اماں لن (Lin) نومبر کی سہ پہر میں سٹین لیس سٹیل کا ٹفن اٹھاۓ گلی میں جا رہی تھی ۔ ٹفن کے اندر اس کے ورکنگ یونٹ کی جانب سے جاری کردہ سرکاری سرٹیفیکیٹ پڑا تھا ۔جس میں چمکدار سنہری حروف میں تصدیق کی گئی تھی کہ کامریڈ لن می بیجنگ (Lin Mei) ریڈ سٹار گار منٹ فیکٹری سے باعزت طور پر ریٹائر ہوئی ہے ۔
اس میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ریڈ گار منٹ فیکٹری دیوالیہ ہو چکی ہے ۔یا یہ کہ باعزت ریٹائر ہونے کے بعد اماں لین پینشن کی حقدار نہیں ہے ۔ یقینا ً وہ ایسی کوئی اطلاع نہیں دیں گے ،کیوں کہ یہ اطلاع درست نہیں ہو گی ۔ سرکاری انڈسٹری کے لئے لفظ دیوالیہ استعمال نہیں ہو سکتا ۔اصل لفظ تنظیم نو ہے، لیکن سرٹیفیکیٹ میں وہ بھی نہیں لکھا گیا تھا ۔
اماں لین کی ہمسائی آنٹی وانگ کو جب اس صورتحال کا علم ہوا تو اس کا تبصرہ کچھ یوں تھا ۔”جہاں چاہ وہاں راہ ،” (جب آپ پہاڑ پر جاتے ہیں تو وہاں ہمیشہ ایک سڑک ہوتی ہے ۔) “ اور جہاں سڑک ہوتی ہے وہاں ٹویوٹا ہوتی ہے ۔” لاشعوری طور اماں لین نے ٹویوٹا کے کمرشل اشتہار کی دوسری لائین دہرا دی۔
“اماں لین تم مثبت سوچ رکھنے والی ہو ،تمھیں ضرور تمھاری ٹویوٹا مل جاۓ گی ۔” اماں لین کو جو مسلۂ درپیش تھا وہ یہ تھا کہ وہ کیسے اپنی دن بہ دن کم ہوتی جمع پونجی کو بچاۓ ۔ کچھ دن تک وہ جمع تفریق کے حساب کتاب میں الجھی رہی اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچی کہ اس کی پس انداز کی ہوئی رقم بمشکل ایک سال نکالے گی اور اگر وہ اپنا ایک وقت کا کھانا چھوڑ دے ،سورج غروب ہوتے ہی سو جاۓ تاکہ شمالی چین کے موسم سرما میں چولھے کے کوئلے کی بچت ہو سکے تو شاید دو سال گزر جائیں گے ۔
اگلی بار جب دونوں کی مارکیٹ میں ملاقات ہوئی تو آنٹی وانگ نے جب اماں لین کو ڈنر کے لئے محض ایک مولی خریدتے ہوے دیکھا تو اسے تسلی دیتے ہوے کہا!
“تم کوئی شخص ڈھونڈو اور شادی کر لو ۔”
“شادی کر لوں ——؟ ”
“اتنی قدامت پسند مت بنو “ آنٹی وانگ بولی ۔۔۔۔۔۔۔” تمھاری عمر کیا ہے ؟”
“اکیاون سال ۔”
“اوہو ،تم تو مجھ سے چھوٹی ہو ۔ میں اٹھاون سال کی ہوں ،لیکن میں تمھاری طرح پرانے فیشن کی نہیں ہوں ۔تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ شادی پر صرف نوجوانوں کا حق نہیں ۔”
“میرا مذاق نہیں اڑاؤ۔” اماں لن نے احتجاج کیا ۔
“میں سنجیدہ ہوں ۔اتنے سارے رنڈوے موجود ہیں ،ان میں کتنے ہی امیر اور بیمار ہوں گے ،جنھیں دیکھ بال کی ضرورت ہو گی ۔”
“تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میں بوڑھوں کی کئیر ٹیکر / نگران کی نوکری کر لوں “
آنٹی وانگ نے آہ بھرتے ہوے اماں کے ما تھے کو اپنی انگلی سے چھوا اور بولی ،”دماغ استعمال کرو ،نگران نہیں بیوی ،اس طرح اس کے مرنے پر تمہیں کچھ رقم وراثت میں مل جاۓ گی ۔”
اماں نے کھل کر سانس لیا ۔اس کی شادی نہیں ہوئی تھی ۔اس لئے مردہ خاوند کے تصور سے ہی خوفزدہ ہو گئی ۔تاہم آنٹی وانگ نے اس کے لئے اسی وقت فیصلہ صادر کر دیا اور بہت جلد اس کے لئے رشتہ ڈھونڈ بھی لیا ۔
“چھہتر (۷۶) سال عمر ،بلند فشار خون اور زیابطیس کا مریض،بیوی حال ہی میں مری ہے ۔تین بیڈ روم کے فلیٹ میں اکیلا رہتا ہے ۔مہینے کے دو ہزار یوآن پنشن ملتی ہے ۔دونوں بیٹے شادی شدہ اور سرکاری ملازم ہیں ۔اچھی کمائی والے ہیں۔”
لیکن اماں ذرا بھی متاثر نہ ہوئی ۔
” مان جاؤ ،اماں اتنا اچھا رشتہ کہاں سے ملے گا ۔بوڑھا بہت جلد مر جاۓ گا ۔بیٹے خود امیر ہیں ،اس لئے وہ تمھیں بوڑھے کی رقم میں سے ضرور کچھ نہ کچھ دے دیں گے ۔میں تمہیں بتاۓ دے رہی ہوں ،یہ سب سے موزوں فیملی ہے ۔ان کی دہلیز پر رشتہ کرانے والوں کے نئے جوتے گھس چکے ہیں لیکن تمام ممکنہ رشتوں میں سے انہیں تمہارا رشتہ پسند آیا ہے ۔بھلا کیوں ؟ اس لئے کہ تم پہلے سے شادی شدہ نہیں ہو اور تمہارے بچے نہیں ہیں ۔ویسے ،تمہاری شادی کیوں نہیں ہوئی ؟ تم نے ہمیں کبھی وجہ نہیں بتائی ۔”
اماں نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا اور پھر بند کر لیا ۔
“اگر تم نہیں بتانا چاہتی تو نہ بتاؤ ،انہیں بچوں والی خاتون نہیں چاہیے ،میں بھی سوتیلی ماں پر اعتبار نہیں کر سکتی ،کیا ضمانت ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لئے بوڑھے کی رقم نہیں چراۓ گی ۔؟تم سب سے بہتر ہو ،میں نے انہیں بتا دیا ہے کہ اگر روۓ زمین پر ایک ہی ایماندار شخص بچ جاۓ تو وہ تم ہو گی ۔بولو اب تم کیوں ہچکچا رہی ہو ؟”
” وہ کوئی نگران کیوں نہیں رکھ لیتے ؟ “ اماں نے دو بیٹوں کو زہن میں رکھتے ہوے پوچھا ۔”کیا یہ زیادہ سستا کام نہیں ہے ؟”
“کیا تم نہیں جانتی ،یہ آیا قسم کی جوان لڑکیاں کیسی ہوتی ہیں ،سست اور چور بھی ۔اگر جوان جوڑے انہیں ملازم رکھیں تو پھر وہ خاوند بھی چرا لیتی ہیں ۔اور بوڑھے لوگوں کو پورا پورا دن گندگی میں پڑے رہنے دیتی ہیں ۔ایسی لڑکی ملازم رکھنا ؟؟؟ ۔۔۔وہ صرف ان کی جلد موت کا سبب بنتی ہیں ۔”
اماں لن کو ماننا پڑا کہ بوڑھی عورت بطور بیوی زیادہ بہتر انتخاب ہے ۔اماں ,آنٹی وانگ کے ساتھ دونوں بیٹوں اور ان کی بیویوں کے ہاس انٹرویو کے لئے گئی ۔ایک گھنٹے کے انٹرویو کے بعد دونوں بیٹوں نے آنکھوں آنکھوں میں بات کی اور پوچھا ،کیا اسے شادی کی اس پیشکش پر مزید غورو غوض کرنا ہے ؟ ۔اسے سوچ بچار کی ضرورت نہیں تھی اس لئے اگلے ہفتے وہ اپنے نئے گھر میں منتقل ہو گئی ۔اس کا خاوند بوڑھا ٹینگ اس کی سوچ سے زیادہ بیمار تھا ۔ان کی شادی کے کھانے پر ہی ایک بہو نے اسے بتا دیا تھا کہ اسے الزائمر) (Alzheimer’s کی بیماری ہے ۔
اماں نے بیماری کی نوعیت سمجھے بغیر سر ہلا دیا تھا ۔لیکن اتنا سمجھ گئی تھی کہ اس کا تعلق دماغ کے ساتھ ہے ۔اسے خاوند کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر میز تک لے کر جانا پڑا ۔وہاں بٹھا کر اس کی ٹھوڑی سے ٹپکتے تھوک کو صاف کیا ۔
اس طرح اماں لن یکدم بیوی ،ماں اور دادی بن گئی ۔اس کو تو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ کس عمر میں لوگوں نے اسے آنٹی کی جگہ اماں کہنا شروع کر دیا تھا ۔ لوگوں کو یقین ہے کہ غیر شادی شدہ عورت جلد بوڑھی ہو جاتی ہے ۔اب اسے کچھ فرق بھی نہیں پڑتا تھا ۔کہ وہ اپنے آپ کو ایسا ہی سمجھنے لگی تھی ۔
ہر ہفتے ایک بیٹا ،بوڑھے ٹینگ کو دیکھنے آتا اور اگلے ہفتے کے لئے اچھی خاصی رقم دے جاتا ۔بوڑھا ٹینگ خاموش طبیعت انسان تھا ۔کھڑکی کے پاس اپنی اتھاہ خاموشی میں ڈوبا کرسی پر بیٹھا رہتا ۔کبھی کبھار اماں سے اپنی بیوی کے بارے میں پوچھ لیتا ۔ جس طرح دونوں بیٹوں نے اماں کو سمجھایا تھا ،وہ کہہ دیتی کہ وہ ہسپتال میں رو بہ صحت ہے ۔ اور جلد گھر آ جاۓ گی ۔لیکن اس کے جواب سے قبل ہی بوڑھا اپنا سوال بھول چکا ہوتا ۔ وہ مزید سوالات کے انتظا ر میں رہتی جو کبھی نہ پوچھے جاتے ۔وہ امید بھی چھوڑ دیتی ۔ ٹی وی کی آواز اونچی کر کے سارے گھر میں گھومتی پھرتی ۔ صفائی کرتی ،گرد جھاڑتی ، دھلائی کرتی ۔لیکن ہر روز سارے کام بہت جلد ختم ہو جاتے ۔تب وہ کوچ پر بیٹھ کر دن کے ڈرامے دیکھتی ۔اس کے گھر میں بارہ انچ سکرین والا ٹی وی ہوتا تھا ،ہر دفعہ چینل بدلنے کے لئے پورے کمرے سے گزر کر ٹی وی تک پہنچنا پڑتا تھا ،اس کے ٹی وی پر کل چھ چینل تھے ۔دو عدد سٹیل کی تیلیوں پر مشتمل اینٹینا جبکہ بوڑھے ٹینگ کا ٹی وی سیٹ سینکڑوں چینل والا شیطان تھا جو ایک چھوٹے سے ری موٹ کنٹرول کے تابع تھا ۔ان تمام آسائشوں کے ساتھ ایک چینل سے دوسرے چینل پر گھومتی اماں لن نے محسوس کیا کہ اس مشین کا اسے کوئی فائدہ نہیں ،کہ جب بھی کوئی پروگرام دیکھتی دماغ کے کسی گوشے میں یہ بے چینی رہتی کہ وہ اس سے اچھے پروگرام کو چھوڑ کر اسے دیکھ رہی ہے ۔نئی زندگی میں کافی دن گزر گئے ۔اس نے محسوس کیا اسے اس ٹی وی کی لت نہیں پڑی ۔جیسا کہ وہ پچھلے دس سال سے اس نشے میں مبتلا تھی ۔کیا شادی ایسا طاقتور بندھن ہے کہ اتنا پرانا نشہ اتنے کم عرصے میں چھٹ سکتا ہے ۔اماں نے آہ بھری ،ٹی وی بند کیا ،بوڑھے ٹینگ کو کمرے کی یکدم خاموشی سے کوئی فرق نہیں پڑا ۔تب اسے احساس ہوا کہ اس میں ٹی وی کا کوئی کردار نہیں بلکہ یہ بوڑھے کی موجودگی ہے جو اسے ٹی وی پر توجہ مرکوز نہیں کرنے دیتی ۔ وہ ایک رسالہ اٹھا کر اس کی ورق گردانی کے بہانے بوڑھے کو جھانک کر دیکھنے لگی ۔دس منٹ سے بیس منٹ گزر گئے وہ اسے دیکھتی رہی ۔لیکن وہ اس سے نظریں نہیں ملا رہا تھا ۔وہ عجیب شک میں مبتلا تھی کہ بوڑھا بیمار نہیں ہے بلکہ وہ اس کی موجودگی سے واقف ہے اور یہ کہ وہ اسے چپکے چپکے دیکھتا رہتا ہے ۔وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کی بیوی اب اس دنیا میں نہیں رہی ۔اور لن ہی اس کی نئی بیوی ہے ۔لیکن وہ یہ تسلیم نہیں کرنا چاہتا ۔وہ دماغ کی خرابی کا بہانہ کرتا ہے اور اس سے توقع رکھتا ہے کہ وہ کراۓ پر رکھی آیا کی طرح رویہ رکھے ۔لیکن اماں بھی ہار نہیں مانے گی ۔وہ اس کا خاوند ہے اور وہ اس کی بیوی ۔اس کے تکیے کے نیچے ان کے نکاح کا سرٹیفیکیٹ موجود ہے ۔اگر بوڑھا اس کا صبر آزما رہا ہے تو وہ اس کے لئے تیار ہے ۔یہ جنگی کشمکش ہے جسے اماں نے جیتنے کا ارادہ کر رکھا ہے ۔وہ رسالہ بند کر کے بوڑھے ٹینگ کو دلیری سے گھورنے لگی ۔اس کی نظروں کا مقابلہ کرنے لگی ۔منٹ گھنٹوں میں تبدیل ہو گئے ۔یکدم اماں لن اس خوف سے چونک پڑی کہ وہ بھی زہنی توازن کھو رہی ہیے ۔اس نے کوچ سے اپنے جسم کو کھینچ کر نکالا ،اپنے اتھرائیٹس زدہ جوڑوں کے چٹخنے کی آواز سنی ۔اس نے پھر ٹینگ کی طرف دیکھا وہ ابھی تک بت بنا بیٹھا تھا ۔تب اسے احساس ہوا کہ وہ واقعی بیمار ہے ۔اور اسپر بلا وجہ شک کرنے پر شرمندہ ہوئی ۔تیزی سے باورچی خانے گئی اور دودھ کا گلاس لے کر واپس آئی ۔” دودھ کا وقت “ اس نے بوڑھے کے گال سہلاتے ہوے کہا ۔جلد ہی ٹینگ نے دودھ پینا شروع کر دیا ۔۔
دن میں تین مرتبہ اماں کو بوڑھے ٹینگ کو انسولین کا ٹیکا لگانا ہو تا تھا ،تب جا کر اس میں زندگی کے آثار نظر آتے ۔بعض اوقات سوئی باہر نکالتے ہوے خون کا چھوٹا سا قطرہ نمودار ہو جاتا جسے وہ روئی کے گولے کی بجاۓ انگلی سے صاف کر دیتی ۔تب وہ اس عجیب احساس سے سحر زدہ ہو جاتی کہ بوڑھے ٹینگ کا خون اس کے جسم ہر ٹپک رہا ہے ۔
دن میں کئی بار اماں لن اسے نہلاتی ،صبح کے وقت اور رات کو سونے سے پہلے ۔اور پھر جب کبھی وہ گیلا ہو جاتا یا اپنے آپ کو گندہ کر لیتا ۔
ذاتی باتھ روم کا ہونا اسے اپنی شادی کی سب سے اچھی بات معلوم ہوتی ۔اپنی ساری زندگی وہ عوامی باتھ روم استعمال کرتی رہی تھی ۔جہاں زنگ آلود نلکوں سے ٹپکتے نیم گرم پانی کے لئے اسے دوسروں سے لڑنا پڑتا تھا ۔اب پورا باتھ روم اس کے تسلط میں تھا ۔۔
بوڑھا ٹینگ وہ پہلا مرد تھا جسے اماں لن نے مکمل برہنہ دیکھا ۔جب اس نے پہلی دفعہ اس کے کپڑے اتارے تو گاہے بگاہے اس کے عضو تناسل کو بار بار دیکھنے سے باز نہ رہ سکی۔اس نے یہ بھی سوچا کہ جوانی میں کیسا دکھائی دیتا ہو گا ۔لیکن فورا” اس نے ایسی ناپاک سوچ اپنے دماغ سے نکال پھینکی ۔مکمل برہنگی دیکھ کر اس کے دل میں وہ گدا ز پیدا ہوا جس کا اسے پہلے کبھی تجربہ نہیں ہوا تھا اور وہ مادرانہ شفقت سے بوڑھے ٹینگ کے جسم کی دیکھ بھال کرنے لگی ۔
فروری کے آخری دنوں کی ایک شام اماں لن اسے باتھ روم کے درمیان رکھی پلاسٹک کی کرسی تک لے کر گئی ۔پھر کپڑے اتارنے شروع کئے ۔وہ اس کے کہنے کے مطابق اپنے بازو اٹھا رہا تھا اور سر اماں لن کے کاندھے پر ٹکا رکھا تھا ۔اماں نے نلکا کھولا اور اس پر گرم پانی ڈالنے لگی ۔ایک ہاتھ اس کی آنکھوں پر رکھا تاکہ پانی اس کی آنکھوں میں نہ جاۓ ۔
اماں لن فرش پر بیٹھ کر اس کی ٹانگوں کا مساج کرنے لگی ،تبھی بوڑھے ٹینگ نے اپنی ہتھیلی اس کے کندھے پر رکھی ،اماں نے نگاہ اوپر اٹھائی وہ اس کی آنکھوں میں بغور دیکھ رہا تھا ۔وہ چینخ کر پیچھے ہٹی ۔” کون ہو تم ؟ “ بوڑھے نے پوچھا ۔
اماں لن نے حیرت سے پوچھا ،” اولڈ ٹینگ ،کیا یہ تم ہی ہو ؟”
“ تم کون ہو اور یہاں کیوں ہو ؟ “
،” میں ادھر رہتی ہوں “۔
اس نے بوڑھے ٹینگ کی آنکھوں میں غیر فطری روشنی دیکھی ،اس نے اپنا دل ڈولتا محسوس کیا ۔اتنا گدا ز تو صرف موت سے قبل آتا ہے ۔اماں نے دو سال قبل ایسی روشنی اپنے والد کی آنکھوں میں مرنے سے کچھ گھنٹے پہلے دیکھی تھی ۔اس نے باہر جا کر ڈاکٹر کو فون کرنے کا سوچا ۔لیکن اس کے پاؤں فرش پر گڑھے تھے اور آنکھیں اس کی آنکھوں میں ۔
“ میں تمہیں نہیں جانتا ۔تم کون ہو ؟ “
اماں نے اپنے اوپر نگاہ دوڑائی ،وہ چمکدار پیلا پونچو پہنے ہوے تھی ۔پاؤں میں سبز ربر کے جوتے ،مکمل طور پر باتھ ٹائم پلاسٹک کے لباس میں تھی ۔” میں تمھاری بیوی ہوں ۔”
تم میری بیوی نہیں ہو ،میری بیوی سوجانے ہے ،وہ کہاں ہے ؟ “
سوجانے اب ہمارے ساتھ نہیں رہتی ،میں تمھاری نئی بیوی ہوں ۔
“ تم جھوٹ بول رہی ہو ۔” یہ کہتے ہوے اولڈ ٹینگ کھڑا ہو گیا ۔” سوجانے ہسپتال میں ہے “۔
“ نہیں وہ سب آپ سے جھوٹ بولتے ہیں “ ۔اماں لن نے وضاحت کی ۔اولڈ ٹینگ نے اس کا جواب سنا ان سنا کرتے ہوے اس کو پرے دھکیلا ۔اس کے بازو یکدم مضبوط ہو گئے تھے ۔اماں لن نے اسے پکڑ لیا ۔لیکن وہ ناقابل گرفت طاقت کے ساتھ وحشی ہو رہا تھا ۔یہ سوچتے ہوے کہ ایک مردہ عورت کے لئے اپنے خاوند سے لڑنے کی کیا ضرورت ہے ،اس نے بوڑھے کے ہاتھ چھوڑ دئے ۔وہ ہوا میں ہاتھ چلا رہا تھا ۔اور دو قدم بعد ہی فرش پر پھیلے صابن والے پانی میں پھسل کر گر پڑا ۔
جنازے پر کسی نے اماں لن پر توجہ نہیں دی جو ایک کونے میں بیٹھی آنے والے مرد ،عورتوں کی باتیں سن رہی تھی ،جو وہ اولڈ ٹینگ کی زندگی کے بارے میں کر رہے تھے ۔
ایک ماہر طبیعات ،ایک عظیم استاد ،پیار کرنے والا شوہر ،باپ اور دادا ۔گفتگو کے اختتام پر وہ گھروالوں سے ہاتھ ملاتے اور اسے نظرانداز کر دیتے ۔
“میں نے اسے نہیں مارا “ ۔اماں تصورات میں انہیں بتاتی ،وہ گرنے سے قبل ہی مر رہا تھا ۔لیکن اس نے کسی کو سچ نہیں بتایا ۔بلکہ اپنی لا پرواہی تسلیم کی ۔اس لئے کہ کوئی بھی اس کی بات پر یقین نہیں کرے گا ۔کہ اس کی آنکھوں کی چمک ا س نے اکیلے ہی دیکھی تھی ۔ابدی رات سے قبل آخری جھلملا ہٹ ،جیسا کہ کہا جاتا ہے اختتام سے پہلے کی آخری روشنی ۔
اماں لن کو بوڑھے ٹینگ کی وراثت سے ایک پیسہ نہیں دیا گیا ۔ اس نے دو ماہ اس کی دیکھ بھال کی تھی اور بہت سے رشتہ داروں کے خیال میں اس کی لاپرواہی سے بوڑھے کی موت ہوئی تھی ۔اس نے دونوں بیٹوں کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہرایا ،وہ صرف ان کے دکھ کا سوچتی رہی ۔جو اس کے اپنے دکھ سے ہزار گنا زیادہ تھا ۔جب دونوں میں سے ایک نے اپنے کسی دوست کے پرائیویٹ سکول میں ملازمت دلوانے کا وعدہ کیا تو تشکر کے جزبات سے رو پڑی ۔
بیجنگ کے مغربی نواح میں ایک پہاڑی تفریحی مقام پر واقع می می اکیڈمی (Mei Mei) جسے ملک کا پہلا پرائیویٹ سکول ہونے کا شرف حاصل تھا ان چند عمارتوں میں سے تھی جنہیں چار منزلہ تعمیر کی اجازت دی گئی تھی ۔ “تعلقات،تعلقات “ پہلے ہی دن جب اماں لن وہاں پہنچی تو خانساماں نے اسے بتایا ۔اگر سکول کے متولی (trustees) بااثر نہ ہوتے تو اجازت نامہ کیسے ملتا ۔پرائیویٹ سکول بھی دوسرے تمام پرائیویٹ کاروبار کی طرح پورے ملک میں پھیل رہے تھے ۔جس طرح بہار کی پہلی بارش سے ہر قسم کی کونپلیں پھوٹتی ہیں ،کمیونسٹ پارٹی کے راہنما رات ہی رات میں بزنس اونرز بن گئے تھے ۔ان کے چہرے نیشنل ٹی وی پر نئے پر ولتاری منتظم کے طور پر دکھاۓ جا رہے تھے ۔
اماں اس سے بہتر زندگی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔وہ اکیڈمی میں بطور آیا رکھ لی گئی ۔اب ہر کھانا ضیافت تھی ۔گوشت اور مچھلی کی بہتات تھی ۔سبزیاں اس کی مارکیٹ والی سبزیوں سے زیادہ سبز تھیں ۔سب کچھ ایک چھوٹے نامیاتی فارم سے آتا جہاں سے صدر ،وزیراعظم اور ان کے خاندانوں کو بھیجا جاتا تھا ۔
بعض اوقات اماں لن اتنا سارا اچھا کھانا کوڑے میں جاتا دیکھ کر اداس ہو جاتی ۔وہ جان بوجھ کر کھانے پر دیر سے پہنچنے لگی ،جب تمام طلبا ء کھانا کھا لیتے تو تمام پلیٹوں میں بغیر چھوۓ سبزیاں پڑی ہوتیں ۔اماں یہ سب بچا ہوا کھانا اپنی پلیٹ میں ڈالتی اور سوچتی کہ کاش ایک ایکسپریس شیٹل سروس سکول اور اس کے شہر کے درمیان چلتی تو وہ یہ سارا کھانا اپنے ہمسایوں کو پہنچا دیتی ۔
بغیر محنت کیے اتنا اچھا کھانا کھانا گناہ ہے ۔لانڈری اور کمروں کی صفائی کا کام اس کے فرائض میں شامل تھا وہ اس کے علاوہ فالتو کام بھی کرنے لگی ۔صبح سویرے اٹھتی ،کلاس رومز کی کھڑکیاں کھول دیتی تاکہ پہاڑوں کی تازہ ہوا کمروں میں داخل ہو سکے ۔سنگ مر مر کے چمکیلے فرش پر جھاڑو اور پوچا لگاتی وہ طلباء کے ڈیسک بھی جھاڑ دیتی ،اگرچہ چوکیدار رات کو کلاس رومز کی صفائی کر دیتا تھا ۔لیکن وہ صبح سارے کام دوبارہ کرتی ۔یہ سب کرنے کے بعد بھی اگر جاگنے کی گھنٹی بجنے میں وقت ہوتا تو وہ پہاڑوں کی طرف چہل قدمی کے لئے نکل جاتی ۔صبح کی دھند سے اس کے بال اور جلد نم ہو جاتے اور پرندے جو شہر میں کبھی دکھائی نہیں دیتے ،گا رہے ہوتے ۔اس وقت اماں اپنی خوشی پر نازاں ہوتی ۔فیکٹری میں گزرا ہوا وقت ایک بھولا بسرا خواب لگتا ۔اب وہ اس وقت کو کبھی یاد نہ کرنا چاہتی جب وہ کوئلے کے چولہوں سے نکلنے والی سموگ سے گزرتی تھی اور مارکیٹ میں کیمیکل فرٹیلائزر سے تیار کردہ سبزیوں کے لئے بھاؤ تاؤ کرتی تھی ۔چہل قدمی کے دوران اماں کچھ جنگلی پھول اکھٹے کر لیتی ۔کل چھ کلاس رومز کے گل دانوں میں یہ پھول لگا دیتی ،لیکن یہ نازک خوبصورتی صرف پہلے پیریڈ تک قائم رہتی ۔ہر عمر کے لڑکے ایک دوسرے پر پھول پھینکتے ۔جس لڑکے کے ہونٹ پھول کو چھو لیتے ،وہ زنخا کا لقب پاتا ۔بڑی کلاس کی لڑکیاں پنکھڑیاں نکال لیتیں اور سکول کے صحن میں ایک ٹیلے میں دفنا دیتیں ۔ان کی انگلیاں فِگار اور چہروں پر گہری اداسی ہوتی ۔
سکول میں بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا ہر مہینے کچھ نۓ طلباء آ جاتے ۔اماں طلباء کی امارت پر حیرت زدہ تھی وہ ابتدائی فیس بیس ہزار یوآن اور پہلے سال کی بیس ہزار ٹیوشن اور رہائش کی فیس کتنی آسانی سے ادا کر دیتے تھے ۔
اماں کے آنے کے تیسرے مہینے سکول میں طلباء کی تعداد ایک سو ہو جانے پر ضیافت کا اہتمام کیا گیا ۔جس لڑکے کو خوش قسمتی کا نمبر ملا وہ چھ سالہ کانگ تھا ۔دوسرے طلباء کے برعکس جو مختلف شہروں سے آۓ تھے وہ بچہ نزدیکی صوبے سے تھا ۔اس کے آنے کے چند دنوں بعد ہی سب کو اس کی کہانی معلوم ہو گئی تھی ۔اس کا دادا اس کے آبائی صوبے میں بہت بڑے عوامی کمیون کا لیڈر تھا اور اس کا والد شمالی چین کے چوٹی کے زرعی منتظمین میں سے ایک تھا ۔
“ میرا خیال تھا کہ زمیندار اپنے بچوں کو گھر رکھنا پسند کرتے ہیں “اماں نے ہاسٹل میں طلبا کے رہائشی کمروں کی نگران اماں مسز ڈو سے بد بودار جرابیں دھلائی کے لئے اکھٹی کرتے وقت گفتگو کے دوران کہا ۔مسز ڈو نے گندی جرابوں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوے کہا ،”لگتا ہے یہ خود ہی اٹھ کر چل پڑتی ہیں ۔ساتھ ہی اماں کی کہی گئی بات کا جواب دیتے ہوے بولی ،”اگر وہ ناپسندیدہ بیوی کا بچہ ہو تو ایسا نہیں ہوتا ۔وہ ‘فالتو ‘ ہوتا ہے “
“ کیا والدین کی طلاق ہو گئی ہے ؟” ۔
“ کیا پتہ “
لیکن باپ کی دوسری بیوی یا داشتہ ضرور ہے ، لڑکے کی ماں کی اب خاندان میں کوئی جگہ نہیں ۔اس لئے لڑکے کو اب جانا ہے ۔”
اماں لن اس سوچ سے اداس ہو گئی کہ اتنا چھوٹا سا بچہ جو دنیا میں کوئی خاص جگہ نہیں لے رہا ،لیکن پھر بھی وہ دوسرے لوگوں کے رستے میں ہے اور اس سے چھٹکارا پانا ضروری ہے ۔ وہ ہجوم میں بچے کو تلاش کرنے لگی ۔اس نے دوسرے بچوں جیسے ہی کپڑے پہنے ہوے تھے لیکن اس پر کچھ جچ نہیں رہے تھے ۔اس کے کپڑے بہت بڑے ،بلکل نئے اور جدید تھے ،لیکن جس طرح وہ اس سکول کے لئے اجنبی تھا ،اسی طرح کپڑے اس کی شخصیت سے ہم آہنگ نہیں تھے ۔
اس کے ہاتھوں اور منہ کو ہمیشہ اچھی دھلائی کی ضرورت رہتی ۔جب اماں لن نے یہ خدمت اپنے سر لے لی تو اسے احساس ہوا کہ اس میں بچے یا نگران اماں کی کوئی غلطی نہیں ۔
دوسرے ہفتے کانگ نے سہہ پہر کی مصروفیات کے بعد لانڈری میں آنا شروع کردیا ،” اماں یہ کیا ہے ؟ “ اس نے اماں سے ایک دن جب وہ اس کی گالوں پر بے بی لوشن سے مساج کر رہی تھی ،اس سے پوچھا ۔”ایسی چیز جو تمھیں شہری لڑکا بنا دے گی “ اماں کا جواب تھا ۔
“ آپ کہاں رہتی ہیں “
“ میں یہیں پر رہتی ہوں ۔”
“لیکن یہاں آنے سے قبل ۔آپ کے خاوند کا گھر کدھر ہے ؟ “
اماں نے ایک لمحے کے لئے سوچا ،پھر بولی “ شہر میں “ ۔
“شہر کیسا ہوتا ہے ؟” میری ماں نے مجھے شہر دکھانے کا وعدہ کیا ہوا ہے ۔”
تمھاری ماں کہاں ہے ؟ “ اماں نے اپنا سانس روک کر تا کہ دل کی دھڑکن اونچی سنائی نہ دے پوچھا ۔لڑکے نے اماں کی اس کیفیت کو توجہ دئے بغیر کہا ،”گھر پر “ ۔
“ تمھارے باپ کے گھر ؟”
“میرے نانا کے گھر ۔میرے باپ کے گھر میری نئی ماں رہتی ہے “ ۔
“ تمھاری نئی ماں کیسی ہے ،کیا وہ خوبصورت ہے ؟ “
“ جی”
“ کیا وہ تمہارے ساتھ اچھی ہے ؟ “
“ جی “
“ کیا تم اسے پسند کرتے ہو ۔؟”
“جی “
کیا تم اپنی ماں کو بھی پسند کرتے ہو ؟ نئی ماں سے زیادہ؟ “ یہ پوچھتے ہوے اماں نے ارد گرد دیکھا کہ کہیں کوئی لانڈری کے قریب سے تو نہیں گزر رہا ،اسے اپنا آپ چور لگا ۔
لڑکا بھی گھبرا کر گھوما ،پھر اماں کے قریب آیا اس کی گردن میں باہیں ڈالیں ،اپنا منہ اس کے کان کے قریب کیا اماں نے اس کے سانس کی گر مآہٹ محسوس کی ۔”میں آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں گا ،آپ کسی کو مت بتانا ۔”
“ نہیں بتاؤں گی ۔”
“میری ماں نے کہا ہے کہ وہ ایک دن آ کر مجھے لے جاۓ گی ۔”
“ کب “
“اس نے کہا تھا ،جلدی “ ۔
“ اس نے یہ کب کہا تھا ؟ “
“ نئی ماں کے آنے سے پہلے ۔”
“ یہ کب ہوا تھا ؟ “
“ پچھلے سال ۔”
“ کیا تب سے تم نے اپنی ماں کو دیکھا ؟
“ نہیں ،لیکن اس نے کہا تھا ،وہ آۓ گی ۔اگر میں اپنے باپ اور نئی ماں کو ناراض نہ کروں تو ————-
“اماں تمھارا کیا خیال ہے جب وہ آۓ گی تو چوکیدار اسے اندر آنے دیں گے ؟ “
“ بلکل میرا یقین ہے ،وہ اسے آنے دیں گے ۔”اماں نے جواب دیا ۔
لڑکے سے بے ی لوشن ،صاف دھلے کپڑوں اور صاف پسینے کی خوشبو آ رہی تھی ۔اماں کو غسل کے بعد والا اولڈ ٹینگ یاد آ گیا ۔اس یاد سے اس کے ہونٹ خشک ہو گئے ،اسے لڑکے کے بازو گرم اورچپچپے محسوس ہونے لگے ۔
جمعہ کی سہ پہر کو سکول گیٹ کے باہر پارکنگ کا علاقہ لگثری کاروں سے بھر جاتا ۔ڈرائیور اور آیائیں آتیں ،بعض اوقات والدین بھی آ جاتے ۔اساتذہ اور نگران مائیں گیٹ کے اندر کھڑی ہوتیں اور ایک دوسرے کو بتاتیں کہ کون حکومتی طاقت ور شخصیت کی بہو ہے اور کوں تازہ ترین کامیاب فلم کی ہیروئن ہے ۔
کانگ اکلوتا بچہ تھا جو ہفتے کے اختتام پر بھی ادھر ہی رہتا ۔اس کا باپ اس کے لئے زائد فیس ادا کرتا تھا اور سمیسٹر کے اختتام پر آنے کا وعدہ کر رکھا تھا ۔اماں لن یہ سوچ کر پریشان ہوتی کہ اگر گرمیاں آنے پر بھی بچے کا باپ یا کوئی اور بچے کو لینے نہ آیا تو کیا ہو گا ۔پھر وہ اپنے بارے میں سوچتی ،اگر اسے ان دو مہینوں میں یہاں رہنے کی اجازت نہ ملی تو وہ خود کدھر جاۓ گی ۔
جب سب بچے چلے جاتے تو اساتذہ اور نگران مائیں شٹل بس کے زریعے شہر چلی جاتیں ۔دو چوکیدار اور اماں لن پیچھے رہ جاتے ۔اس نے اپنی خوشی سے کانگ کی دیکھ بھال کی زمہ داری لے لی تھی ۔وہ دونوں سکول گیٹ کے پاس کھڑے ہو کر بس کی طرف ہاتھ ہلاتے ۔بس کے جانے کے بعد کانگ تیر کی طرح ایکٹویٹی روم پہنچتا تصاویر والی کتاب میں تصاویر دیکھتا اماں اس کے ساتھ بیٹھ کر اس کے بال سہلاتے ہوۓ اسے خود سے ہنستے دیکھنے لگتی جب وہ ساری نئی کتابیں دیکھ لیتا تو دونوں اکٹھے باہر نکلتے اور گراؤنڈ میں کھیلنے لگتے ۔اماں اس کے جھولے کو جھلانے لگتی یہاں تک کے وہ بہت اونچا جھولنے لگتا ۔ کانگ بے قرار خوشی اور خوف سے چلانے لگتا ۔
جب موسم اچھا ہوتا تو وہ پہاڑوں کی طرف لمبی سیر کے لئے نکل جاتے ۔اختتام ہفتہ کے سیاح علاقے میں جمع ہو جاتے لیکن اماں اور کانگ دو ایسے سیاح ہوتے جو نہ تو بس کھو جانے اور نہ ہی ٹریفک جام میں پھنس جانے سے پریشان ہوتے ۔ وہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ٹہلتے ۔دونوں کی ہتھیلیاں ایک دوسرے سے ملی ہوتیں ۔دونوں کو پسینہ آ رہا ہوتا ۔اماں اسے پھولوں اور گھاس کی پرانی کہانیاں سناتی ۔۔جب پرانی ختم ہو جاتیں تو اپنے سے نئی گھڑ لیتی ۔۔
ڈنر کے بعد اماں اسے باتھ روم لے کر جاتی ،باہر کھڑی تولیہ اور کپڑے لئے اس کا انتظار کرتی ۔ وہ اندر نہاتے ہوے اس کا سکھلایا ہوا سرخ ڈریگن فلائی /بھنبھیری کا گیت گاتا ۔ہمیشہ دو منٹ گزرنے کے بعد چینخ کر پوچھتا ،کیا وہ باہر آ جاۓ ۔وہ اسے بتاتی پانچ منٹ مزید نہانا اچھا رہے گا ۔۔بچہ گاتا رہتا ۔۔
عموما”پانی بند کئے بغیر باہر چھلانگ لگاتا ۔اماں ایسے ظاہر کرتی جیسے وہ اس کی اس حرکت سے بوکھلا گئی ہو ۔وہ کھلکھلاتا ہوا بھاگتا یہاں تک کے اماں اس کے پانی ٹپکاتےجسم کو تو لئے میں لپیٹ دیتی ۔۔رات کو سوتے ہوے خواب میں بڑبڑاتا ۔بازو اور ٹانگیں کمبل کے اوپر چاروں طرف پھیلاتا ۔اماں اسے کمبل میں لپیٹتی اور دیر تک اسے دیکھتی رہتی ۔انجان سی گرمجوشی اسکے اندر پھوٹتی ،وہ سوچتی کیا یہ محبت ہے ۔زندگی کا ہر لمحہ کسی کے ساتھ گزارنے کی خواہش اور وہ اپنے آپ سے ڈرنے لگتی ۔
اماں لن کو ہی سب سے پہلے جرابیں گم ہونے کا احساس نہیں ہوا تھا ،بلکہ نگران اماں لگاتار دو ہفتوں سے اسے بتا رہی تھیں کہ لڑکیاں اپنی پسندیدہ جرابیں لانڈری سے گم ہونے کی شکایتیں کر رہی ہیں ۔اب اسے پتہ چل چکا تھا کہ جرابیں کہاں گم ہو رہی تھیں ۔اس نے اکثر کانگ کو دیکھا کہ وہ لڑکیوں کی جرابیں اٹھاۓ ہوتا ۔اس کے دیکھنے پر وہ انہیں باسکٹ میں ڈال دیتا ۔
اگلے ہفتے کانگ جب ایکٹوٹی روم میں کمپیوٹر پر مصروف تھا تو امان نے اس کے بستر کی تلاشی لی ۔لیکن اس کے گدے کے نیچے جہاں اکثر چیزیں چھپائی جاتی ہیں اسے کچھ نہیں ملا ۔اس نے کمبل تہ کیا تکیے اٹھاۓ ،تکیوں کے غلاف کھولے تو اسے اندر پانچ موزے نظر آۓ جن کے نومولود چھوٹے چھوٹے خرگوشوں کی طرح بنڈل بنے ہوۓ تھے ۔
اماں نے انہیں کھولا ،وہ کارٹونوں اور پھولوں کے مختلف ڈیزائنوں والی جرابیں تھیں ۔پہلے اماں نے انہیں اپنی جیب میں ڈالنے کا سوچا لیکن پھر یہ سوچ کر رک گئی کہ کانگ انہیں ڈھونڈے گا ۔اس نے انہیں اسی طرح تہہ کر کے واپس رکھ دیا ۔
سوموار کو اماں نے سپروائزر سے آدھے دن کی چھٹی لی ۔بس میں بیٹھ کر شہر گئی وہاں سے ویسے ہی ڈیزائین کی جرابیں ڈھونڈیں ،ان کے علاوہ بھی خوبصورت جرابیں خریدیں ۔
اماں اب لانڈری میں زیادہ محتاط ہو گئی ۔وہ کانگ کے آنے سے قبل ہی یقین کر لیتی کہ تمام لڑکیوں کی جرابیں ان کے تھیلوں میں پہنچ گئی ہیں ۔وقتا”فوقتا” شہر سے خریدی گئی جرابیں ادھر ادھر پھیلا دیتی ۔
وہ اب بھی ہفتے کی آخری دن خوشی خوشی گزارتے ،لیکن وہ کانگ کے لئے پھینکی گئی جرابوں کے گم ہونے پر پریشان ہوتی ،اس سے پوچھنے کا سوچتی کہ وہ ان کا کیا کرتا ہے ،لیکن ہر بار خاموش ہو جاتی ۔ہفتے کے اختتام پر جب وہ دونوں پھولوں کی بیل کے پاس بیٹھے ہوتے تو وہ سوچتی کیا یہی وہ محبت ہے جس سے وہ جوانی میں محروم رہی ۔
موسم گرم تر ہوتا گیا۔نگران ماؤں نے ہر بستر پر مچھر دانی رکھنا شروع کر دی ۔پہلی رات کانگ کے پلنگ کے ساتھ والا لڑکا نگران اماں کے جانے کے بعد اٹھ بیٹھا ، چھوٹی سی فلیش لائیٹ ہاتھ میں پکڑے اپنا سر کانگ کی مچھر دانی میں ڈال دیا ۔فلیش لائیٹ کانگ کی آنکھوں میں چمکی ۔کانگ لڑکے کی امید کے خلاف خاموش رہا ۔وہ لڑکا کانگ کو اپنے ہاتھوں پر پھولدار جرابیں چڑھائے اپنے گالوں کو سہلاتے دیکھ کر حیران اور خوش ہوا ۔ نگران ماؤں کو بلایا گیا ۔مزید سات جرابیں پائی گئیں ،اگلے دن کے اختتام تک سکول میں ہر کسی کو اس بیمار بچے کے بارے میں معلوم ہو گیا تھا ۔جو لڑکیوں کی جرابیں چراتا اور عجیب سی حرکتیں کرتا ہے ۔ اماں لین لڑکوں کو کانگ کی پیچھے بھاگتے اسے بیمار ،سائیکو اور فحش لڑکا جیسے القابات سے پکارتے دیکھتی تو اس کا دل ایسے نچڑتا جیسے کپڑے کا ٹکڑا واشنگ مشین ۔
کانگ کا داخلہ لانڈری میں ممنوع ہو گیا ۔وہ ہفتہ ختم ہونے کے دن گننے لگی ۔ایسے لگ رہا تھا کہ تین دن گزرنے سے پہلے ہی وہ ٹوٹ جاۓ گی ۔
جمعہ کی سہہ پہر جب وہ سکول گیٹ کے سامنے کھڑے تھے تو اماں لین کو زبردستی کانگ کا ہاتھ پکڑ کا اٹھا کر ہلانا پڑا .
“ کانگ ،اماں کے کمرے میں آؤ “ ۔اماں نے کانگ سے کہا ۔ “ نہیں میں نہیں آنا چاہتا ۔” کانگ نے اماں سے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوے کہا ،” میں چہل قدمی کے لئے نہیں جانا چاہتا ۔”
“ کل نئی کتابیں آئی ہیں ،انہیں پڑھنا کیسا رہے گا ؟ “
“ میں پڑھنا نہیں چاہتا “ ۔
“ چلو جھولا جھولتے ہیں “
“ میں کچھ بھی کرنا نہیں چاہتا ۔” کانگ نے اماں کا ہاتھ اپنے کندھے سے جھٹکتے ہوے کہا ۔اماں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔اس نے کانگ کے سر پر دیکھا ۔کسی سے محبت کرنا اسے خوش کرنا ہوتا ہے ۔چاہے وہ اس قابل ہے کہ نہیں ۔ “ کچھ ایسا سوچو جو ہم مل کر کر سکتے ہیں ۔جو تم کرنا چاہتے ہو ۔اماں تمھارے لئے وہی کرے گی ۔تم جانتے ہو کہ اماں تم سے پیار کرتی ہے ۔”
“ میں گھر جانا چاہتا ہوں ۔ میں اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہوں ۔کیا خیال ہے ہم دو دن کے لئے گھر جا سکتے ہیں ۔”
اماں نے اس کی آنکھوں میں چھوٹی سی امید کی کرن دیکھی ۔ کانگ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔” صرف دو دن کسی کو پتہ نہیں چلے گا ۔” اماں نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوے کہا ۔” مجھے معاف کر دو ،اماں تمھارے لئے یہ نہیں کر سکتی ۔”
“ لیکن کیوں ؟ تم نے کہا ہے تم کچھ بھی کرو گی ۔”
“ کچھ بھی ،یہاں ادھر سکول میں ،پہاڑوں پر ۔پیارے بچے ،ہم سکول نہیں چھوڑ سکتے “۔ کانگ رونے لگا ۔اماں اسے خاموش کرانے کی کوشش کرنے لگی ۔اسے اپنی با ہوں میں بھر لیا ۔ کانگ نے اسے پرے دھکیلا ۔اس کی آنکھوں میں ناراضگی کی سرد مہری تھی ۔جو اماں نے اولڈ ٹینگ کی آنکھوں میں دیکھی تھی ۔کانگ سکول گراؤنڈ کی طرف بھاگ گیا ۔ اماں اس کے پیچھے بھاگی لیکن جلد ہی اسے سانس پھولنے کی وجہ سے رکنا پڑا اس کے بوڑھے جسم نے اس کے جوان دل کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا ۔
اماں نے سوچا کانگ اپنے بستر پر لیٹا رو رہا ہو گا ،لیکن وہ وہاں نہیں تھا وہ اسے سکول کی عمارت میں آوازیں دیتی پھرتی رہی ۔ہر کھلے دروازے ،ایکٹویٹی روم ،ڈائینگ ہال کے اندر دیکھا ۔ میزوں کے بیچے ،پردوں کے پیچھے ڈھونڈا ۔ہر ناکامی پر اس کا دل بیٹھ جاتا ۔
ایک گھنٹہ کی تلاش کے بعد اس نے سوچا شاید لڑکا سکول کی عمارت سے باہر نکل گیا ہو ۔اس سوچ نے اسے مفلوج ہی کر دیا ۔ ہر قسم کی بربادی کا سوچتے ہوے اس نے چوکیدار وں کو بلایا ۔وہ سکول گیٹ کے ساتھ چھوٹے کمرے میں پوکر کھیل رہے تھے ۔دونوں میں سے کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ لڑکا گیٹ سے نکلا ہے ۔ دونوں کا اصرار تھا کہ لڑکا بلڈنگ ہی میں کہیں چھپا ہوا ہے ۔تینوں نے مل کر دوبارہ ڈھونڈا ۔جب کچھ حاصل نہ ہوا تو پریشان کن خیالات سے تینوں گھبرا گئے ۔پولیس کو بلایا گیا ۔سپروائزر کو اطلاع دی گئی ۔نگران مائیں آگئیں ۔چوکیدار وں نے ادھر ادھر فون کیے ۔اماں نے سوچا ،چوکیدار وں کا صرف اختتام ہفتہ کا سکون برباد ہو رہا ہے ۔زیادہ سے زیادہ ان کی مہینے کی تنخواہ ضبط ہو گی ۔وہ دونوں متولی کے رشتہ دار تھے ۔۔لڑکے آۓ روز غائب ہوتے رہتے ہیں ۔اگر وہ نہ ملا تو بھی سب ایک سال میں بھول جائیں گے ۔اس سوچ سے ہی اماں رونے لگی ۔اس سارے ہنگامے کے دوران کانگ خود ہی نمودار ہو گیا ۔اسے کچھ نہیں ہوا تھا وہ صرف بھوکا تھا اور اسے نیند آ رہی تھی ۔جب اماں اسے ڈھونڈ رہی تھی تو وہ شاید اس کے ساتھ چھپن چھپائی کھیل رہا تھا یا شاید وہ اس کی بات نہ ماننے پر اماں کو سزا دے رہا تھا ۔اس نے سپروائزر کو بتایا کہ وہ پیانو کے نیچے سو گیا تھا ۔
اماں کو یاد تھا کہ اس نے پیانو کے نیچے دیکھا تھا ،لیکن کوئی بھی بوڑھی عورت کی یادداشت پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا ۔اس نے اپنے آپ کو نا اھل ثابت کر دیا تھا ۔مزید باتیں دہرائی گئیں جن میں طلبا کا راشن غائب کرنا اور لانڈری میں غفلت جیسے الزامات سامنے آئے ۔جس رات طلبا واپس آئے اماں کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا ۔ اس کا سامان باندھ کر گیٹ کے پاس رکھ دیا گیا ۔کپڑے کا ہلکا پھلکا تھیلا جو بوڑھی عورت کے لئے اٹھانا مشکل نہیں تھا ۔
“ محبت کی خوشی ٹوٹتے تارے کی مانند ہے جب کہ محبت کا دکھ اس کے بعد کی تاریکی ہے ۔”گلی میں ایک لڑکی یہ گاتے ہوے اماں کے پاس سے گزری ۔ اماں نے لڑکی کے ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش کی ۔لیکن لڑکی پھرتیلی تھی ۔اماں نے سانس بحال کرنے کے لئے تھیلا زمین پر رکھا ۔سٹیل کا ٹفن دوسرے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا ۔گلی سے گزرتے ہر شخص کو اپنی منزل کا علم تھا ،لیکن وہ ان میں سے نہیں تھی ۔وہ حیران تھی کہ وہ کب ان سے جدا ہوگئی ۔
کوئی دوڑتا ہوا اماں کو دھکا دیتا اس کے پاس سے گزرا ۔وہ لڑکھڑا ئی اور گرنے سے پہلے ایک آدمی کو اس کے تھیلے کے ساتھ ہجوم میں غائب ہوتے دیکھا ۔ایک عورت نے رک کر پوچھا ،” آپ خیریت سے ہو اماں ؟ ۔اماں نے اٹھتے ہوے سر کے اشارے سے اسے جواب دیا ۔عورت نے اپنا سر جھٹکتے ہوۓ پاس سے گزرتے شخص کو اونچی آواز سے بتایا ،” کیسی دنیا ہے ؟ ۔کسی نے بوڑھی اماں کو لوٹ لیا ہے ۔”کچھ نے تاسف کیا ۔وہ عورت سر ہلاتی آگے بڑھ گئی ۔
اماں سڑک پر بیٹھ گئی ۔اپنے ٹفن کو پیار کیا ۔لوگ بھوکے ہیں ،لیکن عجیب بات ہے کبھی کوئی بوڑھی عورت کا ٹفن چرانے کا نہیں سوچتا ۔اسی وجہ سے وہ کبھی اپنی کسی اہم چیز سے محروم نہیں ہوتی ۔تین ہزار یوآن جو برخاستگی کے ہرجانے کے طور پر ملے تھے ٹفن میں محفوظ تھے ۔ان کے ساتھ ہی بن کھولے جرابوں کے بنڈل بھی موجود تھے ،رنگدار پھولوں کے ڈیزائین والے ۔اس کی مختصر محبت کی کہانی کی سوغات ۔
Original Title: *Extra*
Written by:
*Yiyun Li *(born November 4, 1972) is a Chinese-born writer and professor in the United States.
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...