جاوید ہاشمی کی تقریر سے جتنی گرد بیٹھی، اتنی ہی اُڑی، صادق نسیم مرحوم کے بقول
وہ میرا شعلہ جبیں موجہ ہَوا کی طرح
دیے بُجھا بھی گیا اور دیے جلا بھی گیا
اُس نے درست کہا کہ باہر پیسہ رکھنے والے خود کو قوم کا لیڈر نہ کہیں۔ اس سے بحی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر دس ارب روپے سے صرف رائے ونڈ روڈ بنی تو باقی علاقوں کے لئے ترقّی کی رقم کہاں سے آئے گی ؟عمران کی ساری باتیں درست ہیں لیکن اُس نے صرف سیاست دانوں کو معافی مانگنے کا کہہ کر …. نادانستہ …. اُن ”معزز“ لوگوں کو محفوظ راستہ دے دیا جو قوم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتے! اس کالم نگار کو سیاست دانوں سے کبھی حسنِ ظن نہیں رہا۔ اُنکا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ اپنے آپکو قانون سے بالاتر گردانتے ہیں لیکن بات وہ کرنی چاہیے جو سچی ہو اور انصاف پر مبنی ہو۔
جاوید ہاشمی آمروں کا ساتھ دینے پر صرف سیاست دانوں پر کیوں گرفت کر رہے ہیں؟ صرف سیاست دان کیوں معافی مانگیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے شروع کے تین سالوں میں سیاست دان نہیں بلکہ غیر سیاست دان اُسکے ساتھ وابستہ تھے؟ آخر وہ پردہ نشین سامنے کیوں نہیں لائے جاتے اور اُنہیں معافی مانگنے کا کیوں نہیں کہا جاتا؟ سب سے بڑا ملزم تو پلاسٹک کا وزیراعظم شوکت عزیز ہے۔ اُسے واپس کیوں نہیں لایا جاتا؟ جاوید ہاشمی کا بڑا پن ہے کہ وہ ”ضیاالحق کابینہ کا حصہ بننے پر“ عوام اور ایوان سے معافی مانگ رہا ہے لیکن وہ لوگ جو آمریت کےلئے آکسیجن کا کردار ادا کرتے رہے، قوم سے معافی کیوں نہیں مانگتے؟ پوری قوم کو معلوم ہے کہ وہ کون سے صحافی تھے جو فوجی آمروں کے کراماً کاتبین بنے رہے اور وزارتوں اور سفارتوں کے فیصلے کرتے اور کراتے رہے۔ کسی آمر کو بیورو کریٹ ملے اور ”عشرہ ترقی“ کے مشورے دیتے رہے۔ عشرے منانے سے ملک مضبوط ہوتے تو مشرقی پاکستان الگ نہ ہوتا۔کسی آمر کو صحافیوں نے گھیرے میں لے لیا، گیارہ سال تک مرضی کے فیصلے کراتے رہے اور ان گنت فائدے اٹھاتے رہے۔مجیب الرحان شامی صاحب نے تو خود اعتراف کیا ہے کہ""جاوید ہاشمی کے لئے وزارت میں میری کوشش کا سو فی صد دخل تھا "" کیا ہی اچھا ہو کہ جاوید ہاشمی ان حضرات کو بھی معافی مانگنے کا کہیں! پنجابی ماہیے کےمطابق جو لوگ خالص کھانڈ کے بنے ہوئے سفید مکھانے اور بتاشے کھاتے رہے، وہ اب سامنے تو آئیں! پاکستان کے جن سترہ امیر ترین افراد کے نام انٹرنیٹ پر پوری دنیا نے دیکھے اور آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں ان میں سیاست دانوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی تو ہیں! ان میں ہر طرح کے سرکاری ملازم بھی ہیں اور وہ بھی جن کی بے پناہ دولت کے ڈانڈے کسی نہ کسی اوجڑی کیمپ سے جا ملتے ہیں۔
اہل سیاست سے ماورا بھی تو دیکھئے۔ وہ جس کے چودہ محلات بنے تھے وہ سیاست دان تو نہیں تھا۔ ایسے ایسے ”فقرا“ بھی ہو گزرے ہیں جنہوں نے زرِ خالص سے بنے ہوئے جوتے بیٹی کو شادی پر تحفے میں دیے۔ ایک اور صاحب جن کی سفارت کے کاغذات ایک مغربی ملک نے یکسر نامنظور کر دیے تھے اور جو اس ملک کے کھرب پتیوں میں سرفہرست تھے سیاست دان تو نہیں تھے۔
یونس حبیب اور مہران بنک معاملے کے بانی مبانی بھی سیاستدان نہیں تھے۔ ہمارے اہل سیاست اگر عقل اور علم رکھتے اور تھانے کچہری سے ذہنی طور پر باہر نکلتے تو اپنا کیس لڑتے اور اہل وطن کو بتاتے کہ پس پردہ رہ کر سب کچھ کرنےوالے کون تھے اور کیا تھے لیکن افسوس! اہل سیاست میں اتنا شعور ہی نہیں!
زرداری سے لےکر نواز شریف تک، پرویز الٰہی سے لےکر یوسف رضا گیلانی اور شیخ رشید تک …. اکثر و بیشتر سیاستدانوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، لیکن وہ جو نقاب اوڑھ کر بادشاہتیں کرتے ہیں اور کرتے رہے ہیں، ہمیشہ بچ جاتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ وہ غیر سیاستدان….جنکے پاس اتنا ہی، یا اس سے بھی زیادہ مال و دولت ہے، انہیں کوئی نہیں پوچھتا!
سیاست دان فرشتے نہیں، انکے گناہ ریت کے ذروں سے زیادہ ہیں، لیکن بات سچی کرنی چاہیے اور اصول یہ نہیں ہونا چاہیے کہ رسی اُس کے گلے میں ڈال دو جس کے گلے میں فِٹ آ رہی ہے، اور دوسروں کو چھوڑ دو۔ لیاقت علی خان سے لےکر بھٹو اور بے نظیر تک سیاست دان ہی خون میں نہاتے رہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ مجرم کون تھے اور کون ہیں اور اس غریب ملک میں کس معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں! آج یہ ملک جس صورتحال سے دوچار ہے اُسکے ذمہ داروں کا تعین دیانت داری سے کرنا ہو گا۔ سیاست دان اپنے جرائم کا انکار نہیں کر سکتے۔ لیکن سوچنے کی بات ہے پالیسیاں کون بناتا رہا اور کون بنواتا رہا؟ پلاننگ کمیشن پر کن کا قبضہ رہا، وزارت خزانہ میں گزشتہ ساٹھ برس میں کن کن بزر جمہروں نے اس ملک کےلئے کھائیاں کھودیں؟ بیرون ملک تعیناتیوں کےلئے سیاست دانوں کی دہلیزوں پر کون لوگ ماتھے رگڑتے رہے اور غلط مشورے دیتے رہے۔ زراعت اور خوراک کی اہم وزارت میں کون کون لوگ کام کرتے رہے اور سال کے بیشتر دن ملک سے باہر رہتے رہے۔ دور کیوں جاتے ہیں چند دن پہلے ڈاکٹروں کے معاملے میں کون ضد پر اڑا رہا۔ نوکر شاہی کے اس جونیئر رکن کی طاقت کا کیا راز تھا؟ خلقِ خدا کیا کہتی ہے؟ پھر مرکز میں کون اصل اختیارات کا مالک تھا؟ڈاکٹروں نے کس کے پتلے جلائے اور جھولیاں پھیلا پھیلا کر کس کو بددعائیں دیں؟ ریٹائرمنٹ کے بعد دس دس پندرہ پندرہ سال تک کون عیش و عشرت والی اسامیوں پر تعینات ہوتے ہیں۔ آج بھی میاں نواز شریف کن لوگوں کے حصار میں ہیں اور کس کس کے خاندان …. پردے کے پیچھے رہ کر …. بے پناہ فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں کی ابلہی کا یہ عالم ہے کہ وہ اُن لوگوں کی خاطر بدنامی مول لیتے ہیں جو کسی کے نہیں رہے اور نہ کسی کے ہوں گے!
ریلوے دم توڑ رہی ہے۔ واپڈا بجلی سے خالی ہو چکا ہے، پانی کی قلت بھیانک روپ دھارے سامنے آنےوالی ہے۔ کون ہیں اور کس گروہ کے ارکان ہیں جو ان سارے اداروں پر مسلط رہے، پالیسیاں بناتے رہے اور بصارت اور بصیرت سے محروم ہو کر فائل فائل کھیلتے رہے؟ آج ہم شیخ رشید کو اور محمد علی درانی کو مطعون کرتے ہیں لیکن وزارت اطلاعات میں آمر کا مستقل نمائندہ کون تھا جسے وزیروں کے آنے اور جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا!
جن سیاستدانوں کے نام جاوید ہاشمی نے گِنوائے ہیں وہ آمروں کا ساتھ دینے پر قوم سے ضرور معافی مانگیں اور وہ سیاست دان بھی جن کے نام جاوید ہاشمی نے نہیں لئے۔ لیکن بات سچی کرنی چاہیے اور انصاف پر مبنی آمریت کا اصل سہارا وہ تھے جو اونچی پشت والی کرسیوں پر دائیں بائیں گھوم کر ہلکورے لیتے رہے، کھڑکھڑاتی پوشاکیں پہنے سیاہ و سفید کے مالک رہے اور مغلوں کے تاریک دور کے سید برادران کی طرح بادشاہ گری کرتے رہے۔ یہ سب بھی معافی مانگیں۔
http://columns.izharulhaq.net/2011_04_01_archive.html
“