یہ میرے ابا میاں ہیں ۔
نام محمد بشیر ہے ۸۰سال کے ہو لیے ہیں ، اپر فیروز پور میں پیدا ہوئے ، تقسیم کے زمانے میں ۱۲ سال کے تھے ۔ وہاں روہی کے جنگلوں میں بکریاں چراتے تھے ۔ دادا جی کے ساتھ جَو ، باجرے اور چنے کی فصلیں اُگاتے تھے۔ مال مویشیوں کو پالے چالتے تھے ۔ پاکستان میں آئے تو سکندر کے دونوں ہاتھ خالی تھے ۔ سب بہن بھائیوں میں بڑے تھے ۔ اِن کے والد یعنی میرے دادا کو گٹھیا بیماری نے آلیا ، وہ چارپائی پر ہو گئے ۔ گھر کا تمام وبال اِنھی کے کاندھوں پہ آ پڑا ۔ محنت مزدوری کرنے لگے ۔ سخت محنت اور ایمانداری اور ولائے آلِ محمد اِن کی گھٹی میں تھی ۔ ۔ وہی گُڑھتی اولاد کو دی ۔ روزگار کے لیے کویت اور عراق ،شام میں پھرا کیے ،کئی سالوں تک وہیں روزی کے تنور میں جلا کیے ۔ کتاب اِن کی زندگی میں شامل ہے ۔ تاریخ اور مذہب کے طالب ِ علم رہے ۔ سکول نہ جا سکے مگر سکول ،کالج کے داعی کو کان پکڑوا رکھتے ہیں ، شیعہ سخت ہیں مگر غیر تبرائی ہیں ۔ ۔ بات کہیں کی ہو ، ذکر کسی کا بھی ہو اپسے گھما پھرا کر مولا علی اور مولا حسین پر لے آتے ہیں ۔ سب دوست اِن کے سُنی ہیں ۔ کھانا بہت کم کھاتے ہیں ۔ پورے دن میں محض ایک روتی کھاتے ہیں ۔ کبھی کسی کی شادی بیاہ میں ولیمے کی دعوت نہیں کھائی ، نہ کسی کے گھر میں جا کر کھانا کھایا ۔ حقے کے بہت شوقین ہیں ۔ تمباکو کڑوا پیتے ہیں ، بات میٹھی کرتے ہیں ۔ جدید بات کو ماننے میں دیر نہیں لگاتے ۔ میں جب بھی گاوں میں جاتا ہوں ۔ نوے فیصد وقت اِنھی کے پاس بیٹھتا ہوں ۔ اکثر شیعہ اور سُنی کتب پڑھے بیٹھے ہیں ۔ ادب اور شعر کے بہت دلدادہ ہیں ، وارث شاہ کی ہیر ، بلھے کا کلام ، مولوی عبد الستار کی یوسف زلیخا ، مولوی غلام رسول ، میاں محمد بخش ، شاہ حسین اور پتا نہیں کن کن کا کلام اِنھیں زبانی یاد ہے ۔ اِس عمر میں (اللہ سلامت رکھے ) جب چلتے ہیں تو کوئی اِن کے ساتھ پیدل نہیں چل سکتا ۔ ایسا تیز چلتے ہیں کہ گھوڑا بدک جائے۔ روٹی کم کھاتے ہیں اِس لیے بیمار کم ہوتے ہیں ۔کپڑے اور لباس کی کچھ پروا نہیں رکھتے ، جیسا ملا پہن لیا ، جیسا ملا کھالیا ، لطیفہ بازی اور شغل دوستوں کے ساتھ بے پناہ کرتے ہیں ۔قصہ گوئی میں کمال رکھتے ہیں ۔ کبھی زندگی میں اِنھوں نے نہ کسی کا مال کھایا، نہ کسی سے حسد کیا ، نہ کسی سے ڈرے جھکے ، سیاسی طور پر ساری زندگی پیپلزپارٹی کے ساتھ رہے ۔ اب اُن کے کرتوت دیکھ کر خموش ہیں ۔ پیپلزپارٹی سے میری بغاوت دیکھ کر زنجیدہ تو ہیں مگر کچھ بولے نہیں ۔ اللہ میرے والد صاحب کی عمر ایک سو بیس تک لے جائے ۔
مجھے فخر ہے اِنھوں نے ہمیں حلال رزق سے پالا پوسا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔