"یہی ہے رختِ سفر" طلعت جاوید کی ترتیب و تدوین کی گئی ہے جو اُن کے والدِ محترم جناب خدا بخش آسی (مرحوم ) پرنسپل ریٹائرڈ میونسپل کالج میاں چنوں کی پُرجوش شخصیت پہ لکھی گئی ہے اس میں ان کے دوست, احباب,طالب علم, اور بچوں کے مضامین شامل ہیں, مجھے یہ کتاب ریٹائرڈپرنسپل منیر ابنِ رزمی
صاحب نے بطورِ تحفہ عنایت کی جیسے پڑھ کر مجھے خدابخش آسی مرحوم کے بارے میں معلومات ہوئیں اور اس میں موجود محترم منیر ابنِ رزمی صاحب کے مضمون نے مجھے بہت حد متاثر کیا, آپ ماشاللہ جب بھی لفظوں کا جال بُنتے ہیں تو اپنے قاری کو اپنے لفظوں کے سحر میں جکڑ لیتے ہیں آپ کی شخصیت کا کمال ہے کہ جب میں پہلی بار ملی تو مجھے لگا جیسے غالب کو اپنے سامنے چلتے پھرتے باتیں کرتے ملاحضہ کر رہی ہوں, آپ کے بات کرنے کا انداز اور الفاظ کی ادائیگی غالب سے متشابہ نظر آتی ہے, آپ کی تحریر پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم غالب کے مکتوبات کا مطالعہ کر رہے ہوں, محترم رزمی صاحب کا مضمون "فاصلے نہیں مٹتے"صفحہ نمبر 155 سے لیکر صفحہ نمبت234 تک مشتمل ہے جو کہ اس کتاب کے تمام مضامین سے زیادہ طوالت پہ مبنی ہے اور اس میں آپ کے آسی صاحب کے گزارے تمام لمحات کا احاطہ کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے اور مجھے بطورِ قاری آپ کا مضمون پڑھ کر بہت اچھا لگا,,,, اس میں آپ نے کالج کے زمانے کا ایک واقع بیان فرمایا ہے جو کہ میں کبھی نہیں بھول سکتی بہت لطف اندوز واقع ہے,,,, کہ جب جناب اپنے احباب کے ساتھ کسی ہوٹل سے چائے نوش فرما چکے تھے اور اُس کی ادائیگیِ قیمت کے لیے پیسے نا دینے کی وجہ سے آسی صاحب نے سب کو تنبہ فرمائی,,,, اور یہ کتاب آسی صاحب کی زندگی کا جیتا جاگتا سچ اور ثبوت ہے جس میں آپ کے بچپن سے لیکر تمام زندگی کے لمحات درج ہیں,,,, آپ بہترین شاعر,نامور ادیب ماہرِ تعلیم, درد مند مسلمان, اور ایک بہترین ادارہ کے منظم تھے….محترم منیر رزمی صاحب کا مضمون جن الفاظ سے اختتام پزیر ہوتا ہے وہ واقع ہی سوچ کو ایک صحرا میں لے جا کر چھوڑ دیتے ہیں,
"جس نے بے شمار آنکھوں کو خواب اور چہروں کو زندگی کے رنگ عطا کیے تھے, جس نے میری بکھری سوچوں اور میرے ٹوٹے ہوئے لفظوں کو معنی عطا کیے تھے, صارفیت کے اس زمانہ بدحال میں" آسی صاحب"مجھے سمجھا رہے ہیں… میں اور کیا کہہ سکتا ہوں, آسی صاحب خواب کی طرح طلوع ہو رہے ہیں.
وہ جو یادوں میں بس جاتے ہیں
۔…………..کب جاتے ہیں
واقع ہی محترم منیر رزمی صاحب ٹھیک فرما ریے ہیں کہ……. وہ کب جاتے ہیں…یہ محترم منیر رزمی صاحب کے مضمون کے آخری الفاظ ہیں جو اُنھوں نے آسی صاحب اپنے اُستادِ محترم کے بارے میں فرمائے ہیں…. ایک علم کی شمع اتنی ساری شمعیں جلا کر خود اس جہانِ فانی سے رُخصت ہو گئی اور ہمیشہ کے لیے اپنی یادیں چھوڑ گئی……. ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک خدا بخش آسی صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے…… اور اُنھوں نے جو شمعیں روشن کی ہیں وہ ہمیشہ اپنے علم کی روشنی پھیلاتیں رہیں… آمین
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔