گزشتہ ہفتہ ملک میں 14ستمبر کو یوم ہندی منایا گیا اور اس سے متعلق بہت سے شواہد بھی سامنے آئے، جس میں سب سے پہلے یہ رپورٹ ہے کہ ملک کی دس مقتدر زبانوں میں ہندی اب بہت زیادہ ثروت مند ہوگئی ہے۔ بیس برس قبل جس کے الفاظ کی تعداد محض20ہزار تھی، اب بڑھ کر تقریباً ڈیڑھ لاکھ ہوگئی ہے۔ گزشتہ چار دہائی کے دوران ہندی بولنے والوں کی تعداد میں 19فیصد اضافہ ہوا ہے، جب کہ اس دوران دیگر زبانیں بولنے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔
ہندی، ہندوستانی اور پھر اردو برصغیر میں بولی جانے والی ایک ہی زبان ہے۔ پہلے ہندوستانی زبان تھی، جسے ہندوی یا ہندی کہا جاتا تھا۔ ملک کے پہلے نامور صوفی اور شاعر حضرت امیرخسرو نے اسی زبان کو عروج دیا جو آگے چل کر نکھرتے نکھرتے اردو زبان کے جامے میں ڈھل کر شیریں اور کانوں کو بھلی لگنے والی زبان میں ڈھل گئی۔ آج ہم جس زبان کا تذکرہ کررہے ہیں، وہ ہندی زبان ہے جو انیسویں صدی کے اوائل میں اردو سے بنائی گئی۔ برطانوی سامراج ’بانٹو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کے تحت اردو زبان سے فارسی اور عربی کے الفاظ آہستہ آہستہ ختم کرکے ان کی جگہ سنسکرت کے ایسے الفاظ چن لیے گئے ، جو آسان بھی تھے اور کانوں کو بھلے بھی لگتے تھے۔ اس لیے کہ سنسکرت آمیز ہندی آج بھی بہت کم بولی جاتی ہے اور اس کے پڑھنے اور سننے والے بہت کوششوں کے باوجود بھی اپنی تعداد بڑھانے سے قاصر ہی نظر آتے ہیں۔
کمپیوٹر کے عام ہونے اور موبائل پر انٹرنیٹ کی آسان دستیابی کے بعد انٹرنیٹ پر ہندی سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ 94فیصد کی شرح سے بڑھی ہے، جب کہ دنیا کی سب سے بڑی زبان کہی جانے والی انگریزی کی شرح اس دوران 19فیصد ہی رہی ہے۔ اس کی ترقی کے امکانات مزید بڑھ گئے ہیں۔ اس لیے کہ فی الوقت 170ملکوں میں کسی نہ کسی شکل میں ہندی کی تعلیم جاری ہے۔ ہندوستان کے باہر تقریباً 600ہندی اسکول اور کالجز ہیں، جہاں ہندی کا فروغ ہورہا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ مینڈرن، اسپینش اور انگریزی کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ ہندی بولی جاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسی سال سے اقوام متحدہ نے ہندی میں خبریں شروع کی ہیں۔ یہ اعزاز پانے والی ہندی پہلی غیریواین ایشیائی زبان بن گئی ہے۔
ادھر جنوبی ہند میں ہندی زبان میں امتحان دینے والوں کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ وہاں ’ہندی پرچار سبھا‘ کے ذریعہ منعقد ہندی کے امتحان میں بیٹھنے والے افراد کی تعداد گزشتہ پانچ برس میں 22فیصد بڑھ گئی ہے۔ 2019میں امتحان دینے والے طلبا کی تعداد تقریباً 6لاکھ تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق کیرالہ میں اترپردیش اور بہار سے جانے والے لوگوں سے وہاں کے باشندے ہندی زبان سیکھ رہے ہیں۔ ریاست کیرالہ کی پلی پورم پنچایت ایک ایسی پنچایت ہے جہاں ہندی زبان سیکھنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ پنچایت میں بالغ افراد کو 52ہفتوں تک تربیت دینے کا انتظام کیا گیا ہے۔ یہ تعلیم بچوں کے لیے مفت ہے۔
اصل میں ہم دیوناگری رسمِ خط میں لکھے جانے والے متن کو ہندی کہتے ہیں، لیکن شمالی ہند سے لے کر جنوبی ہند تک یا یوں کہئے یہ کشمیر سے کنیاکماری تک جو زبان سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جاتی ہے، وہ اردو ہے۔ ان تمام علاقوں میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہم جو زبان بولتے، لکھتے اور سمجھتے ہیں، وہ اردو ہی ہے۔ لیکن دیوناگری میں لکھے جانے والے متن کو ہندی اور فارسی رسم خط میں لکھے جانے والے متن کو اردو کہتے ہیں۔ اب اردو میں ایسے بہت سے الفاظ عام طور پر مل جائیں گے جو ہندی بیلٹ میں بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔ ہم اسے اس معنی میں اردو کا فروغ بھی سمجھ سکتے ہیں اور ہندی زبان کا فروغ تو اس سے ہوہی رہا ہے۔ بہت کم علاقے ایسے ہیں جہاں دیوناگری رسم خط میں لکھے جانے والے متن میں سنسکرت آمیز ہندی کے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہو۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اردو زبان کے رواج کو کم کرنے کے لیے ہندی زبان کو بڑھاوا دیا گیا۔ اس کو بہت زیادہ مراعات دی گئیں، تاکہ ہندی زبان کو پروان چڑھایا جاسکے۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آزادی کے بعد ہندوستان کی سرکاری زبان بنائے جانے کے موقع پر پارلیمنٹ میں دونوں زبانوں کے چاہنے والوں کے ووٹ جب برابر ہوئے تو صدر کے ایک ہندی ووٹ سے ہندی ملک کی پہلی اور قومی زبان قرار پائی۔ لیکن یہ بھی دنیا جانتی ہے کہ جنوبی ہند میں ابھی تک ہندی زبان کو ’غیر‘ تصور کیا جاتا ہے۔ اگر چہ مضمون میں پیش کیے گئے اعدادوشمار یہ ثابت کررہے ہیں کہ اب حالات بدل گئے ہیں، لیکن حقیقت حال سے تو وہاں کے لوگ ہی واقف ہیں۔
2011کی مردم شماری کے مطابق ملک کی 121کروڑ آبادی میں سے 52.83کروڑ لوگوں نے ہندی زبان کو اپنی زبان بتایا ہے اور 32کروڑ نے ہندی کو اپنی مادری زبان بتایا ہے۔ اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں آسانی ہوگی کہ ہندی کو مادری زبان سمجھنے والے کتنے کم ہیں اور جو لوگ ہندی کو اپنی زبان بتارہے ہیں، وہ دراصل اردو کی ہی شکل ہے، لیکن وہ دیوناگری زبان میں لکھی ہونے کی وجہ سے ہندی کہلاتی ہے۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندی نثر انیسویں صدی کے آغاز میں اپنی اصل شکل میں سامنے آئی۔ ہندی زبان میں سوامی دیانند سرسوتی کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ یوں تو گجراتی تھے، لیکن سنسکرت کے بہت بڑے عالم تھے۔ انہوں نے ہندی کو پورے ملک کی عوامی زبان بنانے کی وکالت کی تھی۔ انہوں نے ہندی میں لکھنا شروع کیا اور مذہبی و سماجی اصلاحات سے وابستہ رسائل میں مضامین شائع کرائے۔ ہندی میں ’ستیارتھ پرکاش‘ ان کی سب سے اہم تخلیق ہے۔ پھر اس سلسلے کو پریم چند نے ثروت مند بنایا۔ انہوں نے ہندی میں لکھنا شروع کیا، لیکن جیسا کہ راقم نے عرض کیا کہ یہ سب دراصل دیوناگری رسم خط میں اردو زبان ہی تھی، اردو ہی سے ہندی کا فروغ ہوسکا۔
متعصب ذہن اردو اور ہندی زبانوں کو بانٹنے کی متعدد کوششیں کرچکے ہیں، لیکن ہنوز ناکام ہیں۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ان کی یہ کوششیں کبھی بار آور ثابت نہیں ہوں گی، اس لیے کہ ہندوستان کا خمیر ہندو اور مسلمان دونوں میں شامل ہے۔ ان میں دوری پیدا کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں، لیکن وہ وقتی ہی ثابت ہوئی ہیں اور جلد یا بدیر جو لوگ نفرت کی دیوار اٹھا رہے ہیں، وہ دیوار ضرور گرے گی، اس لیے کہ خمیر تو خمیر ہے وہ بہت دیر تک اپنی فطرت سے دور نہیں رہ سکتا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...