23 مارچ کا دن بہت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ علیحدہ وطن کے حصول کی بنیاد ہے۔ اور ہمیں جو بتا دیا گیا وہ ہم نے مان لیا۔ ہر سال بڑے جوش و خروش سے اس قوم کے ٹیکس کے اربوں روپوں سے پریڈ منعقد کی جاتی ہے اور ہماری قوم بھی اس پریڈ کلچر سے ایسی متاثر ہے کہ پریڈ تو ضرور دیکھے گی لیکن تاریخ کے اوراق پلٹنے کی زحمت نہیں کرے گی۔ مختصراً یہ کہ اس روز غلام ذہنیت، غلام معیشت، غلام سیاسی نظام رکھنے والے آزادی کا جشن مناتے ہیں ۔ بہرحال یہ ایک طویل موضوع ہے اور ہم ابھی صرف 23 مارچ کی حقیقت کی بات کرتے ہیں۔ تو کہانی کچھ یوں سنائی جاتی ہے کہ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ کو قرار داد پاکستان منظور کی گئی۔ اگر ایسا تھا تو پاکستان کی آزادی سے لے کر 1956 تک کوئی ایسا دن کیوں نہ منایا گیا؟
پاکستان کا پہلا آئین 1956 کو نافذ ہوا ۔اس وقت کے گورنر جنرل سکندر مرزا ملک کے پہلے صدر بن گئے اور اس کے ساتھ ہی گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر دیا گیا۔ پھر اس مناسبت سے 1957 اور 1958 کو یوم جمہوریہ پاکستان منایا گیا۔
7 اکتوبر 1958 کو اسکندر مرزا کو عوامی لیگ اور مسلم لیگ کے مذاکرات کے باعث اپنے اختیارات خطرے میں محسوس ہوئے تو انہوں نے پاکستان کا پہلا دستور منسوخ کر دیا۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی اور ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ ملک کا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ایوب خاں کو مقرر کیا گیا۔ پھر سکندر مرزا کے استعفٰی کے بعد مکمل طور پر تمام اختیارات ایوب خان کو منتقل ہو گئے ۔ اس کے بعد جس تاریخ کو سکندر مرزا کو فارغ کیا گیا اسے یوم انقلاب کے طور پر منایا جاتا رہا۔
پھر اصل کہانی 23 مارچ 1959 کو شروع ہوئی جب یوم جمہوریہ پاکستان آیا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اب یوم جمہوریہ کیسے منایا جاۓ کیونکہ اس دن کو جس آئین کے نفاذ کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے وہ آئین ہی منسوخ تھا اور ملک پر آمریت کے ساۓ تھے۔ پھر اس مسئلے کا حل کچھ یوں نکالا گیا کہ اس دن کو یوم قرار داد پاکستان کے طور پر منایا گیا لیکن اسکی کوئی تاریخی حیثیت نہیں کیونکہ نہ تو قرارداد پاکستان 23 مارچ کو منظور ہوئی اور نہ ہی اس میں علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ قراردار 23 مارچ کی بجاۓ 24 مارچ 1940 کے لاہور سیشن میں منظور ہوئی۔ جسے قرارداد لاہور کہا جاتا ہے ۔اور اس میں یہ تسلیم کیا گیا کہ مسلم اکثریتی علاقے خودمختار حیثیت سے مرکز کا حصہ ہوں گے۔ لیکن ہمیں یہ بتایا گیا کہ اس دن جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر فوجی پریڈ دیکھنی ہے ۔ جس پہ اس سال غالباً 4 ارب 68 کروڑ روپے خرچ کیے گئے جو اس ملک کے تعلیمی بجٹ سے بھی زیادہ ہیں۔
خورشید کمال عزیز اپنی کتاب "پاکستانی تاریخ کا قتل " کے صفحہ نمبر 171 پر لکھتے ہیں کہ " یہ قرار داد پاکستان نہیں بلکہ قرارداد لاہور تھی ۔ یہ کوئی عظیم الشان اجتماع نہیں بلکہ سالانہ اجلاس تھا اور اسے مسلم لیگ نے نہیں بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی تنظیم نے منظور کیا تھا۔ اور یہ قرار داد 23 مارچ کو نہیں بلکہ 24 مارچ کو منظور کی گئ تھی جو ایک آزاد ریاست کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ لفظ "ریاستوں " استعمال کرتی ہے۔
لیکن ہماری ترجیحات تاریخ کو جاننا نہیں بلکہ اس پریڈ تماشے کو ترجیح دینا ہے ۔ جب معاشی طور پر غلام، عالمی قرضوں میں ڈوبا ہوا ملک ہتھیاروں کے دس بڑے خریداروں میں شامل ہے تو کرونا وائرس کی اس صورتحال میں پریڈ پر اربوں روپے لگانے میں کیوں پیچھے رہے۔