یہ تماشا نہ ہوا
دنیا میں ایسے ملک پچاس سے زائد ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ چند ایک ایسی ریاستیں بھی ہیں جو اسلام کا لاحقہ لگاتی ہیں جیسے اسلامی جمہوریہ پاکستان، ایران اور افغانستان۔ اتفاق سے یہ تینوں ملک ایک دوسرے کے ہمسائے بھی ہیں البتہ یہ اتفاق نہیں کہ پاکستان اورافغانستان میں نجانے کیوں خدانخواستہ ناموس رسول و صحابہ کی توہین کیے جانےکا خدشہ پیدا ہوا ہے اور وہ بھی کوئی ڈھائی تین عشروں سے یعنی افغانستان میں کچھ عرصہ کے لیے طالبان کی حکومت ٓآنے کے بعد۔
اسلامی ملکوں کیں لوگوں کی اکثریت مسلمان ہے۔ کوئی مسلمان ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ویسے تو تمام مذاہب والے ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرتے ہیں، جو کچھ فیصد غیر مسلم ہیں، ان میں سے کوئی نابکار اگر اس حد تک گر بھی جائے تو اسے ایسا کرنے کی جرات نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی ایسی مذموم حرکت کرنے کا مرتکب ہو بھی تو اس کے خلاف قوانین سخت ترین ہیں۔
اس کے باوجود مسلمانوں کے مختلف فرقوں نے ایسا کرنے والے معدودے چند لوگوں سے اپنے طور پر نمٹنے کی خاطر نیم عسکری تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں۔ یہ نیم عسکری والا معاملہ بھی افغان جنگ کے بعد کی کڑی ہے۔ اس سے پہلے ۱۹۵۰ کے عشرے کے اوائل میں مضبوط ہونے والی تحریک ختم نبوت ہرگز متشدد نہیں تھی اور نہ ہی قانون کو ہاتھ میں لیا کرتی تھی۔
ایسی ہی ایک تنظیم ایک سرکاری محافظ کے ہاتھوں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کی پاداش میں قاتل کو پھانسی دیے جانے کے بعد بنی تھی کیونکہ بہت سے لوگ قاتل ممتاز قادری کو ناموس رسالت کا رکھوالا خیال کرتے ہیں۔ اس تنظیم کے مدارالمہام ایک ایسے شخص ہیں جو معذوروں کی کرسی پر بیٹھ کرکے خطاب کرتے ہیں اور وعظ میں جس کو چاہتے ہیں گالیاں بک دیتے ہیں۔
ان ہی دنوں سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل شدہ وزیراعظم میاں نواز شریف، تزک و احتشام کے ساتھ اسلام آباد چھوڑ کر اپنے شہر لاہور پہنچنا چاہتے تھے۔ سفر کے راستے اور انداز سفر سے متعلق ان کی پارٹی کے اندر اختلاف تھا۔ ان کے بھائی اور پنجاب کے وزیراعلٰی میاں شہباز شریف نے نام لیے بغیر ایک وزیر کی مذمت کی اور ان سے استعفٰی لیے جانے کی بات کر دی۔ یہ سوچے بنا یا شاید کچھ سوچ کر کہ نئی بننے والی مذہبی تنظیم لبیک یارسول اللہ ، بڑے بھائی نواز شریف کی خالی کردہ نشست پر ہونے والے انتخابات میں ان کی بھابی بیگم کلثوم نواز کے مقابلے میں کھڑی ہو کر اچھے خاصے ووٹ لے چکی تھی۔
قومی اسمبلی میں قانون توہین رسالت کو بہتر بناتے ہوئے ایک لفظ بدلا گیا تھا جو بالکل متبادل اور بروزن تھا مگر اس بات کو لے اڑنے والے لے اڑے۔ وزیر قانون زاہد حامد سے استعفٰی لیے جانے کے مطالبے ہونے لگے اگرچہ یہ تبدیلی کئی کمیٹیوں میں پیش ہونے اور اسمبلی میں زیر بحث لائے جانے کے بعد ہوئی تھی۔ جب واویلا ہوا تو حکومت نے فوری طور پر نہ صرف پہلے لفظ کو بحال کیا بلکہ معافی بھی مانگی۔
سترہ روز ہو گئے کہ اس تنظیم نے وزیر قانون زاہد حامد سے استعفٰی لینے کی خاطر فیض آباد میں دھرنا دے کرجڑواں شہروں راولپنڈی اسلام آباد کے لوگوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔ اسلام ٓباد ہائیکورٹ دھرنے کو ختم کیے جانے کا فیصلہ دے چکا ہے اور حکومت دو بار مدت بڑھوا چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی ازخود نوٹس لیا ہے مگر نہ دھرنا دینے والے ٹس سےمس ہوتے ہیں اور نہ ہی حکومت سختی برتنے کی جرات کر پاتی ہے کیونکہ معاملہ نازک ہے۔
مصالحت کی کوششیں کی گئیں، علماٗ و مشائخ کی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات والا۔ اب سنا ہے کہ حکومت اس بات پر مان گئی ہے کہ زاہد حامد تب تک بطور وزیر کام کرنا چھوڑدیں جب تک راجہ ظفرالحق کی سربراہی میں قائم کردہ کمیٹی کی رپورٹ افشا نہیں ہوتی۔ خیال غالب ہے کہ اس رپورٹ میں زاہد حامد کو بے قصور بتایا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل سے جسٹس فائز عیسٰی نے پوچھا ہے کہ کیا عدالتیں بند ہو گئی ہیں؟ یہ کونسا اسلام ہے جس سے لوگوں کو تکلیف پہنچائی جائے۔ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع سے سپریم کورٹ نے رپورٹیں طلب کی تھیں جو جمع کرا دی گئی ہیں۔ نتیجہ جو بھی نکلے مگر ریت ڈل چکی کہ کوئی بھی معاملہ ہو، دھرنا دے ڈالیں۔ بات سیاسی ہو یا مذہبی، اب جو چاہے گا ایسا کرے گا۔ حکومت اس کے خلاف تادیبی کارروائی اس لیے نہیں کرتی کہ اگلے برس انتخابات کا سال ہے، وہ نہیں چاہتی کہ مقتدر پارٹی کو زندیق، مذہب مخالف اور توہین رسالت کرنے والی پارٹی کہہ کر بدنام کیا جائے۔
ہمارا مسئلہ حکومت کی حمایت کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ ملک میں مختلف مذہبی جماعتوں کو کچھ بھی کرنے کی کھلی چھٹی دے کر ایسی پارٹیوں کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے جن کے انداز فسطائی ہیں۔ یہ پارٹیاں اور مذہبی دھڑے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں جو ایک خطرناک بات ہے۔
ملک میں لبرل لوگ اپنی بات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ معاشرے کو برداشت اور تحمل سکھائے جانے کے حق میں بات کر رہے ہیں۔ ایسی پارٹیاں ایسے ہر شخص کو عام طور پر مذہب مخالف اور خاص طور پر توہین مذہب کا مرتکب قرار دے کر یا تو مارنے کی کوششیں کریں گی یا مجبور کر دیں گی کہ وہ ملک سے بھاگ جائے اور پھر یہ ملک ایسا فسطائی ملک بن جائے جس میں اختیار و اقتدار کی خاطر مضبوط دھڑوں کے درمیان پہلے کشیدگی، پھر تنازعہ اور بالآخر خانہ جنگی کے امکانات بڑھ جائیں۔
جو بھی ایسے لوگوں کی سرپرستی کر رہا ہے وہ آگ کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے۔ ملک میں دہشت گردی، مسلح قوم پرستی اور ہمسایوں کے ساتھ مخاصمانہ و معاندانہ تعلقات کے معاملات پہلے سےہیں۔ ایک اور نئے منفی معاملے کو ٓگے بڑھنے سے روکنا چاہیے ورنہ بہت کچھ جل جائے گا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔