یہ تو ہوتا ہے‘ یہ تو ہوگا!
میرے معتبرذرائع کے مطابق دُنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کبھی نہیں بدل سکتیں۔میں آج اِن میں سے کافی ساری چیزیں آپ کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔انشاء اللہ اگر یہ کالم پچاس سال بعد بھی پڑھا گیا تو ہر چیز ویسی ہی ملے گی کیونکہ پچھلے پچاس سالوں میں بھی کچھ نہیں بدلاالبتہ کچھ جدید چیزیں ضرور شامل ہوگئی ہیں لیکن اِن کی نوعیت ایسی ہی رہے گی۔ مثلاً ٹی وی کے ریموٹ پر ربڑ ضرور چڑھایا جائے گا تاکہ سیل باہر نہ کھسک جائیں۔بیویاں شوہروں کو باور کراتی رہیں گی کہ کھانا تو ڈھنگ سے کھایا کریں۔گھر میں ہمسائی آئے گی تو شوہر کو بیوی کی طرف سے یہ جملہ سننے کو ملے گا’’تسی ذرا اندر چلے جاؤ‘‘۔گاڑی یا موٹر سائیکل دھوتے وقت پانی کا پائپ لازمی ٹونٹی سے اترے گا۔بال پوائنٹ پین کبھی ختم نہیں ہوگاہمیشہ گم ہوگا۔
جن کپڑوں کو آپ ہینگر میں لٹکا کر نہ دھونے کی ہدایت کرکے جائیں گے واپسی پر پتا چلے گا کہ وہ دُھل کر سوکھنے کے لیے ڈالے ہوئے ہیں۔رات سوتے وقت جونہی بیوی پوچھے گی کہ مین گیٹ کو تالا لگایا ہے ‘ فوراً شک ابھرے گا کہ شائد نہیں لگایا۔بیویاں ہمیشہ یہ طعنہ دیتی رہیں گی کہ بچے بھی بدتمیزی میں آپ پر گئے ہیں۔فیس بک پر ہر وہ پرانی کلاس فیلو مل جائے گی جسے نہیں ملنا چاہیے۔ کسی مارکیٹ میں گاڑی روکتے ہی غباروں والا آپ کے پاس آجائے گا اورخریدنے کی التجا کرے گا‘ آپ اُسے سمجھاتے رہ جائیں گے کہ بھائی اب یہ بچوں والے غبارے میرے کسی کام کے نہیں۔ہینڈز فری جتنی مرضی مہنگی اور Base والی خرید لیں‘ اُس کے ایک طرف کی آواز لازمی بند ہو گی۔کچن میں کھانا بناتے ہوئے ہمیشہ دوسرے کمرے سے شوہر کی آواز آتی رہے گی ’’شکیلہ ذرا چارجر پھڑا دے‘‘۔کوئی باہر کا رشتہ دار جب بھی آئے گا لارا لگاجائے گا کہ بس اپنا پاسپورٹ تیار رکھنا اگلی دفعہ ساتھ لے جاؤں گا۔اپنے سے زیادہ صاحب حیثیت لوگوں کو دیکھ کر دل سے آواز نکلتی رہے گی’’سب حرام کا مال ہے‘‘۔
آپ کسی بھی اچھے ہوٹل میں چلے جائیں، واش روم میں صابن ’تبت‘ کا ہی ملے گا۔۔۔حالانکہ ’اور بھی صابن ہیں تبت کے سوا۔مہمان کی دعوت پر کبھی دال یا سبزی نہیں پکے گی، چکن یا مٹن لازمی ہے ، بے شک مہمان سبزی کو ترستا رہ جائے۔ سالگرہ پر کیک ہی کاٹا جائے گا، کبھی ایسا دیکھنے کو نہیں ملا کہ کسی نے پیزے پرموم بتی جلائی ہو۔جنازوں میں کٹا ہوا فروٹ ہی ملے گا، حالانکہ ثابت کیلا رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔گٹکیں کھجور کی ہی پڑھی جائیں گی۔حالانکہ اور بھی پھل گٹکوں کی صلاحیت رکھتے ہیں۔محبت کا اظہارI love you سے ہی ہوگا، I like you سے بات نہیں بنے گی۔جوئیں انگوٹھے پر ہی رکھ کر ’ٹک ‘ کی جائیں گی حالانکہ باقی انگلیوں کے ناخن بھی یہ فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں۔بالآخر شوہر ہی ’سوری‘ کرے گا ۔۔۔اسے ہی کرنی چاہیے۔گلہ خراب ہونے کی صورت میں ڈاکٹر سے یہ ازلی سوال ضرور پوچھا جائے گاکہ’کوئی پرہیز؟‘ ۔۔۔اور ڈاکٹرابدی جواب دے گا کہ مصالحے والی اور کھٹی چیزوں سے پرہیز کریں۔ڈاکٹر سے علاج کرایا جائے گا، گولیوں کا ڈھیر خریدا جائے گا اور تین دن بعد گولیاں ویسے کی ویسے پڑی رہ جائیں گی۔ایک انچ کا کیل ٹھونکتے وقت دیوار کا پانچ انچ پلستر ضرور اترے گا۔
جوس کے ڈبے کا آخری سپ وہی تصور ہوگا جب ’گڑ گڑ‘ کی آواز آئے گی حالانکہ بعض اوقات یہ آواز بلاوجہ بھی آجاتی ہے۔مہمان اگر تین گھنٹے بیٹھے گا تو رخصت ہوتے ہوئے دروازے میں چھ گھنٹے کا ٹائم مزید لے گا۔شادی میں سلامی دیتے وقت لفافے پر اپنا اور فیملی کا تعارف جلی حروف میں لکھا جائے گا۔گھر میں بیس تالے لگانے کے باوجود سائیکل ضرور چوری ہوگا۔چھ خربوزوں میں سے ایک ضرور پھیکا نکلے گا۔گھر میں بے شک کاٹن بڈ موجود ہو، کان میں گاڑی کی چابی ضرور پھیری جائے گی۔ٹوتھ پکس سامنے بھی پڑی ہو پھر بھی ماچس کی تیلی سے خلال کیا جائے گا۔بیگم کی عدم موجودگی میں فریج میں پڑی پانی کی بوتل منہ لگا کر ہی پی جائے گی۔شیمپو کے اختتام پر شیمپو کی بوتل میں پانی ڈال کر غسل کیاجائے گا۔
یو پی ایس کی بیٹری میں اُس وقت تک پانی نہیں ڈالا جائے گا جب تک چارجنگ کا ٹائم آدھا گھنٹہ نہ رہ جائے۔اپنے ہر کم تر رشتہ دار کو پینڈو کے لقب سے ضرورنوازا جائے گا۔رات کو گھر کا جو بھی فرد پانی پینے کے لیے اٹھے گا، سب کی آوازیں آنا شرو ع ہوجائیں گی’’مینوں وی اک گلاس دئیں‘‘۔خراب پھل، خراب کھانا اور سڑی ہوئی روٹی ہمیشہ فقیر کو پیش کی جائے گی۔گھر میں تمام تر بے برکتی کا ذمہ دار شوہر حضرات کو ٹھہرایا جائے گا۔تولئے ہمیشہ باتھ روم سے غائب ہوں گے اور آوازیں دے دے کر منگوانے پڑیں گے۔بیویاں ہمیشہ شکوہٰ کرتی رہیں گی کہ ’’مجھے تو ٹی وی دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا‘‘۔گھر سے ہمیشہ کسی نہ کسی بچے کا فون آتا رہے گا کہ ’’بابا انٹرنیٹ نہیں چل رہا‘‘۔بجلی کا بل ہمیشہ اُس وقت آئے گا جب پیسے ختم ہوچکے ہوں گے۔گھر میں جب بھی چکن بنے گااُسی دن ختم ہوجائے گا، بینگن بنیں گے تو ایک ہفتے تک فریج میں پڑے رہیں گے۔
بجلی تین چار گھنٹوں کے لیے جائے گی تو طعنے شوہروں کو پڑیں گے۔خاوند حضرات جب بھی ڈیڑھ درجن انڈے لے کر آئیں گے، ایک لازمی ٹوٹ جائے گا۔سگریٹ پینے والے شوہروں کو ہمیشہ ایش ٹرے کی بجائے کپ میں سگریٹ بجھانے پر سوسو باتیں سننا پڑیں گی۔اتوار کے دن لازماً گھر میں کوئی نہ کوئی فساد ہوگا۔بیویوں کو ہمیشہ لڑائی کے دوران پچیس سال پرانے شکوے یاد آئیں گے۔پرانے کپڑے غریبوں کو دیتے وقت 10 میں سے 9 جوڑے اپنے آپ کو ہی دوبارہ پسند آجائیں گے۔گھر میں بے شک ہر وقت سر درد کی گولیوں کے انبار لگے رہتے ہوں، عین اس وقت جب سر درد ہوگی پتا چلے گا کہ گولیاں ختم ہیں۔رات کو اکثر موبائل چارجنگ پر لگا کرصبح پتا چلے گا کہ پن ٹھیک سے نہیں لگی تھی۔گاڑی کے ڈیش بورڈ میں پڑے خیراتی سکے اکثر اپنے ہی کام آئیں گے۔عین کھانے کے وقت باتھ روم جانا یاد آئے گا۔رات بستر پر لیٹتے ہی بیگم کی آواز آئے گی’صبح بل جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے۔بیگم کو اگر دو ہزار روپے کی ضرور ت ہو اور آپ کے پاس پانچ ہزار کا نوٹ ہو تو انشاء اللہ رات کو آپ کو یہی اطلاع ملے گی کہ کچھ اور ضروری چیزیں بھی منگوانی تھیں لہذا پورے پانچ ہزار ختم ہوگئے ہیں۔گھر میں جس دن مقدار سے زیادہ چکن اور پھل آئیں گے اسی دن اتفاقاً سسرال والے بھی آجائیں گے۔شیونگ کریم عین اس دن ختم ہوگی جب آپ کو ضروری میٹنگ میں جانا ہوگا، مجبوراً شیمپو سے کام چلانا پڑے گا۔شوہر وں کو ہمیشہ یہ جملہ سننے کو ملتا رہے گا’کچھ مستقبل کے بارے میں بھی سوچیں۔شوہروں کو کبھی عقل نہیں آسکے گی کہ کون سی پلیٹ میں سالن ڈالتے ہیں اور کون سی پلیٹ میں روٹی۔۔۔حالانکہ الحمدللہ ہم شوہر اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیدھی پلیٹ میں شوربہ ڈالتے ہیں اور گول پلیٹ میں روٹی۔۔۔!!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“