اُردو چاہنے والوں کی توجہ کا محتاج ہو وہ یہ کہ جو لوگ اُردو ادب سے محروم ہیں ان کے لئے جگہ جگہ اُردو کوچنگ سینٹر کا قیام عمل میں لانا چاہئے۔
بہر صورت عملی طور پر اگر زور و شور سے کام لیا جائے تو ممکن ہے کہ اس کی کھوئی ہوئی ہستی واپس لوٹ آئے گی۔ اور ہماری لشکری زبان پھر سے بام ِ عر و ج پر پہنچ جائے گی۔!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...