الطاف حسین کا معاملہ ایم کیو ایم کا نہیں‘پاکستان کا ہے۔
جس صورت حال سے ایم کیو ایم دوچار ہے ‘اس پر اگر کوئی خوش ہو رہا ہے تو ایک لمحے کے لیے رکے اور اردگرد دیکھے۔ہمارے کتنے سیاست دان ایسے ہیں جو برطانیہ جیسے ملک میں‘جہاں رول آف لا ہے‘بچ پائیں گے؟تقریباً سبھی نے دولت کے پہاڑ کھڑے کیے ہوئے ہیں۔اس ملک میں کس کی ہمت ہے کہ ان سے آمدنی کے ذرائع پوچھے۔اکثر نے اسلحہ کے انبار لگا رکھے ہیں۔ جو کچھ پی این اے کے وزیر اعلیٰ کرتے رہے ۔صدر آصف زرداری دبئی منتقل ہوئے تو قائم مقام صدر کے ہوتے ہوئے جس طرح صدارتی عملہ وہاں طلب کیا جاتا رہا‘ جو کچھ گیلانی اور پرویز اشرف کے عہد اقتدار میں ہوتا رہا‘جس طرح سینکڑوں سرکاری پہریدار رائے ونڈ کی ذاتی رہائش گاہوں پر متعین رہے اور ہیں‘جس طرح ایک ایم این اے‘پنجاب کے معاملات چلا رہا ہے‘یہ سب۔ اور بہت کچھ اور بھی۔کیا برطانیہ جیسے ملک میں قانون کے شکنجے سے یہ لوگ بچ جاتے؟
ہم میں سے اکثر ایم کیو ایم کے معاملے میں افراط و تفریط کا شکار ہیں ۔تعصبات غیر جانبدار تجزیوں کی راہ میں بند باندھے کھڑے ہیں۔ آنکھیں یرقان زدہ ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کا انتہا پسندانہ رویہ سمجھنا ہو تو سرسید احمد خان اس کی بہترین مثال ہیں۔ایک گروہ وہ ہے جو انہیں آج بھی گردن زدنی قرار دیتا ہے۔انگریز پرستی کا الزام لگاتا ہے اور ان کی خدمات کو یکسر نظر انداز کرتا ہے۔جس انگریزی کی تعلیم کے لیے انہوں نے 1877ء میں یونیورسٹی کی بنیاد رکھی‘اسی انگریزی کے متعلق 1925ء میں سید سلیمان ندوی نے کہا’’علماء پر آج انگریزی کا جاننا بھی فرض ہو گیا ہے‘‘ان کی تصنیف ’’مسافران لندن‘‘ ہی ان کے خلوص اور دلسوزی کی گواہی کے لیے کافی ہے۔دوسرا گروہ وہ ہے جو انہیں آسمان پر لے جاتا ہے‘ یوں کہ کلام پاک کی تفسیر میں اُن سے جو فروگزاشتیں ہوئیں‘ ان کی بھی مدافعت کرنے لگتا ہے۔سچائی ہمیشہ دو انتہائوں کے بیچ میں ہوتی ہے۔
ایم کیو ایم کے معاملے میں بھی ہم دو انتہائوں کا شکار ہیں۔ وہ جو لسانی تعصب کا الزام لگاتے ہیں اور سیاست میں تشدد متعارف کرنے کا سہراایم کیو ایم کے سر باندھتے ہیں ‘بھول جاتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی ’’مہاجر پرستی‘‘بعد میں ظہور پذیر ہوئی‘ہم پاکستانی لسانی اور صوبائی بنیادوں پر بہت پہلے بٹ چکے تھے۔ٹیلنٹڈ(Talented)کزن نے ستر کا عشرہ شروع ہوا تو جو کچھ کراچی میں کیا تاریخ کا حصہ ہے اور یہ ورق الٹا تو جا سکتا ہے ‘پھاڑا نہیں جا سکتا۔اگر پاکستانی‘پاکستان میں رہتے‘سندھی‘ پنجابی اور پٹھان نہ بنتے تو ایم کیو ایم کو ایک زرخیز زمین جو ہر طرح سے تیار تھی ’نہ فراہم ہوتی۔ کیا تضحیک سے انہیں قسم قسم کے القاب نہیں دیے گئے؟رہی تشدد کی بات۔تو مسئلہ ایم کیو ایم کے دفاع کا نہیں‘ (اور دوسرے پہلو سے بھی بات آنے والی سطور میں کی جا رہی ہے) انصاف کا ہے! کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ اندرون سندھ سے آ کر کراچی رہنے والے وڈیرے اور سائیں کس طرح رہتے تھے؟ان کے آگے پیچھے دو دو سو بندوق بردار ہوتے تھے ۔اردو بولنے والے پڑھے لکھے کتابی قسم کے نوجوان جب چھ چھ انچ کی مونچھیں اور دو دو گز کی بندوقیں دیکھتے تھے تو ان پر کیا گزرتی تھی؟
تشدد؟ولی خان جب لاشوں کا تحفہ لیاقت باغ سے پشاور لے کر گئے تھے‘وہ تو بعد کا واقعہ ہے، ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کے اسی ہزار نمائندوں نے فاطمہ جناح کو’’شکست‘‘دی اور ایوب خان انتخابات ’’جیت‘‘ گئے تو کراچی میں کیا ہوا؟یہ صرف کراچی تھاجہاں پورے مغربی پاکستان میں ایو ب خان شکست سے دوچار ہوئے تھے۔تین جنوری1965ء کو الیکشن کے نتیجہ کا اعلان ہوا اور دو دن بعد… جی جی صرف دو دن بعد‘پانچ جنوری کو گوہر ایوب کی قیادت میں فتح کا جلوس نکالا گیا۔اس جلوس میں شریک ہونے والے کون تھے؟کیا وہ سب ایک ہی زبان بولنے والے نہیں تھے؟کیا وہ سب مسلح نہیں تھے؟اس جلوس کے شرکاء نے فیڈرل ایریا‘لالو کھیت اور لیاقت آباد میں کیا کیا؟ان علاقوں میں رہنے والے کون تھے؟کن کے گھر جلائے گئے اور کن کو لوٹا گیا؟تیس افراد(اس زمانے میں تیس افراد کی ہلاکت‘ ایک بہت بڑی خبر تھی)جو مار دیے گئے‘کس قومیت سے تعلق رکھتے تھے؟حافظ نے انہی مواقع پر خبردار کیا ہے ؎
چوبشنوی سخنِ اہلِ دل‘ مگو کہ خطا ست
سخن شناس نہ ای دلبرا! خطا اینجاست!
ایم کیو ایم ردعمل کی پیداوار ہے اور ردعمل کبھی متوازن نہیں ہوتا!انسانی فطرت بدلہ لے تو ماپ تول کر نہیں لیتی۔محاورہ ہے کہ مردہ بولے نہیں‘ بولے تو کفن پھاڑ ے۔چنانچہ ردعمل میں ایم کیو ایم اس لکیر سے بہت آگے گزر گئی جو توازن نے کھینچی ہوئی تھی۔ایم کیو ایم سے بنیادی طور پر دو غلطیاں ہوئیں۔یہ غلطیاں دو چھوٹے سوراخوں کی طرح تھیں‘ جن سے پانی ذرا ذرا رس رہا تھا ۔آج یہ رستا ہوا پانی متلاطم دریائوں کی صورت اختیار کر چکا ہے!
ایم کیو ایم سے پہلی غلطی یہ ہوئی کہ اس نے اس قیادت کو خیر باد کہہ دیا جو اس کے آبائو اجداد نے علمی‘ دینی اور ثقافتی میدانوں میں سنبھالی ہوئی تھی!مسلم برصغیر کی فکری باگ ڈور ہمیشہ شمالی ہندوستان کے پاس رہی۔امیر خسرو اور حضرت نظام الدین اولیا یو پی ہی میں پیدا ہوئے۔شاہ ولی اللہ کا خاندان تھا یا احناف کے دو بڑے مکاتب فکر(دیو بندیوں اور بریلویوں )کے ہیڈ کوارٹرز‘ یا علی گڑھ تحریک‘ یا تحریک مجاہدین… سب اسی علاقے سے اٹھیں۔بیدل اور غالب سے لے کر شبلی‘سلیمان ندوی‘علی برادران‘ حکیم اجمل خان اور حسرت موہانی تک سب اس زرخیز زمین کی پیداوار تھے جو کرنال کے مشرق اور پٹنہ کے مغرب میں ہے۔کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری پٹنہ میں پیدا ہوئے۔قائد اعظم کو سارے مسلمان علاقوں میں پذیرائی ملی لیکن تحریک پاکستان میں ہر اول دستے کا کردار علی گڑھ نے ادا کیا۔ایم کیو ایم نے کوتاہ بینی سے کام لیا اور وقتی برتری کے لیے قلم کتاب کو چھوڑ کر گولی اور بندوق کو رہنما بنا لیا۔تاریخ گواہ ہے کہ آخر کار‘دانش اور علم ہی غالب آتے ہیں۔ جو لوگ کم سطح پر تھے ‘ان سے نمٹنے کے لیے وہ کم سطح پر اتر آئے اور یہ بہت بڑا المیہ تھا۔یہ وہ تعمیر تھی جس میں خرابی مضمر تھی!قومیں سیکٹر کمانڈروں سے ترقی نہیں کرتیں‘علم و دانش‘سائنس اور ٹیکنالوجی سے ترقی کرتی ہیں۔ اگر ایم کیو ایم والے کراچی میں ایسے ادارے قائم کرتے جو Lumsیا جی آئی کے انسٹی ٹیوٹ سے بڑھ کر ہوتے‘ اگر وہ کراچی کو خوست یا قندھار بنانے کے بجائے چنائی اور بنگلور بنانے پر توجہ دیتے تو آج ملک کے مختلف حصوں سے ان پڑھ مزدوروں کے بجائے ملک کی کریم کراچی کا رخ کر رہی ہوتی۔
دوسری غلطی یہ ہوئی کہ سیاسی جماعت کے بجائے ایم کیو ایم کو CULTبنا دیا گیا۔ جناب الطاف حسین کو عملی طور پر مافوق الفطرت درجہ دے دیا گیا‘ یوں کہ جیسے ان سے کسی غلطی کاصدورہو ہی نہیں سکتا۔نائن زیرو کو قلعہ الموت کا مقام عطا کر دیا گیا۔فدائیوں کی یاد تازہ ہو گئی۔ دو عشروں سے زیادہ کا عرصہ ہوا کہ پارٹی کے سربراہ پارٹی کو لندن سے چلا رہے ہیں۔سیاسی جماعتوں کی تاریخ میں ایسی مثال دنیا میں کہیں بھی نہیں پائی جا سکتی‘ نہ ماضی میں کہیں ایسا ہوا ہے۔انتہا یہ ہوئی کہ فکری نشستوں سے بھی وہ خود ہی خطاب کرتے تھے۔گویا پورے ایم کیو ایم میں الطاف بھائی فکری لحاظ سے بھی سر فہرست تھے!تقسیم کار کا وجود ہی نہ تھا!
ایک شخصیت پر اس درجہ ناقابل یقین حد تک انحصار کرنے کا جو منطقی نتیجہ نکلنا تھا، آج ایم کیو ایم اسی کا سامنا کر رہی ہے۔ الطاف حسین کا معاملہ ایم کیو ایم کا نہیں‘پاکستان کا ہے!خدا کرے پارٹی اور الطاف حسین مشکلات کے بھنور سے نکل آئیں اور بحران کا بخیرو خوبی خاتمہ ہو۔یہ آرزو بھی کرنی چاہیے کہ ایم کیو ایم ایک ہی شخصیت پر ناقابل یقین حد تک انحصار کرنے کے بجائے متبادل صورتوں کو بروئے کار لائے۔
پس نوشت۔اس کالم نگار نے انتخابات سے پہلے‘انتخابات کے دوران‘اور بعد میں‘کئی کالم عمران خان اور تحریک انصاف کے حق میں لکھے۔اس لیے کہ جو لکھا‘اسے اپنی دانست میں صحیح سمجھ کر لکھا (ملاقات عمران خان سے ہے‘ نہ ان کی جماعت کے کسی بڑے رہنما سے)۔ اب جب ان کی پالیسیاں عملی طور پر سب کو دکھائی دے رہی ہیں تو اختلاف بھی ایک غیر جانبدار کالم نگار کا حق ہے!لیکن تحریک انصاف کے دلدادگان جو زبان استعمال کرتے ہیں‘وہ بلا شبہ پاکستان میں آج تک کسی اور سیاسی جماعت کے وابستگان نے استعمال نہیں کی۔عدم برداشت کے ضمن میں ان حضرات کا موازنہ صرف ان لوگوں سے کیا جا سکتا ہے جو عقیدے کے اختلاف پر گردن مارنا جائز سمجھتے ہیں!تحریک انصاف کے پروانوں کی نرم ترین گالیاں گوٹو ہیل (جہنم میں جائو)اور شٹ اپ (بکواس بند کرو) ہیںلیکن دشنام کی اکثریت اخبار میں شائع نہیں کی جا سکتی۔بس یوں سمجھیے کہ ایسی ایسی گالیاں تراشتے ہیں کہ علامہ اختر کاشمیری بھی مات کھا جائیں اور ایسے ایسے بہتان باندھتے ہیں کہ بھڑکتے شعلے نگلنے والے بھی پیچھے رہ جائیں۔انتہا یہ ہے کہ ذرا سا اختلاف کرنے والے کو بکائو مال سمجھتے ہیں،کیا یہ لوگ ارذل الخلق (Scum of Earth)ہیں؟یہ اقتدار میں آئے تو یقینا فسطائیت کی نئی تاریخ رقم ہو گی۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“