یہ کوئی سکول میں ہونے ولا چھوٹا سا مقابلہ نہ تھا بلکہ ضلع میں منعقد ہونے والا ایک بہت بڑا تقریری مقابلہ تھا جس میں بہت سے سکول کے بچو نے حصہ لیا تھا آمنہ نے بھی اس مقابلے میں حصہ لیا اور سخت محنت کی اسے اور اس کے والد کو پورا یقین تھا کہ کچھ نہ کچھ تو ضرور ملے گا خیر مقابلے کا دن آگیا اور آمنہ کی محنت رنگ لائی اس نے بہت سے بچو کو پیچھے چھوڑ کر پہلی پوزیشن حاصل کی اس مقابلے میں وہ اپنے بابا کو ساتھ لیکر گئ تھی بیٹی کی جیت کی خبر سن کر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا ادھر آمنہ ٹرافی لیکر بڑھی تو سبھی نے اسے گھیر لیا سب بڑھ بڑھ کر اسے مبارک باد پیش کرنے لگے وہ کسی بہت بڑے سکول میں نہیں پڑھتی تھی اس لئے سبھی کو اس کی جیت سے سبھی متاثر تھے سب اس سے اس کا نام اسکے والد کا نام اور سکول کا نام پوچھ رہے تھے اور ایسے میں اسکے بابا سب کو مخاطب کر کر کے کہہ رہ تھے” یہ میری بیٹی ہے، یہ میری بیٹی ہے” یہ بات وہ بار بار دوہرا رہے تھے جب وہ گھر لوٹنے لگے تو راستے میں جو بھی ملتا آمنہ کے بابا مقابلے کے بارے میں اسے بتانے لگتے جب وہ گھر پہنچے تو امی اور باقی لوگ پہلے ہی سے اس کا انتظار کر رہے تھے آمنہ کے ہاتھ میں ٹرافی اور چہرے پر خوشی دیکھ کر سب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اسے کچھ نہ کچھ ضرور ملا ہے لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ اتنے سارے بچو میں اس نے پہل پوزیشن حاصل کی ہے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا سب کے چہروں پر خوشیوں کے رنگ بکھر گئے مٹھائی منگائ گئی رشتہ دارو کو بھی
فون کر کے بتایا گیا دوسرے دن اخبار میں بھی یہ خبر تھی آمنہ کا فوٹو بھی چھپا اور آمنہ کی بابا چوراہے پر بیٹھے سب کو فوٹو دکھا دکھا کر بتا رہے تھے کہ یہ میری بیٹی ہے وہ بے حد خوش تھے مہینو تک گھر آنے جانے والو کو مقابلے کی تفصیلات بتاتے رہے یہاں تک کہ لوگوں کے کان پک گئے اور گھر والے بھی پریشان ہوگئے خیر دھیرے دھیرے وقت گزرتا گیا ہفتے، مہینے، سال بیت گئے لیکن اس کے باوجود انہیں جب یاد آتا وہ اسی خوشی کے ساتھ پھر بتانے لگ جاتے اور سب بڑی بے دلی سے انکی ہزاروں بار کی بتائی بات سنتے ان سب میں آمنہ اپنے بابا کو یوں خوش دیکھتی تو سوچ نے پر مجبور ہو جاتی اسے نہیں پتہ تھا کہ اس کی چھوٹی سی جیت سے اس کے بابا اتنا خوش ہونگے
اسے تو اس مقابلے کی ہر بات، اس دن کا شور،اسکی جیت، لوگوں کی مبارک باد سے ہٹ کر جو بات ہمیشہ کے لیے یاد رہ گئی تھی، جو وہ کبھی نہیں بھول سکتی تھی ،وہ لفظ جو اسکے ذہن سے کبھی نہیں نکل سکتے تھے وہ تھے بھیڑ میں کھڑے ایک شخص کے جو سب کو مخاطب کر کے بار بار کہہ رہا تھا “یہ میری بیٹی ہے ،یہ میری بیٹی ہے “اس سے پہلے آمنہ کو نہیں پتہ تھا کہ اولاد کی جیت ماں باپ کے لئے اس قدر بائث مسرت ہوتی ہے