یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
آج کیا تاریخ ہے؟ 14 دسمبر 2020 عیسوی کا دن ہے۔
آج کا دن کچھ خاص تو نہیں ہے۔ کیا کہا کچھ خاص۔ نہیں کیا سنا کہ کچھ خاص چھوڑو نہ کہا نہ سنا بلکہ کیا لکھا ہے کہ کچھ خاص ہے۔ نہیں تو ایسی کوئی بات تو ہے دو دن پہلے گرو رجنیش کی برسی تھی ہاں مگر یاد آیا کہ آج کے دن جنم برسی ہے اصغر نقوی کی۔
اصغر نقوی نہیں یہ زیادتی ہے جون ایلیا کہنا چاہئے۔
کون جون ایلیا؟
یہ سمجھانے کے لئے جون ایلیا کی روح سے معذرت کے ساتھ شعر عرض ہے کہ
جون ایلیا پڑھنے لگے ہو
ان اللہ وانا الیہ راجعون
ہاں دہرِ توحش میں مننعِ رمیدگی کا جلوہ آج ہی کی تاریخ میں ہوا تھا یعنی آج اُن کا جنم دن منانا ہے۔
آئیے کچھ سرخی مے سے مقدور بھر تزئین دروبام کرتے ہیں۔
تو اُن کے متعلق جاننا ہے جو کہا کرتے ہیں کہ
مجھ سے ملنے کو آپ آئے ہیں
بیٹھئے، بلا کر لاتا ہوں
جون ایلیا کو سننا یا پڑھنا، جاننا، سمجھنا کوئی آسان نہیں ہے کیونکہ
جون ایلیا بننے کے لئے اول و آخر شرط یہی ہے کہ خود کو برباد کر کے اس پر ملال نہ کیا جائے۔
وہ خود فرماتے تھے
میں بھی عجیب ہوں اتنا عجیب کہ
خود کو برباد کر لیا اور ملال بھی نہیں
جون ایلیا پر مسرت تھے؟ ہاں یا نہ۔ شاید پر مسرت نہیں تھے۔ بلکہ شاد و آباد بھی نہیں تھے۔ وہ تو برباد تھے اور کہتے تھے کہ
یہ تو سر ہی مانگتا ہے میاں
عشق پر کربلا کا سایہ ہے
یہ کس نے بولا ہے کہ اُن کو عشق تھا کیا واقعی ان کو عشق تھا؟ شاید ہاں یہ,, شاید ،،کیا ہوتا ہے یہ جو,, شاید ،،ہے یہ ان کی پہلی اشاعت پانے والی کتاب ہے۔ بہرکیف کیا ان کو عشق تھا ارے بھائی عشق کی بھی تو اقسام ہیں حال ہی میں میں تو علامہ خادم حسین رضوی صاحب کی وفات ہوئی جنھیں لوگ عاشق رسول مانتے تھے۔ بالکل جون کوئی عاشق نہیں تھا بلکہ جون ایلیا رمزِ عشق میں گرفتار خود کو برباد کرنے والا فلسفی شاعر تھا کہتے ہیں
نغمہِ شوق رنگ میں، تجھ سے جدائی کی گئی
ایک لکیر خون کی، بیچ میں کھینچ دی گئی
تھی جو کبھی سر سخن، میری وہ خامشی گئی
ہائے! کہن سنن کی بات، ہائے وہ بات ہی گئی
شوق کی ایک عمر میں، کیسے بدل سکے گا دل
نبض جنون ہی تو تھی، شہر میں ڈوبتی گئی
اس کی گلی سے اٹھ کے میں آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی اور گلی گلی گئی
اس کی امیدِ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجئے، عمر گزار دی گئی
دور بہ دور، دل بہ دل، درد بہ درد، دم بہ دم
تیرے یہاں رعایت حال نہیں رکھی گئی
جنون! جنوب زرد کے خاک بسر، یہ دکھ اٹھا
موج شمال سبز جاں، آئی تھی اور چلی گئی
کیا وہ گماں نہیں رہا؟ ہاں وہ گماں نہیں رہا
کیا وہ امید بھی گئی؟ ہاں وہ امید بھی گئی
گویا یہ غزل ہمارے دل کے قریب تھی چھوڑیئے کہ ہم نے لکھ ڈالی۔ نہیں یہ,, گویا،، ان کی کتاب سے لی گئی غزل ہے وہ خود رو پڑتے ہیں یہ شعر کہتے ہوئے
اس کی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا
آپ عمر گزار دیجئے، عمر گزار دی گئی
یہی رویہ ہمارے ہاں بھی پایا جاتا ہے مطلب ہم بھی روتے رہے ہیں یہ شعر پڑھتے ہوئے۔ ایسا کیا تھا خیر اس کا تو نہیں پتہ کہ ایسا کیا تھا۔ البتہ اُن کے کلام میں اور بھی بہترین اشعار ہیں جیسے
کیا کہا عشق کر بیٹھے ہو
ان اللہ وانا علیہ راجعون
پھر فرماتے ہیں
کیا ستم ہے اب تری صورت
غور کرنے پر یاد آتی ہے
یوں لکھنے بیٹھوں تو جون ہی لکھتا رہ جاؤں گا مگر حیف ہے کہ جون ہم میں نہیں ہے۔ جون کی زندگی پہ لکھنا مشکل ہے کیونکہ
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی سے گزاری ہے
میری زندگی میں تو وہ وفات کے بعد آئے یعنی
زندگی سے ایک گلہ ہے مجھے
تو بڑی دیر سے ملا ہے مجھے
تو جیسے کہتے ہیں کہ
تا حشر تیری دید کو ترسیں گی مری آنکھیں
میری آنکھوں میں ان کے لئے چاہت ہے اسی لئے وہ کہہ گئے تھے کہ
کتنی قیامت خیز آنکھیں ہیں تمھاری
آخر تم خواب کس کے دیکھتے ہو
یہ کیا میں نے طشت از بام کیا ہے اسی پر کہہ گئے تھے کہ
مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے
تمھیں مجھ سے محبت ہوگئی کیا
ان کے لئے کالم لکھنا ضروری تھا کیونکہ وہ کہتے تھے
تم کوئی بات کیوں نہیں کرتے
پھر کوئی بات ہو گئی ہے کیا
ضروری ہوگیا تھا کہ قلم کی خامشی توڑی جائے کیونکہ پھر یہ سننے کو ملتا کہ
اب مجھے کوئی دلائے نہ محبت کا یقین
جو مجھے بھول نہ سکتے تھے وہی
بھول گئے
کالم ہے اب ختم تو کرنا پڑے گا
ختم ہونے کو ہے سفر شاید
پھر ملیں گے کبھی مگر شاید
اُن کی زبانی
نہ میں جون ایلیا ہوں ، نہ حضرت جون ایلیا ، میں تو کچھ بھی نہیں ، یہ سلیم جعفری ہمیں نواز دیتا ہے تو ہم آ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یارو ! تم سامعین نہیں ہو ، یہ ایک خانوادہ ہے ، ایک فیملی ہے ، ایک خاندان بیٹھا ہے ۔۔۔۔۔میری الٹی سیدھی باتیں سن لو !!!
میاں ہم سید ہیں ، مولائی ہیں ، بھنگ پیتے ہیں !!!! میں ایک مظلوم زبان کا مظلوم شاعر ہوں ، اس زبان پر لعنت اور جون ایلیا پر لعنت !!!