بلکہ اس سے بھی پہلے کی بات ھے اور ہے تو سیاسی بات لیکن الف لیلےٰ کی کہانی جیسی۔عوام جو ہمیشہ سادہ لوح ہوتے ہیں یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ مارشل لا کیا ہوتا ھے۔۔جیسے یہ نہیں جانتے تھے کہ برگر کسی پرندے کا نام ہے یا درخت کا۔۔ 1953 میں لاہور میں کچھ مذھبی شورش انتظامیہ کے قابو سے باہر ہوٰی تو مارشل نافذ کر کے شہر کو جنرل محمد اعظم خاں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس جنرل کا آگے بھی ذکر آےؑ گا۔۔ شورش تو فرو ہوگیؑ لیکن اور بھی بہت کچھ ہوا اور محاورے کے مطابق اس نے کتے کی دم کو بھی سیدھا کردیا شر پسندوں نےجانا کہ عبرت ناک سزا کیا ہوتی ہے۔روایت ہے کہ وہ کسی بازار سے گزرا تو فرمان جاری کرگیا کہ کل تک گوشت۔پھل دودھ دہی کی سب دکانوں پر سفیدی اور فلایؑ پروف جالی ہونی چاہۓ ۔اب جو ایک کان سننے اور دوسرا اڑانے کیلۓ استعمال کرنے کے عادی تھے اگلے دن سڑک پر مرغے کی طرح ازانیں دیتے دیکھے اور سنے گۓ اور عوام نے جان لیا کہ یہ حکومت نہیں مارشل لا ھے۔چنددن میں شہر کا نقشہ اور عوام کے مزاج بدل گۓ۔
اسلام کے نام پر لا قانونیت کا بازار گرم کرنے والوں کی صحیح مزاج پرسی کرنے والا یہ مارشل لا بہت مختصر رھا مگر اپنی دہشت کے نقوش چھوڑ گیا گرفتار شدگان کا معاملہ عدالت عالیہ تک گیا جس نے فیصلے میں لکھا کہ تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والے (50 سے زاید) جید علما 'مسلمان' کی تعریف پر اتفاق نہ کر سکے۔۔ پھر آیا 1958 جب گیارہ سال مین پاکستان کے سات وزراۓ اعظم اس منصب کیلۓ نا اہل قرار دینے کے بعد ہٹاۓ یا مرحوم کےؑ جاچکے تھے۔برطانیہ کے تربیت یافتہ آخری سپہ سالار محمد ایوب خان نے خود طے کیا کہ اب عنان حکومت اسے سنبھال لینی چاہۓ۔واضح ہو کہ ملک کی سلامتی اور اسلام کےروز اول سے خطرے میں ہونے کا ڈھنڈورا اس وقت بھی آج کی طرح پیٹا جاتا تھا اور وطن یا اسلام کے دشمنوں پر 'کمیونسٹ" ۔سرخے یا روسی ایجنٹ ھونے کا لیبل لگا کے اسی طرح قید و بنداور جلا وطنی کا عزاب دیا جاتا تھا جیسے اب کویؑ ایسا ہی الزام لگا کے دیا جاتا ھے۔عموماآ" اس کا نشانہ فیض ۔ احمد ندیم قاسمی اور سبط حسن جیسے دانشور ھی بنتے تھے۔سقراط کے زمانے سے دانشوری ایک پرخطر پیشہ ھے
پس سپہ سالار نے ایک اعزازی میجر جنرل اسکندر مرزا کوآییؑنی صدر مانا اور خود وزیر اعظم ھوا۔اس نے تین وفادارون جنرل اعظم۔جنرل کے ایم شیخ اور جنرل برکی کو مختلف محکموں کا وزیر بھی بنایا لیکن 14 دن بعد اس نے محسوس کیا کہ اسے کم سے کم صدر تو ھونا چاہۓ ۔۔ (۔ّبعد میں اس نے خود کو فیلڈ مارشل بھی بنالیا) پس اس نے اسکندر مرزا کو جلا وطن کیا اور اس تبدیلی کو پر امن انقلاب کا نام دے دیا اسکندر مرزا ایسا صدر تھا کہ تنخواہ پر ہی گذر بسر تھی۔ لندن جاکے کسی ہوٹل میں مینیجر کی نوکری کرلی تھی اس کی بیوی ناہید ایرانی نژاد تھی۔شوھر کا انتقل ہوا تو تدفین کیلۓ ایران لے گیؑ۔۔ اب دیکھو کہ ؎ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔۔ 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوا اور شاہ ایران اپنی ملکہ فرح کے ساتھ فرار ہوا تو۔۔دو گز زمیں بھی نہ ملی کوۓ یار میں۔۔ایراں میں شاہ کے دادا کا مزار ایک سفید طویل ریش بزرگوار کی نگرانی میں ڈھایا گیا۔ انہوں نے شاہ کے دادا کی ھڈیاں نکال پھینکنے کیلۓ پہلی کدال خود چلاتے ہوۓ اعلان کیا کہ اس جگہ بیت الخلا تعمیر ہونگے۔غضب یہ ہوا کہ وہیں سے پاکستان کے پہلے آیینی صدراسکندر مرزا کی ہڈیاں بھی نکال پھینکی گییؑں لیکن ہم نےمروت میں احتجاج تک نہ کیا
بات ہو رہی تھی 1958 کی۔آپ کو یقین کرنا مشکل ہوگا کہ اس دور کے جنرل بھی آج کے شریف سے کتنے زیادہ شریف تھے مثلا" اپنے عمران خان کے کزن جاوید برکی (سابق کپتان پاکستان کرکٹ ٹیم) کے والد جنرل برکی ڈاکٹر تھے ان کو وزارت صحت ملی تو انہوں نے پنڈی کے کینٹ جنرل ہسپتال کا دورہ کرنے کا اعلان کیا۔ہسپتال کی خوب جھاڑ پونچھ کی گیؑ رنگ روغن چمکتے فرش اور مستعد عملہ۔ اس نے سب جیسےدیکھا ہی نہیں ۔الماریاں ہٹوا کے پیچھے سے سرکاری ڈاک اہم دستاویزات اور ہر قسم کا کاٹھ کباڑ بر آمد کیا اور ساتھ لے گیا۔۔ ( باقی آیندہ)
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1009063529175665