جرمن زبان میں لکھنے والی جاپانی ادیبہ یوکو تاوادا
اُنیس ویں صدی کے فرانسیسی ادیب اور شاعر آڈلبرٹ فان شامیسو سن 1781ء میں پیدا ہوئے اور اُن کا انتقال سن 1838ء میں ہوا۔ آڈلبرٹ فان شامیسو نے اپنی ادبی تخلیقات کے لئے جرمن زبان کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔ اُنہی سے موسوم شامیسو ایوارڈ سن 1985ء سے جرمنی میں ايسے اديبوں کو ديا جاتا ہے، جن کی مادری زبان جرمن نہ ہو لیکن جو اِس زبان ميں کتابيں تصنيف کرتے ہوں۔ جاپانی مصنفہ يوکو تاوادا نے يہ انعام سن 1996ء ميں حاصل کيا۔ انعام يافتگان ميں ان کا شمار غير معمولی لسانی صلاحيت رکھنے والوں ميں ہوتا ہے اور وہ جرمن اور جاپانی دونوں زبانوں ميں حيرت انگيز دسترس رکھتی ہيں۔
جاپانی اديبہ يوکوتاوادا تقريباً 300 سال قبل برلن کے مرکزی ریلوےاسٹيشن بان ہوف سو پر اتری تھيں۔ بان ہوف سو‘‘ کو سابقہ مغربی برلن کے مرکزی ریلوے اسٹیشن کی حیثیت حاصل تھی۔
جرمنی سے یوکوتاوادا کا پہلا رابطہ تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ تيس سال پہلے اس جگہ کی حالت آج کے مقابلے میں کہیں اچھی تھی:’’مَيں سن 1979ء ميں ٹرانس سائيبيرين ريلوے ميں سفر کر کے جرمنی آئی تھی۔ اس کے بعد ميں بان ہوف سو کے اسٹيشن پہنچی۔ يہ سرد جنگ کا زمانہ تھا اور مغربی برلن ايک ایسے شو کیس کی طرح تھا، جس میں پوری مغربی دُنیا کا عکس دیکھا جا سکتا تھا: يہاں دولت کی ريل پيل تھی، سب کچھ جگمگا رہا تھا اور یہ سب دیکھ کر کچھ خوف سا بھی آتا تھا۔‘‘
کسی بھی نئے مقام کو یوں ابتدائی حيرت سے ديکھنا، يہ سب کچھ يوکو تاوادا کے لئے اب بھی بہت اہم ہے۔ تاوادا دنيا کے بارے میں اپنی حيرت کو اپنی تحریروں میں منتقل کر دیتی ہيں۔ وہ ایک بُک سیلر کی بيٹی ہيں اور بارہ سال کی عمر ہی ميں انہوں نے ایک ناول لکھ کر اُس کی کاپياں تقسيم کی تھیں۔ جرمن انہوں نے اسکول ميں سيکھی اور 19 سال کی عمر ہی ميں جاپان کے تنگ معاشرے سے باہر نکل آئيں۔ تقريباً آدھی دنيا کی سیر کرنے کے بعد وہ جرمنی پہنچيں۔
دریں اثناء وہ اپنی مادری زبان جاپانی کے ساتھ ساتھ جرمن ميں بھی لکھتی ہيں۔ يوکو تاوادا کہتی ہیں: ’’يہ بس خود بخود ہی ہو گيا۔ جرمن زبان ميں لکھنے کی وجہ سے ميں جاپانی زبان کی خصوصیات کو بہتر طور پر ديکھ سکتی ہوں، بالکل ویسے ہی، جیسے مجھے جرمن زبان کی خوبيوں کو بھی بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ جرمن، دوسری اشياء کی طرح مجھ سے باہر کی دنيا ميں ہے اور اس کے ہر لفظ سے متعلق ميرا ايک واضح اور ٹھوس احساس ہے۔ اور ميں نے شايد اسی احساس کو اپنی تصنيفات ميں استعمال کيا ہے۔ جرمن الفاظ گویا کسی اجنبی وجود کی طرح سے ميرے سامنے میز پر پڑے ہوتے ہيں اور ميں ان سے کھيلتی ہوں، اِس کیفیت سے مَیں لطف اندوز ہوئی ہوں۔’’
يہی وہ کھلنڈرانہ انداز ہے، جو يوکو تاوادا کے ادب ميں نماياں نظر آتا ہے اور يہی وجہ ہے کہ انہيں سن 1996ء ميں آڈل برٹ فان شاميسو انعام ديا گيا۔ اور 2005ء میں گوئٹے میڈل سے بھی نوازا گیا۔
وہ مغربی کلچر کو اپنی کہانيوں ميں استعمال کرتی ہيں۔ ان کی تحريروں ميں حقيقت اور تخيل کے درميان حدود دھندلی پڑ جاتی ہيں۔ خود الفاظ بھی وجود بن جاتے ہيں اور ان کا ذائقہ اور مزاج بدل جاتا ہے، جيسے کہ ان کی پچھلی تصنيف " بردر اِن لاء اِن بوردو" ميں۔ اِس میں ایک جگہ وہ لکھتی ہیں:’’يُونا بھوکی تھی اور ایک بار پھر کسی نئی زبان کا ذائقہ چکھنا چاہتی تھی۔ اس نے حروف یاد کرنے کے لئے لغات کا ایک ایک صفحہ تک نگل ڈالا۔ یہیں سے اُسے معلوم ہوا کہ بعض ناشرین خستہ کاغذ جبکہ بعض ريشے دار یا آٹے کی طرح کا کاغذ استعمال کرتے ہيں۔ زبانیں سيکھنے کے دوران اس کا ڈيسک کھانے کی ميز ميں اور پنسل چمچ ميں تبديل ہوگئی۔‘‘
یہ ایک جاپانی خاتون کی کہانی ہے، جو زبان کے ایک کورس میں شرکت کے لئے فرانس جاتی ہے۔ تاہم یہ کتاب ہو یا تاوادا کی کوئی اور کتاب، واقعات کو آگے بيان کرنا بہت مشکل ہے، اس کے مقابلے ميں زبان کی شکل و ہيئيت بہت نماياں نظر آتی ہے، شايد اس لئے کيونکہ يوکو تاوادا جاپان ميں پلی بڑھی ہيں، جہاں کے کلچر ميں الفاظ کی شکل و صورت کی خوبصورتی کو اتنی ہی زيادہ اہميت دی جاتی ہے جتنی کہ ان کے مطلب کو۔ تاوادا کے تازہ ناول "بردر اِن لاء اِن بوردو" ميں بھی ان کا يہی شوق جلوہ انگيز ہے۔ انہوں نے اس ناول کے ہر باب کے لئے جاپانی زبان کے کسی لفظ کا انتخاب کيا ہے۔
تاوادا کہتی ہے: ’’ضروری نہيں کہ پڑھنے والا ان الفاظ کا مطلب سمجھ لے بلکہ ضروری يہ ہے کہ کتاب ميں ايک اجنبی وجود، ايک اجنبی زبان کا لفظ موجود ہو۔ مقصد يہ ہے کہ اس وجود سے ٹھوکر لگنے کے بعد پڑھنے والے کو يہ احساس ہو کہ ہميشہ ہی کچھ باقی رہ جاتا ہے جسے ہم سمجھ نہيں سکتے۔‘‘
یہی نامعلوم اور اجنبی عنصر يوکو تاوادا کے ادب کا محرک ہے۔ اسی لئے وہ اپنے ناولوں کے بہت سے کرداروں کو فرانس کے شہر مارسے يا پھر جرمن دارالحکومت برلن کے سفر کراتی ہيں۔ اس کے باوجود اجنبيت تاوادا کے لئے اب بھی ايک مشکل اصطلاح ہے۔ وہ کہتی ہیں: ’’اجنبيت کا لفظ ميں نے جرمنی ميں سيکھا کيونکہ لوگ مجھ سے اکثر پوچھتے ہيں کہ کيا ميں يہاں جرمنی ميں خود کو اجنبی محسوس کرتی ہوں۔ ميں اپنے جرمن دوستوں سے خود کو بہت مانوس محسوس کرتی ہوں۔ ليکن اگر اجنبيت سے مراد ايک قسم کا فاصلہ ہے، تو ہاں ميں ايک مخصوص فاصلہ محسوس کرتی ہوں اور يہ ميرے لئے اچھا بھی ہے کيونکہ اس طرح ميں چيزوں کو زيادہ واضح طور پر ديکھ سکتی ہوں۔‘‘
يوکو تاوادا کے لئے ثقافتوں اور زبانوں کے درميان رہنا کوئی مسئلہ نہيں ہے۔ کثيرالثقافت ہونا ان کے لئے ايک عرصے سے ايک حقيقت بن چکا ہے اور ان کی تصنيفات کے لئے لازمی بھی ہے۔ انہوں نے ايک ادبی کائنات تخليق کر لی ہے، جس ميں الفاظ اور دنيائيں مسلسل بدلتی رہتی ہيں کيونکہ صرف اپنی ايک دنيا ان کے لئے بہت يکسانيت اور بوريت کا باعث ہوتی۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“