یہ رعائتی و فاروقی تجزیہ نگار
عہد فاروقی کی رعائت لیتے ہوئے نام کے کے ایک دانشور کو عمران خان کی تقریر پر صرف اتنا یاد آیا کہ اس نے کے پی کے میں کیا کر لیا ہے؟
میں نون لیگ کے ایسے حامیوں کو افسوس ہی سے دیکھ سکتا ہوں جو تیس سال کے بعد بھی نون لیگ سے انکے منشور پر گرفت نہیں کرتے۔ بلکہ وہاں سستی نعرے بازی، اور شخصیت پرستی کو انتخابی اسٹرٹیجی بنایا جاتا ہے۔ مگر جونہی بات عمران خان کی آتی ہے تو وہی تجزیہ نگار جو نواز شریف اور شہباز شریف کو تیس سال کے بعد مزید تیس سال دینے پر رضامند نظر آتا ہے ، عمران خان کو کے پی کے میں پہلے پانچ سال ہی میں تیس سال سے زیادہ کی ترقی جانچنے کا معیار رکھتا ہے۔ مقصد صرف "میں نہ مانوں" ہوتا ہے۔
اچھا عمران خان نے کیا کرلیا پر ہی بات کر لیتے ہیں۔ عمران خان نے جو گیارہ نکات پیش کیے ہیں، یہی اس کا کم و بیش ویژن ہے جو وہ پاکستان کی بہتری کے لیے دیکھتا ہے۔ اب آپ کو اگر قدرت نے انصاف والا دل دیا ہو تو اتنا تو کر ہی سکتے ہو کہ ان گیارہ نکات اور کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت کی ترجیحات کو ملا کر دیکھ لو۔ تعلیم، صحت، سیاحت، نوجوانوں کو روزگار، پولیس، پٹوار، میرٹ، بلدیاتی ادارے ، ان سب میں پیش رفت، اور مثبت پیش رفت تو نظر آتی ہی ہے۔ اپنی قبر کا خیال ہو، اور انسان اخلاقی طور پر بالکل باختہ نہ ہو تو یہ بھی نظر آ جاتا ہے کہ عمران خان نے کم از کم وہی کرنے کی کوشش کی جو اس نے پچھلے انتخابات میں وعدہ کیا۔ اسی سمت میں قوم کو لے جانے کی کوشش کی جس سمت کا اس نے عہد کیا تھا۔ اس میں کتنا کامیاب ہوا، اس پر تنقید ہو سکتی ہے، مگر اسکی سمت کی درستگی اور اس کے اثرات پورے صوبے پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
اس کے برعکس نون لیگ اور پی پی پی نے کیا کیا؟ کبھی انکے منشور اور کیے گئے کاموں کا موازنہ کریں۔ وہ آپ کو برسوں سے جو منشور دے رہے ہیں اس کے مطابق تو واقعی (صرف جوش خطابت میں نہیں) لاہور کو پیرس، اور کراچی کو نیویارک بن جانا چاہیے تھا۔
یہ فاروقی و رعائتی ان جماعتوں سے کیوں نہیں پوچھتے کہ پچھلے تیس سالوں میں تم نے اپنے منشور کی کتنی شقوں پر عمل کیا ہے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“