جس طرح کی تصویر ساتھ لگی ہے، اس طرح کی تصاویر آپ نے شاید دیکھی ہوں۔ لیکن یہ تصویر ٹھیک نہیں۔ کیوں؟ اس کو جاننے کا آغاز ایک سوال سے
سائیکل جرمنی میں کیوں ایجاد ہوئی؟
کیونکہ انڈونیشیا میں آتش فشاں پھٹا تھا
اگر اس بظاہر بے ربط لگنے والے جملے کے ٹکڑے شرلاک ہومز کی طرح جوڑے جائیں تو ساتھ میں یہ بھی پتہ لگ جائے گا کہ ساتھ والی تصویر کیوں غلط ہے۔
انیسویں صدی کے آغاز پر 1810 سے 1815 کے دوران جنوب مغربی بحرالکاہل میں چار بڑے اور کئی چھوٹے آتش فشاں پھٹے تھے۔ یہ پیسیفک اور فلیپینو پلیٹس کے درمیان کی ایکٹیویٹی کا نتیجہ تھا۔ ان میں سے آخری اور سب سے بڑا ماؤنٹ تمبورا تھا جو انڈونیشیا کے جزیرے پر تھا۔ یہ سترہ سو سال میں پھٹنے والا سب سے بڑا آتش فشاں تھا۔ آتش فشانی عمل سے سلفر خارج ہوتی ہے جو گرین لینڈ کی برف میں آج بھی بالکل واضح دیکھی جا سکتی ہے لیکن آتش فشانی عمل کی پھیلتی راکھ نے دنیا کا درجہ حرارت کم کر دیا تھا۔ 1816 کو وہ سال کہا جاتا ہے جب گرمی نہیں پڑی تھی۔ اس کو عالمی غربت کا سال بھی کہا جاتا ہے۔ پوری دنیا کا موسم بدل گیا تھا۔
برِصغیر میں مون سون دیر سے آیا اور گنگا سے بنگال تک ہیضہ پھیل گیا۔ بھینسوں کو چارہ نہ ملا اور بڑے پیمانے پر مویشیوں کی موت ہوئی۔ چین میں چاول کی فصل ناکام ہو گئی، درخت مر گئے، یانگ زی کے سیلاب نے آبادیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچایا۔
برطانیہ میں کم درجہ حرارت کی وجہ سے فصلوں کی ناکامی ہوئی۔ ویلز میں بھکاریوں کی تعداد اتنی بڑھی کہ وہاں سے لوگ بھیک مانگنے دوسرے حصوں میں جانے لگے۔ سویٹزرلینڈ میں سردی کی وجہ سے برف کا ڈیم بن گیا جس کی وجہ سے ہونے والی پانی کی رکاوٹ سے جھیل بنی۔ انجینرز کی کوششوں کے باوجود اس کے یکایک ٹوٹ جانے سے تباہی ہوئی۔ جرمنی میں شدید بحران آیا۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں اس قدر بڑھیں کہ ہنگامے، مظاہرے اور لوٹ مار شروع ہو گئی۔ یہ احتجاج، لوٹ مار اور بے چینی برطانیہ اور فرانس تک پہنچ گئی۔ امریکی کے مشرقی حصے میں سرخ دھند چھا گئی جو ہٹتی نہ تھی۔ شمال مشرقی امریکہ میں خورک کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔ مہنگائی اتنی بڑھی کہ جو کی قیمت دو سالوں میں 12 سینٹ فی بشل سے بڑھ کر 92 سینٹ تک جا پہنچی۔ تجارت کے بڑے نیٹ ورکس کی عدم موجودگی میں کسی مقامی غذائی قلت کو دور سے سامان لا کر پورا بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ صرف آئرلینڈ میں اس وجہ سے پڑنے والے قحط سے ایک لاکھ اموات ہوئیں۔
اس دور کی تباہ کاریوں کے نقش آرٹ، کہانیوں اور نظموں میں پوری دنیا میں نظر آتے ہیں۔ فرینکسٹین اور ویمپائیر کے کردار تخلیق ہوئے اور لارڈ بائرن کی نظم 'تاریکی' جس میں دوپہر کے وقت رات کا اندھیرا ہے اور ٹرنر کی زرد تصاویر۔
دنیا میں اور مُغل انڈیا میں اس واقعے کے نتیجے میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کی اپنی الگ کہانیاں ہیں۔ مغل زوال میں تیزی، برِصغیر میں انگریزوں کے اثر کے اضافے، امریکہ میں نئی ریاستوں کے بسنے اور یورپ میں ہونے والی کئی تبدیلیاں اس سے ہونے والی ڈومینو ایفیکٹ ہیں۔
گھوڑوں کے بڑی تعداد میں مر جانے سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ پیدا ہوا۔ جرمن موجد کارل ڈریس نے ٹرانسپورٹ کے نئے طریقوں پر ریسرچ کی جو گھوڑوں کے بغیر ہو۔ اس کے نتیجے میں پٹڑی پر چلنے والی ہاتھ گاڑی اور ویلوسیپیڈ جو ابتدائی سائیکل تھی، ایجاد ہوئی۔ اس قحط کا شکار ہونے والے جسٹس وان لوبگ نے پہلی بار منرل کھاد متعارف کروائی۔
یہاں پر ایک بات یہ کہ سائنس، آرٹ، تہذیب، سیاست سبھی اپنے اندر واقعات کا فاسل رکھتے ہیں جن کی جینیولوجی کی جا سکتی ہے۔ گرین لینڈ میں برف کی کھدائی بھی اس واقعے کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں کی شکایت اپنے سلفر کانٹنٹ کی کے پیٹرنز کی صورت میں لگاتی ہے۔ زمین پر گزرے واقعات نہ صرف گرین لینڈ کی برف کی یادداشت کا حصہ ہیں بلکہ معاشرت کی ہر چیز کا۔ ہم اپنے دُکھ کئی طریقے سے بیان بھی کر لیتے ہیں اور مقابلے کے طریقے بھی ڈھونڈ سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ مستقبل کا مقابلہ کرنے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ماضی کو اچھی طریقے سے جانا جائے۔ اسی لئے ہم ہر طرح کی تاریخ پڑھتے ہیں۔ تمبورا کا آتش فشانی واقعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ زمین پر وسائل لامحدود نہیں اور اس پر رہنا ہمارا حق نہیں، ہمیں ملی بس ایک رعایت ہے۔ زمین پر ہونے والی معمولی سی تبدیلی بھی سب کچھ ہلا کر رکھ دیتی ہے۔
بحرالکاہل کے نیچے برِاعظمی پلیٹوں کے جوڑ پر ہونے والے اس عمل نے پوری دنیا میں انسانی معاشرت پر اثرات مرتب کئے۔ پوری دنیا میں انسانی معاشرت جڑی ہوئی ہے۔ اس وقت انسانی ایکٹیویٹی سے زمین کا ماحول بدل رہا ہے۔ انتہائی گرمی ہو، انتہائی سردی، فضا میں کوئی بھی گیس رہے نہ رہے، زمین کو اس سے بالکل فرق نہیں پڑتا۔ خطرہ زمین کو نہیں، اس کے اوپر بسنے والی نازک مخلوق کو ہے۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں مہنگائی ہو، مظاہرے، ہنگامے، جنگیں، قحط، اموات، حکومتیں الٹیں یا کسی بھی اور قسم کی افراتفری ہو، زمین کو اس سے بھی کوئی غرض نہیں۔
اس کو تفصیل میں جاننے کے لئے یہ کتاب
The Year Without Summer: 1816 and the Volcano That Darkened the World and Changed History: William Klingaman