یہ سپیس ختم نہ کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سننے کا اتفاق نہیں ہوا، ٹی وی پر بعض ٹِکرز البتہ اس کے دیکھے۔ آئی ایس پی آر جیس پیرایے میں بات کرتی ہے، مجھے کبھی زیادہ سمجھ نہیں آئی اور نہ اس سے اتفاق ہوا۔ مگر بعض باتیں جو اخبارات میں رپورٹ ہوئیں، وہ مجھے درست لگی ہیں۔ یہ پوسٹ اس لئے صرف ان نکات کی حمایت میں ہیں، دیگر نکات کے حوالے سے ہمارے تحفظات موجود ہیں۔
۱: جو نام پریس کانفرنس میں ایک سلائیڈ کے ذریعے دکھائے گئے، ان میں کئی معروف صحافی اور بعض سوشل میڈیا کے جانے پہچانے نام ہیں۔ ٹوئٹر کو میں زیادہ فالو نہیں کرتا ، مجھے نہیں معلوم کہ ان ٹوئٹر ہینڈلز سے کیا کچھ پوسٹ کیا جاتا ہے۔ فیس بک البتہ میں دیکھتا رہتا ہوں بلکہ باریکی سے مشاہدہ ہے۔
اس لئے یہ بات تو طے ہے کہ سوشل میڈیا عموماً اور فیس بک پر خاص طور سے پاک فوج کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ زوروں پر ہے۔ کوئی آنکھوں کا اندھا ہی اس سے انکار کر سکتا ہے۔ ایک منظم مہم ہے جو چل رہی ہےبلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یلغار در یلغار ہے، کئی حلقے ہیں جو مسلسل اور تواتر سے فوج کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کا واحد مقصد پاک فوج کے افسروں، جوانوں کا مورال تباہ کرنا، انہیں عوام کی نظروں میں گرانااور ساکھ خراب کرنا ہے۔
یہ غلط ہے کہ ایسے لوگ صرف اپنے نقطہ نظر کا اظہار کر رہے ہیں، جن کا انہیں حق ہونا چاہیے، جرنیلوں کو نشانہ بنانا فوج کو نشانہ بنانا نہیں، فوج پر تنقید ریاست پر تنقید نہیں، اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی اثرورسوخ پر تنقید کو ناجائز نہیں سمجھنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ صرف عذر لنگ اور کمزور بہانے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ کسے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کیوں ایسا کیا جا رہا ہے؟
سوشل میڈیا پر تنقید کا عمومی لب ولہجہ تو بہت بگڑ چکا ہے، جن اداروں کے حوالے سے غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کیا جاتا تھا، مین سٹریم اخبارات، چینلز پرکچھ کہنے سے پہلے سوچ بچار کی جاتی، الفاظ کا درست استعمال کیا جاتا تاکہ ریاست کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔ سوشل میڈیا نے وہ تمام قدریں، اخلاقیات کے پرخچے اڑا دئیے ہیں۔ ہر وہ شخص اپنی گلی میں کسی سپاہی کو گزرتے دیکھ کر جس کا پیشاب خطا ہوجاتا ہے، وہ بھی چوڑا ہو کر سوشل میڈیا پر دن رات فوج ، جوانوں، جرنیلوں، چیف جسٹس اور جج صاحبان کو گندی گھٹیا گالیاں دیتا ہے۔ بدتمیزی اور دریدہ دہنی کی انتہا ہوگئی ہے۔ اس دوڑ میں سب شامل ہیں، لبرل، سیکولرلبرل، کٹھ ملا، شدت پسند مذہبی جنونی، دینی جماعتوں کے فرسٹیٹد کارکن، ملحدین کے گروہ، نسل پرستی کی آگ میں جلتے لوگ، نام نہاد قوم پرست۔ غرض ایک ہی قدر مشترک ہے کہ پاک فوج کو کسی طرح تباہ یا اتنا کمزور کر دیا جائے کہ ملک کا دفاع ممکن نہ رہے۔
صورتحال جس انتہا پر جا چکی ہے، وہ ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہے۔ جس انداز سے فوج کو ہدف بنایا جا رہا ہے، اس سے قومی سالمیت کے خطرات پیدا ہو گئےہیں۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ فوج سے محبت کا اظہار کرنے والے کو دانستہ طور پر ایک مہم کے تحت بوٹ پالشیا کہہ کر نفرت کی علامت بنا دیا تاکہ کوئی فوج کا دفاع کرنے کی جرات نہ کرے۔
اخبارات اور چینلز وغیرہ میں آج بھی ایڈیٹر کا انسٹی ٹیوشن موجود ہے، غیر ذمہ دارانہ تحریریں روک دی جاتی ہیں، نامناسب پروگرام نشر نہیں ہوپاتے، جذباتی نوجوانوں کو سمجھایا، ان کی تربیت وتہذیب کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے آج بھی قومی صحافت زیادہ ذمہ داراور بالغ نظر ہے۔ سوشل میڈیا پر جہاں کوئی سنسر موجود نہیں، وہاں سیلف سنسر کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے بیشتر بلاگرز حضرات سیلف سنسر نام کی کسی چیز سے واقف نہیں، گالیاں دینے سے شائد انہیں لگتا ہے کہ زیادہ لائیکس اور کمنٹس ملیں گے، اس لئے جو جتنا زیادہ دریدہ دہن ہے، وہ مقبول سمجھا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پرلکھنے والوں سے گزارش ہے کہ جہاں ایڈیٹر کا ادارہ موجود نہ ہو، وہاں سیلف ایڈیٹر کے خیالی عہدے کو تخلیق کریں اور اپنی تحریروں کو اس اینگل سے پوسٹ کرنے سے پہلے پڑھیں کہ یہ کسی قومی اخبار، جریدےمیں شائع ہوسکتی ہیں۔ اگر نہیں تو پھر اپنی ہی تحریرپر نظرثانی کریں، نامناسب ، غیر محتاط جملوں کے بجائے شائستہ الفاظ کا انتخاب کریں، جن باتوں کے ثبوت نہیں، انہیں ایڈٹ کر دیں، اداروں پر شدید بے رحمانہ تنقید کو خود قابل اشاعت بنائیں۔ لکھتے وقت یہ ضرور سوچیں کہ ان جملوں کو اگر محاذ جنگ پر اپنی جان ہتھیلی پر رکھے کوئی جوان، افسر پڑھے تو اسے کیسا لگے گا؟ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار پر تنقید الگ بات ہے، فوج کے مورال، جذبے اور قربانیوں کو تہس نہس کرنا یکسر مختلف اور قابل مذمت بات ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا رول زیادہ، کم ہوتا رہتا ہے۔ پاک فوج مگر اس وقت کئی محاذوں پر الجھی ہے، اس کے خلاف پروپیگنڈہ کا ٹول نہ بنیں۔
یاد رکھیں کہ سوشل میڈیا کی آزادی کے لئے کوئی لڑائی ، جدوجہد نہیں کی گئی، یہ ہمیں پلیٹ پر رکھ کر ملی ہے، اس آزادی کی قدر کریں، اسے بچائیں، جو سپیس ہمیں ملی ہے، اسے یوں غیر ذمہ داری سے ضائع نہ کریں۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر سنجیدگی، ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو پھرکہیں یہ سب کچھ سلب نہ ہوجائے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔